میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
قول وفعل کا تضاد

قول وفعل کا تضاد

ویب ڈیسک
پیر, ۳ مئی ۲۰۲۱

شیئر کریں

شہرکے ایک پوش علاقے کی بڑی جامع مسجد کے خطیب صاحب نے منبر پر بیٹھ کر "کفایت شعاری، صبر اور پرہیزگاری” پر تقریر شروع ہی کی تھی کہ معمولی کپڑے پہنے ہوئے ایک غریب آدمی نے کھڑے ہو خطیب کی بات کاٹتے ہوئے کہا:
حضور والا: آپ پیجارو میں بیٹھ کر مسجد میں تشریف لا تے ہیں حالانکہ چھوٹی گاڑی سے بھی آپ کا گزاراہو سکتاہے۔ آپ نے نفیس ترین کپڑے کا لباس زیب تن کیا ہوا ہے، آپ کے لگائے ہوئے قیمتی عطر سے پوری مسجد مہک رہی ہے۔ آپ کے ہاتھ میں چار چار قیمتی انگوٹھیاں نظر آ رہی ہیں شاید آپ کی ایک انگوٹھی کی قیمت میری مہینے بھرکی کمائی سے بھی زیادہ مالیت کی ہوگی۔ آپ نے آئی فون کا آخری ماڈل اٹھا رکھا ہے۔ آپ ہر سال اپنے زہد و تقوی میں اضافہ کیلئے حج اور عمرے پر تشریف لے جا تے ہیں۔ جناب والا: کسی روز ٹین کی چھت سے بنے میرے گھر پر تشریف لائیے، اور ایک رات کیلئے ایئر کنڈیشنڈ کے بغیر سو کر دیکھئے، پھرآپ کو احساس ہوگا کہ کیسے صبح سویرے فجر سے پہلے جاگ کر، شدت کی اس گرمی میں سڑک کنارے ٹھیلا لگاکر کمانا کتنا مشکل ہے ذرا سوچئے ایسی حالت میں آپ کو جانا پڑے آپ نے روزہ بھی رکھا ہوا ہو اور گھر میں سحری و افطاری کے لئے کوئی مناسب بندو بست بھی نہ ہو تب جا کر آپ کو پتہ چلے گا کہ صبر کے اصلی کیا معانی ہیں؟
’’ میں ہرروز محنت، مشقت اور لگن سے بارش ،سردی، گرمی اور آندھی کے دوران کام پورا مہینہ کرتا ہوں تب کہیں جا کر اتنے پیسے بچتے ہیں جو ضروریات کیلئے بھی ناکافی ہوتے ہیں میں اللہ کی ناشکری نہیں کررہا فقط آپ کو حقائق بتارہاہوں میرے جیسے نہ جانے کتنے سینکڑوں،ہزاروںبلکہ کروڑوں لوگ ہوں گے جن کو شاید پیٹ بھرکر کھانا بھی نصیب بھی ہوتاہے یانہیں ہمارے لئے غربت بدنصیبی بن گئی ہے بچوں کو کوئی ڈھنگ کی ملازمت نہیں ملتی ہمارے پاس دینے کو رشوت ہے نہ کوئی سفارشی ہماری بچیاں بھی محنت کرتی ہیں سلائی کڑھائی، ٹیوشن نہ جانے کتنے پاپڑ بیلناپڑتے ہیں تب بھی مسائل ختم نہیں ہوتے مہینہ ختم ہوجاتاہے لیکن ضروریات پوری نہیں ہوتیں ہم تو آپ کا لگایا ہوا عطر بھی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ہماری بہنوں،بیٹیوں کے سر چاندی جیسے ہوجاتے ہیں کوئی رشتہ نہیں آتا سب جانتے ہیں کرائے کے مکان میں رہنے والا ٹھیلا لگانے والاجس کی خود کی گزربسر ڈھنگ سے نہیں ہورہی جہیزکاٹرک نہیں دے سکتا ویسے بھی محرومیوں اور مایوسیوں کے مارے کسی کی ڈیمانڈ کیسے پورے کرسکتے ہیں ،جناب برانہ ماننا ہماری تو یہ حالت ہے کہ کبھی بچوںکی فیس نہیں کبھی کتابیں نہیں بیمارہوجائیں تو ڈاکٹروںکی فیس، مختلف نوعیت کے ٹیسٹ کروانے کے لیے وسائل اور مہنگی دوائیاں خریدنے کے متحمل نہیں ہوسکتے ، گھریلو ٹوٹکے ازماتے رہتے ہیں آرام نہ آئے تو محلے کے کسی ڈاکٹرکے پاس چلے جاتے ہیں جن کو لوگ اتائی کہتے ہیں سچ پوچھئے تو ایسے اتائیوں سے دوا لینا بھی ہمارے لیے عیاشی ہے آپ کیا جانیں سسکنے اور جینے میں کیا فرق ہے؟
مولانا صاحب، ناراضگی معاف ،ہم صبر اور شکر کے معنی شاید آپ سے بہترجانتے ہیں یہ تو آپ جیسے تلقین کرتے ہیں گوشت نہیں تو سبزی وگرنہ دال پکا لیں اگر جیب میں دال کے لیے بھی پیسے نہ ہوں تو انسان پرکیا بیتتی ہے یہ وہی جانتاہے جیسے قبرکا حال مردہ جانتاہے آپ نے دنیا کی سب سے مختصرتاثراتی کہانی تو سنی ہوگی نہیں سنی تو میں سنا تاہوں: ایک بچہ چلتے چلتے بے ہوش کر گرگیا لوگ اسے اٹھاکر ڈاکٹر کے پاس لے گئے ،ڈاکٹر نے اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے ترس کھاکر ایک شخص قریبی دکان سے جوس لے آیا ،پینے کے بعد بچے نے آنکھیں کھول دیں ڈاکٹر نے پوچھا کیاہوا؟ تم بے ہوش کیسے ہوگئے بچے نے سوال نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا ،ڈاکٹر صاحب کوئی ایسی دوا کا نام بتادو جسے پینے کے بعد بھوک نہ لگے، وہاںپر موجود لوگ اور ڈاکٹرہچکیاں لے لے کر رونے لگ گئے۔
حضرت صاحب مجھے یقین ہے جو اس وقت مسجدمیں موجود ہیں ان میں سے کسی کا بھی ایسے حالات سے سابقہ نہیں پڑاہوگا ،باتیں کرنے،اور عمل کرنے میں زمین آسمان کافرق ہے ۔ صبر اور شکر کے معنی ہمیں جاننے کی بالکل ضرورت نہیں کہ یہ تو ہمارے اور ہمارے گھر کے پرانے ساتھی ہیں۔ دکھاوے کی خیرات اور مستحقین کی عزت ِ نفس مجروح ہونے کے بارے میں بھی کبھی واعظ ،پندو نصیحت بیان کردیا کریں شاید اس طرح غریبوںکی تذلیل میں کمی آجائے۔ شاید آپ یہ بھی نہیں جانتے مستحقین کو ایک راشن کا تھیلا لینے کیلئے سردار، حاجی ، ملک، سخی لوگوںکے گھر کتنے چکر لگانا پڑتے ہیں کچھ تو اس موقع پر میڈیا کو بلاکر پوری دنیا میں ہماری عزت ِ نفس کا جنازہ نکال دیتے ہیں۔ صاحب یقین جانئے ایسے موقعوںپر مرجانے کو جی چاہتا ہے ، زمین پھٹے اور ہم اس میں سماجائیں ۔ اتنی تذلیل ،اتنی بے عزتی ،اتنی گھٹن شاید محشر کے روز بھی نہ ہو ۔ اسی اثناء میں ایک نمازی اٹھا وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ خطیب صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بیٹھ جانے کو کہہ دیا ۔ غریب آدمی نے کہا میری باتوںکو خطیب صاحب کی تقریر سمجھ کر ہی برداشت کرلیں ۔ہاں تو خطیب صاحب میںیہ کہنے والا تھا کہ کبھی معاشرہ میں امیروں کے ظلم کے بارے میں بتائیے۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سے جو مسائل پیدا ہورہے ہیں ان کاذکر بھی کریں مہنگائی، بے روزگاری ،کرپشن کے بارے میں بات کریں ،ذخیرہ اندوزی ،گراںفروشی،ملاوٹ،رشوت،سفارش کے بارے میں بتائیے اسلام میں تو یہ سب کچھ حرام ہے لیکن آپ اور آپ جیسے علماء نے کبھی اس کے خلاف بات نہیں کی ،ڈریں مت ببانگ دہل سچ بولیں، سچے کا ساتھ دیں ہمیں بتائیں اس معاشرہ میں مظلوموں کو کیسے انصاف ملے گا؟ ظالم کیسے کیفرِ کردار تک پہنچیں گے،ملک سے غربت کیسے دور ہوگی؟ جناب لوگوںکو یہ بھی بتائیں قومی دولت ہڑپ کرنے والے بدعنوان حکمرانوں کی حمایت کتنا بڑا جرم ہے؟ اسلام اس بارے میں کیا کہتاہے اورہمارے اسلاف کا کردار سب کے سامنے لائیں۔ حضرت صاحب یہ سیاست نہیں اسلام کااصل چہرہ ہے۔ ہمارا مذہب تو ہے ہی جزا اور سزا کا دین ۔ آپ علماء کرام حرام اور حلال کی تمیز اجاگر نہ کریں گے توکون کرے گا؟ او ریہ بھی بتائیے دولت کی غیر مساویانہ تقسیم نے کتنے مسائل پیداکرکے رکھ دئیے ہیں ۔خطیب صاحب ہمیں بتائیے قومی عہدوں کی بندر بانٹ اور اقرباء پروری اور منظور ِ نظر لوگوںپر نوازشات کرنے والوںکے لئے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا کیا حکم ہے ؟ اگر آپ یہ سب کچھ نہیں بتا سکتے تو ہمیں آپ کے خطاب کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ قول و فعل کا تضاد ہے جو سچائی کو دفن کرنے کے مترادف ہے ۔ ضمیرکی آواز دبانے کا مطلب توآپ جانتے ہی ہوں گے۔
٭٭٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں