میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سانحہ کراچی ،مزید کیا ہونا چاہیے ؟

سانحہ کراچی ،مزید کیا ہونا چاہیے ؟

ویب ڈیسک
منگل, ۳ مئی ۲۰۲۲

شیئر کریں

جامعہ کراچی میں منگل 26اپریل کو کنفیوسشش انسٹیٹیوٹ کے باہر چینی اساتذہ پر خودکش حملہ یقیناً قابل مذمت و افسوسناک ہے۔بہر حال یہ حیران کن ،اور رونگٹھے کھڑے کرنے والا واقعہ لمحہ فکریہ بھی ہے۔ جہاں پروفیسر Huang Guiping،Chen Sai،Ding Mufang اوروین کا ڈرائیور خالد نواز جاں بحق ہوا۔ چینی اساتذہ چینی زبان پڑھاتے تھے۔ کالعدم بی ایل اے کی جانب سے یہ پہلی منصوبہ بندی و کاروائی ہے کہ جس میں ایک خاتون نے جسم سے بارود باندھ کر دھماکا کیا۔ وگرنہ خودکش یا فدائی حملے یہ گروہ پہلے بھی کراچکے ہیں۔ڈاکٹر اللہ نذر کی طرح بی ایل اے کے اس حصے کی قیادت عام لوگ کررہے ہیں۔ انہوں نے سخت گیرسیاست سرداروں ، نوابوں اور سردار زادوں ، نوابزادوں کے چنگل سے آزاد کر لیا ہے۔ مسلح سیاست کے قائل سردار اور نوابزادے ان نئے رجحان و میلانات کے بعد دھول میں لپٹے دکھائی دے رہے ہیں۔ نوجوانوں کے یہ گروہ البتہ نواب خیر بخش مری مرحوم کی فکری تربیت سے نکلے ہیں ،جو اس کی فکر اور تعلیمات سے راہنمائی لے رہے ہیں۔ افغانستان سے واپسی کے بعد نواب مری نے” حق توار ”کے نام سے فکری و تربیتی نشستوں کا آغاز کیا۔جس میں بی ایس او اور دوسرے بلوچ نوجوان باقائدگی سے شریک ہوتے۔دراصل نوے کے دہائی ہی میں ریاست مخالف چنگاریاں سلگناشروع ہوئیں،جںکہ ریاست کے ادارے غفلت کی نیند سو رہے تھے۔ کالعدم بی ایل اے کا یہ دھڑا کوئٹہ کے کاسی روڈ پر واقع کوچہ سلطان کے باسی اسلم عرف اچھو نے قائم کیا۔ اسلم اچھو اور عبد النبی بنگلزئی نواب مری کے فکری شاگرد ، تربیت یافتہ اور معتقد خاص تھے۔چناں چہ جب سال دو ہزار میں کالعدم بی ایل اے نے باقاعدہ کاروائیاں شروع کردیں تو اسلم اچھو نوابزادہ بالاچ مری کی قیادت میں کالعد بی ایل اے سے وابستہ ہوئے۔ بالاچ مری کے افغانستان میں انتقال کے بعد کمان ان کے چھوٹے بھائی نوابزادہ حیربیار مری نے سنبھال لی تو بھی اسلم اچھو پہلے کی طرح اہم حیثیت کے حامل تھے۔ مری خاندان میں ترجیحات و قیادت کا اختلافات پیدا ہوا۔ حیربیار مری کے چھوٹے بھائی زامران مری نے یونائیٹڈڈ بلوچ آرمی (یو بی اے )کے نام سے الگ تنظیم قائم کرلی۔ زامران مری اسلم اچھو کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ بلکہ اسے درمیان سے نکالنے کی نیت رکھتے تھے۔ اسلم اچھو نمایاں اور معاملات پر دسترس رکھتے تھے۔ہوا یوں کہ حیربیار مری کے ایک کمانڈر بزرگ مری نے نشاندہی کرکے اسلم اچھو پر حملہ کرایا۔ فورسز کے آپریشن میں وہ زخمی ہوئے بلوچستان حکومت نے ان کے مارے جانے کی قطعی خبر جاری کردی تھی۔جو چند دنوں بعد غلط ثابت ہوئی۔اسلم اچھو زخمی حالت میں کندھار پہنچ گئے۔ کندھار کے بعد تب کی افغان کی توسط سے مزید علاج کے لیے نئی دہلی منتقل کیے گئے۔ صحت یاب ہونے کے بعد واپس کندھار منتقل ہو کر دوبارہ متحرک ہوگئے۔ا س گروہ نے سب سے پہلے 2011ء میں شفیق مینگل کی رہائشگاہ پر خودکش حملہ کرایا جس کے نتیجے میں جانی نقصان ہوا۔ اسلم اچھو کی اہلیہ بھی افغانستان منتقل ہوگئی تھی۔
11اگست2018ء کو بلوچستان کے علاقے دالبندین میں چینی ماہرین کی بس پر خودکش حملہ اسلم اچھو کے جوں سال بیٹے ریحان نے کیا تھا، جس نے بارود سے بھری کار بس سے ٹکرانے کی کوشش کی۔ چینی ماہرین سمیت چھ افرادزخمی ہوئے۔ ریحان کو اسلم اچھو اور اس کی اہلیہ نے حملہ کرنے کے سے پہلے رخصت کیا تھا۔ما بعد نومبر2018ء میں کراچی میں قائم چین کے قونصل خانے پر حملہ ہوا، جس میں پولیس اہلکار ، دو عام شہری جان سے گئے اور حملہ کرنے والے تینوں نوجوان مارے گئے۔ پھر مئی2019ء میں گوادر کے پرل کانٹینٹینل ہوٹل میں بی ایل اے کے حملہ آور داخل ہوئے۔ ہدف پورٹ پر کام کرنے والے چینی ماہرین اور عملہ تھا۔ کئی گھنٹوں کے آپریشن کے بعد ہوٹل کلیئر کیا گیا جس میں ہوٹل کے چار ملازمین ، ایک سیکورٹی اہلکارجان سے گئے۔ تین حملہ آور بھی مارے گئے۔ جون2020ئ میں کراچی کے اسٹاک ایکسچینج پر حملہ کرایاگیا جس میں تین سیکورٹی گارڈ اور ایک پولیس سب انسپکٹر کے ساتھ ساتھ چار حملہ آورمارے گئے۔اگست2021ئ میں گوادر میں ساحل سمندر پر سڑک کی تعمیر پر کام کرنیو الے چینی انجینئرز کی گاڑی پر خودکش حملہ کرایا گیا ،جس میں چار راہ گیر بچے جاں بحق اور ایک چینی انجینئر زخمی ہوا۔اسی طرح فروری 2022ء میں نوشکی اور پنجگور میں ایف سی کے کیمپوں پر بیک وقت حملے کئے گئے۔ یہ کارروائی تقریباً تین دن تک جاری رہی پندرہ حملہ آور اور نو فوجی جاں بحق ہوئے۔یہ تمام حملے فدائی تھے یعنی مسلح افراد تادم مرگ لڑنے اسٹریٹجی و ارادے سے گئے تھے۔یہ سب تعلیم یافتہ نوجوان تھے۔ یہاں تک کہ جامعہ کراچی کے اندر بھی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون، شاری بلوچ نے خودکش بم دھماکا کیا۔ شاری بلوچ تربت کے ایک پڑھے لکھے خاندان کی فرد تھی۔ دو بچوں کی ماں اور ایم فل کی طالبہ تھی۔ شوہر ڈاکٹر ہے۔ شاری بلوچ سیاسی سوجھ بوجھ کی حامل تھی۔بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد سے وابستہ رہیں۔ وہ کارروائی کے لیے بہت پہلے خود کو پیش کرچکی تھی۔ گویا ان کے اس انتہائی اقدام کے پیچھے سیاسی و فکری عوامل کار فرما تھے۔ ان کے اور شوہر کے درمیان پوری ذہنی ہم آہنگی تھی۔ اس بنا شوہر پہلے ہی بچوں سمیت روپوش ہوا۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ بلوچستان کے اندر نوجوان اس نوع کے فکری ،و سیاسی رجحانات قبول کررہے ہیں۔ شاری بلوچ کے اقدام سے ان رجحانات و احساسات کو مہمیز ملا ہے۔شاری بلوچ پیچھے رہ جانے والوں کا راستہ بتا کر گئی ہیں۔چناں چہ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ بلوچ نوجوان ڈاکٹر اللہ نذر ،اسلم اچھواور بشیر زیب سے گہرا اثر لے چکے ہیں، اور لے رہے ہیں۔
دسمبر2018ء میں بی ایل اے کا سربراہ اسلم اچھو کندھار کے ”عینو مینہ” کے مقام پر بم دھماکا میں اپنے تین یا چار کمانڈروں سمیت جاں بحق ہوگئے تھے جس کے بعد تنظیم کی کمان بشیر زیب نے سنبھال لی۔اسلم اچھو نے مجید بریگیڈ کے نام سے الگ فورس قائم کی تھی جو مجید لانگو کے نام سے منسوب ہے۔ مجید لانگو بی ایل اے کے کمانڈر تھے۔جس نے ستر کی دہائی میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر دستی بم سے حملہ کیا تھا وہ خود دھماکے کی زد میں آکر چل بسے تھے۔ اس کے چھوٹے بھائی کا نام بھی والدین نے مجید رکھا جسے مجید جونیئر پکارا جاتا۔ مجید جونیئر رواں انسر جنسی کے اندر بی ایل اے اہم کمانڈر تھا ،جس نے کئی سنگین وارداتیں کیں۔ درجنوں بم دھماکے اور بڑی تعداد میں آباد کاروں کو قتل کیا۔یہاں تک کہ نواب اسلم رئیسانی کی کابینہ کے صوبائی وزیر تعلیم شفیق احمد خان کو بھی قتل کیا۔ شفیق احمد خان کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا۔ مجید لانگو 2011ئ میں کوئٹہ کے علاقے وحدت کالونی کے اندر فورسز کے محاصرے اور آپریشن میں ماراگیا۔ یعنی مجید بریگیڈ مذکورہ دو بھائیوں کے نام سے منسوب ہے۔ مجید بریگیڈ کے کو آرڈینیٹر ،کیپٹن رحمان گل ہے۔بلوچستان کے ضلع نوشکی سے تعلق رکھنے والے اس شخص بارے بتایا جاتا ہے کہ پاک آرمی میں109لانگ کورس میں تھے۔رحمان گل بریگیڈ کے ٹرینر بھی ہیں ،ذرائع ابلاغ کو تفصیلات بھی جاری کرتا ہے۔ گویا بلوچستان کو درپیش یہ مسئلہ سنجیدہ اقدام کا متقاضی ہے۔مگرحکومتی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ شاہ زین بگٹی کو عسکریت پسندوں سے بات چیت کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر اللہ نذر اور بشیر زیب ان جیسوں کو پرکاہ برابر اہمیت نہیں دیتے نہ ہی ان کی نگاہ میں اس سطح کے لوگوں کی کوئی وقعت ہے۔ لہذا بلوچستان کا مسئلہ سیاسی بنیادوں پرحل کی طرف پہل کرلینی چاہیے۔ سیاسی ذرائع کے توسط سے حل کی تگ و دو کی ضرورت ہے۔بلا شبہ طاقت کے ذریعے مسائل عارضی طور پر حل ہوتے ہیں۔ با وقار قومی و سیاسی بڑوں و زعماء اور اہل الرائے اس تناظر میں معاون وکار گر ثابت ہوسکتے ہیں۔ بد قسمتی سے بلوچستان کے اندر علی الخصوص حکومتوں کے قیام و تشکیل میں عوام کے جذبات و احساسات کے برعکس فیصلے منوائے گئے ہیں۔ ایسی حکومتیں اور اس سے وابستہ افراد نوجوانوں میں اشتعال انگیز جذبات، احساسات کا موجب بنے ہیں۔ ظاہر ہے جب حکومتوں کی کلید کاسہ لیسوں، بدعنوان اور لوٹ مار کرنے والوں کے ہاتھ میں ہوں گی تو خوشگوار سیاسی فضا کے قیام کی توقع نہیں کی جاسکتی۔نہ بلوچ معاشرے کے اندر اس طبقے اور ان کے مذمتوں کو اہمیت حاصل ہے۔ المیہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے اندر خواتین پارلیمنٹرین تک غبن اور لوٹ مار میں مگن ہیں۔ غیر منصفانہ رویے اور چلن ہے کہ جماعت اسلامی کے رہنمائ مولانا ہدایت الرحمان بھی اداروں کے خلاف نعرے لگواتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس نوع کی سیاست1948ء سے سر اٹھاتی رہی ہے۔ سی پیک تو آج کی بات ہے۔ گویا حق اختیار اور وسائل کی ملکیت کا نعرہ آج کا ہر گز نہیں ہے۔غیر ملکی ہاتھ کو کھل کھیلنے کا راستہ بند کرنا ہے تو اپنے لوگوں کو قریب لانا ہوگا۔نیشنل ایکشن پلان کا جائزہ لیا جائے کہ آیا پیش نظر ہے بھی ؟ اور اس پر کتنا عمل درآمد ہوا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں