کورونا کی تباہ کاریاں اور حکومت کی لاچاری
شیئر کریں
کورونا کے دوسرے دور کی تباہ کاریاں اتنی خوفناک اورڈراونی ہیں کہ انھیں پوری طرح لفظوں میں بیان کرپانا مشکل ہے ۔ملک میں آکسیجن کی زبردست قلت ہے اور لوگ سڑکوں پر جان دے رہے ہیں۔ اموات کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ شمشان گھاٹوں پرلمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں اور قبرستانوں میں جگہ کی قلت ہے ۔حالات کی سنگینی کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ گزشتہ تین دن میں یہاں دہلی کے مختلف شمشان گھاٹوں میںایک ہزار سے زیادہ چتائیں نذر آتش کی گئی ہیں اور یو میہ پچاس سے زیادہ لوگوں کو دفن کیا جارہاہے ۔ ہر طرف موت کا رقص جاری ہے ۔ انسانوں کی بے بسی اور لاچارگی کے مناظر دل کو چیر دینے والے ہیں۔ ملک میں آزادی کے بعد اب تک کی سب سے قابل اورمضبوط سرکار کا کہیں کوئی وجود نظر نہیں آرہا ہے ۔دیش کا مکھیا الیکشن میں مصروف ہے اور اسے قیمتی جانوں کو بچانے سے زیادہ اپنے اقتدار کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرنے کی جستجو ہے ۔بہرحال ہمیں وزیراعظم نریندر مودی کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ انھوں نے 23؍اپریل کو مغربی بنگال کی چناوی ریلیاں رد کرکے یہاں دہلی میں کورونا کی جائزہ میٹنگ میں حصہ لیا اور وزرائے اعلیٰ سے گفتگو کی۔ ظاہر ہے یہ اتنی بڑی قربانی کے ملک انھیں اس کا کوئی بدل نہیں دے سکتا۔ مورخ جب بھی ملک کودرپیش سب سے بڑے انسانی بحران کی تاریخ لکھنے بیٹھے گا تو اسے یہ ضرور یاد آئے گا جس وقت ہندوستانی عوام ایک انتہائی خوفناک وبا سے جوجھ رہے تھے اور ہر طرف لاشوں کا سلسلہ تھا تو ملک کی سیاسی قیادت اپنے اقتدارکی طاقت کو مضبوط کرنے میں مشغول تھی۔
ملک کے اندر حالات کس قدر خراب ہوچکے ہیں، اس کا اندازہ دہلی ہائیکورٹ کے ان ریمارکس سے ہوتا ہے ، جو اس نے پچھلے ہفتہ ایک پٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے دئیے ہیں۔عدالت عالیہ نے کورونا مریضوں کا علاج کررہے اسپتالوں کو ہر حال میں آکسیجن مہیا کرانے کا حکم دیتے ہوئے تنبیہ کی کہ ’’مرکزی حکومت حالات کی سنگینی پر بیدار کیوں نہیں ہورہی ہے ۔ ہم اس بات سے حیرت زدہ اور مایوس ہیں کہ اسپتالوں میں آکسیجن کی قلت ہے اور اسٹیل پلانٹ چل رہے ہیں‘‘۔ جسٹس وپن سانگھی اور ریکھا پلی کی بینچ نے یہاں تک کہا کہ ’’آپ بھیک مانگیں، ادھار لیں یا چوری کریں، اسپتالوں کو ہرحال میں آکسیجن مہیا کرائیں،ورنہ ہزاروں لوگ آکسیجن کی کمی میں جان گنوادیں گے ۔آکسیجن کی فراہمی مرکزی حکومت کی جوابدہی ہے‘‘ ۔
دہلی ہی نہیں ملک کے کئی ہائی کورٹوں نے آکسیجن اور کورونا سے لڑنے والی دواؤں کی زبردست کی قلت اور ویکسین کی فراہمی نہ ہونے پر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔مرکز اس صورتحال سے خاصا پریشان ہے اور اس کو نجات دلانے کے لیے سپریم کورٹ میدان میں آیا ہے ۔ اس نے کہا ہے کہ موجودہ کورونا بحران پرمختلف ہائی کورٹوں میں داخل کی گئی عرضیوں کو وہ اپنے ہاں منتقل کرنا چاہتا ہے تاکہ سب معاملوں کی ایک ساتھ سماعت ہوسکے ۔ جن چار نکات پر سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے نیشنل پلان طلب کیا ہے ، ان میں آکسیجن کی سپلائی،ضروری ادویات کی فراہمی، ٹیکہ کاری کا طریقہ اور لاک ڈاؤن لگانے کااختیارشامل ہے ۔ملک میں کورونا کے علاج کی سہولتوں کا کس حد تک فقدان ہے ، اس کا اندازہ مرکزی وزیراور ہندوستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل وی کے سنگھ کے اس ٹوئٹ سے لگایا جاسکتا ہے جس میں انھوں نے کووڈسے متاثر اپنے بڑے بھائی کے لیے غازی آباد کے کسی اسپتال میںایک بیڈ فراہم کرنے کی عوامی اپیل کی تھی۔ان کا یہ ٹوئٹ ملک کی سب سے بڑے صوبے میں صحت کے ناقص ڈھانچے کی صحیح عکاسی کرتا ہے ۔جب ایک مرکز ی وزیر اور ہندوستانی فوج کا سابق سربراہ حالات کے آگے اتنا لاچار ہوسکتا ہے تو عام آدمی کا کہنا ہی کیا؟
یہاں سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کورونا کی اس موذی وبا نے ملک میںاتنی خوفناک شکل کیوں اختیار کی اور اس کے سامنے ہماری پوری سرکاری مشنری بری طرح کیوں ناکام ہوئی۔ اس میں سب سے بڑا دخل اس اعلیٰ قیادت کی چرب زبانی کا ہے جو خود کو ہی ہر مسئلہ کا حل سمجھتی ہے اور جسے ہر معاملے میں عالمی قوت بننے کی جلدی ہے ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومت کورونا کے دوبارہ دستک دینے کے باوجود غفلت اور خوش فہمی میں مبتلا رہی۔جب بحران نے سنگین صورت اختیار کرلی تو اس سے نپٹنے کے طریقے بھی مسلسل ناکامی سے دوچار ہونے لگے ۔ جب ملک میں آکسیجن کا زبردست بحران کھڑا ہوگیا تو حکومت اپنی تمام لن ترانیوں کے باوجودصنعتی آکسیجن کوطبی آکسیجن میں تبدیل کروانے کی رفتار میں اضافہ نہیں کرواپائی۔اس دوران زندگی بچانے والی دواؤں کی زبردست قلت، اسپتالوں میں بستروں اور ویکسین کی کمی پر بھی قابو نہیں پایا جاسکا جو واضح طور پر حکومت کی کوتاہ اندیشی کا سب سے بڑا ثبوت تھا۔کورونا کی پہلی لہر نے جب تباہی مچائی تھی تو اسی وقت حکومت اپنے سارے وسائل طبی سہولتوں کی فراہمی پر مرکوز کردینے چاہئے تھے ، لیکن اس برے دور میں بھی حکومت نے نئی پارلیمنٹ بنانے کے لیے بیس ہزار کروڑ روپے کا بجٹ جاری کیا۔مودی سرکار کے اس ڈریم پروجیکٹ پر پانی کی طرح پیسہ بہایا جارہا ہے ۔ اس سے قبل نرمدا ندی کے کنارے سردار پٹیل کے مجسمے پر تیس ہزار کروڑ روپے سرکاری خزانے سے خرچ ہوئے تھے ۔ظاہر ہے جب حکومت کی ترجیحات میں انسانی جانوں کو بچانے سے زیادہ مجسموں اور عمارتوں کی تزئین ہو تو وہ علاج معالجے اور اسپتالوں پر کیوں توجہ دے گی؟
جہاں تک ویکسین کا سوال ہے تو گزشتہ فروری کے عام بجٹ میں ۳۵ ہزار کروڑ روپے اس کے لیے علیحدہ سے مختص کیے گئے تھے ۔ یہ خطیر رقم 90 کروڑ ہندوستانیوں کو کورونا سے بچاؤ کے دونوں ٹیکے مفت لگوانے کے لیے کافی سے زیادہ تھی۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ خطیر رقم
کہاں ڈوب گئی اور اب کیوں نئے فیصلے کے تحت تین طرح کی قیمتوں پر ویکسین فراہم کی جارہی ہے ؟ کیا اس سے چوربازاری میں اضافہ نہیں ہوگا، یعنی غریبوں کو ویکسین نہیں ملے گی۔ ویکسین کی تین سطحی قیمتیں طے کرنے کا فیصلہ حکومت کی کوتاہ اندیشی کا منہ بولتاثبوت ہے ۔
ناکام ویکسین پالیسی کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ ماہ کے تیسرے ہفتہ میں ہندوستان نے اپنے شہریوں کو لگانے کے مقابلے میںزیادہ تعداد میں دوسرے ملکوں کو ویکسین برآمد کی۔ یعنی 76 ملکوں کو چھ کروڑ ٹیکے بھیجے گئے جبکہ اس دوران اندرون ملک لگ بھگ پانچ کروڑ لوگوں کو ویکسین لگائی گئی۔ظاہر ہے سفارتی فائدے اور ‘وشو گرو’ بننے کی خواہش کو اس وقت تک لگام دی جاسکتی تھی جب تک خانگی حالات پوری طرح قابو میں نہیں آجاتے ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کے اولین ویکسین پیدا کرنے والے ملکوں میں شامل ہندوستان اپنی کمی پوری کرنے کے لیے ویکسین درآمد کرنے کی طرف رواں ہے ۔یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے ؟
آخر میں ایک اور بات کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے ۔آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ سال انہی دنوں جبکہ پورے ملک میں لاک ڈاؤن لگا ہوا تھااور کورونا کی تباہ کاریاں جاری تھیں تو اس وقت مسلمان اس کا سب سے بڑا نشانہ تھے ، کیونکہ نظام الدین کے تبلیغی مرکز میں پھنسے ہوئے تین ہزار لوگوں کی برآمدگی کے بعد گودی میڈیا نے ایسا طوفان برپا کیا تھا کہ‘مسلمانوں کو کورونا کا متبادل قرار دے کر انھیں ’کورونابم‘ اور ’کورونا جہادی‘ قراردے دیا تھا۔پورے ملک میں تبلیغی جماعت کے سینکڑوں ملکی اور غیرملکی کارکنوں کو سنگین دفعات کے تحت گرفتارکرکے جیلوں میں ٹھونس دیا گیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے نہ تو کوئی کورونا کا شکار تھا اور نہ ہی وہ اس کے ذمہ دار تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کو انھیں اعلیٰ عدالتوں نے تمام الزامات سے بری کردیا۔لیکن اس بار ہریدوارکے کمبھ میں چالیس لاکھ سے زیادہ شردھالوؤں نے جمع ہوکر اشنان کیا، لیکن میڈیا نے اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرلی۔جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں وہاں اشنان جاری ہے ۔ اسے محدود کرنے کے لیے وزیراعظم نے جو نمائشی اپیل کی تھی، اسے سادھوؤں نے حقارت سے ٹھکرادیاہے ۔ مگر کورونا پھیلانے کے الزام ایک بھی سادھو سے پوچھ تاچھ نہیں ہوئی ہے ۔اب یہ لوگ پورے ملک میں پھیل کر کورونا کو کس بدترین مقام تک لے جائیں گے یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔