ناراض نہ ہوں تو عرض کروں؟
شیئر کریں
دوستو،کورونا وائرس سے بچنے کے لیے ماہرین کئی طرح کی احتیاط تدابیر بتاتے آ رہے ہیں لیکن اب برطانیہ کے معروف ڈینٹل پروفیسر نے پہلی بار دانت برش کرنے کی تدبیر بھی بتا دی ہے۔ دی مرر کے مطابق یونیورسٹی آف برسٹل کے پروفیسر مارٹن ایڈی نے کہا ہے کہ ”میں حیران ہوں کہ میرے شعبے کے ماہرین نے کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اب تک دانت برش کرنے کی ہدایت جاری کیوں نہیں کی، حالانکہ یہ ثابت شدہ بات ہے کہ ٹوتھ پیسٹ مختلف قسم کے وائرس اور بیکٹیریا کو منہ جانے سے بچاتا ہے۔“پروفیسر ایڈی کا کہنا تھا کہ ”میں لوگوں کو نصیحت کروں گا کہ وہ جب بھی گھر سے باہر نکلنے لگیں تو جہاں فیس ماسک اور سینی ٹائزر وغیرہ کی احتیاط کر رہے ہیں وہیں دانت برش کرکے باہر نکلیں۔ اس طرح نہ صرف آپ کو منہ کے ذریعے وائرس لاحق ہونے کا خطرہ کم ہو گا بلکہ اگر آپ میں وائرس ہے تو آپ کے ذریعے دوسرے لوگوں کے متاثر ہونے کا امکان بھی کم ہو جائے گا۔ اس حوالے سے لوگوں کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ٹوتھ پیسٹ کا اینٹی مائیکروبیل اثر 3سے 5گھنٹوں تک برقرار رہتا ہے۔ اس دوران اگر آپ باہر ہیں یا دوبارہ باہر جانا چاہتے ہیں تو آپ کو دوبارہ دانت برش کرنے ہوں گے۔
یقین کرو،یہ بندہ ہمیں ڈاکٹر نہیں بلکہ کسی ٹوتھ پیسٹ یا ٹوتھ برش بنانے والی کمپنی کا ملازم لگ رہاہے، جن کا بزنس کورونا وائرس کے باعث ہونے والے عالمی لاک ڈاؤن میں شاید بری طرح متاثر ہواہو۔۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے صنعتیں،دفاتر وغیرہ سب بند پڑے ہیں اس لیے لوگ صبح جلدی اٹھنے کے بجائے دوپہر کو آرام سے اٹھتے ہیں۔۔ جس طرح آج آپ لوگ اٹھے ہیں۔۔ چونکہ گھر سے نکلنا ہی نہیں ہوتا تو لوگوں نے روزانہ شیو بنانا بھی چھوڑ دی ہے، دانت بھی برش نہیں کیے جاتے۔۔ کپڑوں کے حوالے سے بھی لاپرواہ ہیں۔۔ ایک دوست بتارہے تھے کہ۔۔صبح صبح نوبجے کے قریب میرے پڑوسی نے میری کار کی چابی مانگی اور کہا۔۔۔مجھے لیب سے ایک رپورٹ لانی ہے۔۔میں نے کہا۔۔ٹھیک ہے لے لو بھائی۔۔وہ کار کی چابی لے کر چلا گیا۔۔ تین گھنٹے بعد واپس آیا، مجھے چابی دی اور مجھے گلے لگایا، اور۔۔بہت بہت شکریہ۔۔ کہہ کراپنے گھر چلا گیا۔۔جیسے ہی وہ اپنے گھر گیا، گیٹ پرکھڑے ہو کر اپنی بیوی سے کہنے لگا۔۔۔رپورٹ پازیٹو آئی ہے۔۔۔جب یہ بات میرے کان میں پڑی تو میں تو گرتے گرتے بچا،خوفزدہ ہوکر، میں نے اپنے ہاتھوں کو سینیٹائزر سے صاف کیا،پھر کار کو جلدی سے سرف سے دھویا۔۔پھر یاد آیا مجھے اس نے گلے بھی لگایا تھا،میں نے دل میں سوچا مارا گیا تو بیٹا، تجھے بھی اب کرونا ہو کر رہے گا،پھر ڈیٹول صابن سے رگڑ رگڑ کر نہایا اور دکھی ہوکر گھر کے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔۔لیکن غصہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، چنانچہ تھوڑی دیر بعد میں نے پڑوسی کو فون کر کے کہا۔۔۔بھائی، اگر آپ کی رپورٹ پازیٹو تھی۔۔۔ تو کم سے کم مجھے تو بخش دیتے؟؟ میں بے چارہ غریب تو بچ جاتا۔۔پڑوسی زور زور سے ہنسنے لگا اور کہنے لگا۔۔۔وہ رپورٹ..؟۔۔ارے بھائی وہ رپورٹ تو آپ کی بھابھی کی pregnancy کی تھی،جو پازیٹو آئی ہے۔۔
ہمارے کچھ نوجوان دوست احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں۔۔ احساس کمتری کی وجوہات بھی اتنی بڑی نہیں ہوتی۔۔ مثال کے طور پر۔۔میری انگریزی کمزور ہے۔۔ میرے بال سلکی کیوں نہیں؟ میرے چشمہ کیوں لگا ہے؟ میرے ابا امیر کیوں نہیں؟ مجھے تو کمپیوٹر سے متعلق الف بے کا بھی نہیں پتہ۔۔ میرے پاس اسمارٹ فون نہیں۔۔ ایسے لاتعداد معاملات میں نوجوان سوچ سوچ کر فضول پریشان ہوتے رہتے ہیں، حالانکہ مثل مشہور ہے۔۔ہمت مرداں مدد خدا۔۔ آپ کے اندر کوئی بھی کمی،خامی ہے اسے دور کرنے سے کس نے روکا ہے؟ چلیں اس پر ایک واقعہ سن لیں۔۔دنیا کی سافٹ وئیر کی سب سے بڑی کمپنی مائیکرو سافٹ کو آج سے دس سال پہلے آفس بوائز یعنی چپڑاسیوں کی ضرورت تھی۔۔کمپنی نے اس پوسٹ کے لیے بیس پڑھے لکھے نوجوانوں کا انتخاب کرلیا۔۔ان بیس نوجوانوں نے نوکری کا فارم بھر کر منیجر ایچ آر کے پاس جمع کرا دئیے۔۔منیجر نے فارمز کامطالعہ کیا تواس نے دیکھاایک نوجوان نے فارم میں اپنا ای میل ایڈریس نہیں لکھا تھا۔ منیجر نے اس نوجوان سے وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا۔۔جناب میرے پاس کمپیوٹر نہیں ہے چنانچہ میں نے اپنا ای میل اکاؤنٹ نہیں بنایا۔۔منیجر نے اس سے غصے سے کہا۔۔آج کے دور میں جس شخص کا ای میل ایڈریس نہیں ہوتاوہ گویا دنیا میں وجود نہیں رکھتا اور ہم ایک بے وجود شخص کو نوکری نہیں دے سکتے۔منیجر نے اس کے ساتھ ہی اس کی درخواست پر ریجیکٹڈ (Rejected) کی مہر لگا دی۔اس وقت اس نوجوان کی جیب میں صرف دس ڈالرز تھے۔ نوجوان نے ان دس ڈالرز سے اپنی قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔۔اس نے دس ڈالرز سے ٹماٹر خریدے اور شہر کے ایک محلے میں گھر گھر بیچنا شروع کر دئیے۔ ایک گھنٹے میں نہ صرف اس کے ٹماٹر بِک گئے بلکہ اسے 15ڈالر منافع بھی ہو گیا۔ دوسرے دن وہ 20 ڈالرز کے مزید ٹماٹر خرید لایا۔۔یہ ٹماٹر 40 ڈالرز میں بِک گئے‘دو دن بعداس کا سرمایہ سو ڈالرز تک پہنچ گیا۔قصہ مختصر نوجوان کا کاروبار چل نکلا اوراس نے موٹر سائیکل پر پھیری لگانا شروع کر دی‘ پھر اس نے وین خرید لی‘ اس کے بعد اس نے بڑا ٹرک لے لیا اور لوگوں کے گھروں میں سبزی سپلائی کرنے لگا۔ اس ٹرک نے جلد ہی کمپنی کی شکل اختیار کر لی۔ اس نے بڑے بڑے گودام بنائے‘ دو اڑھائی سو لوگ ملازم رکھے۔ بیس پچیس گاڑیاں لیں اور پورے شہرکو سبزیاں فراہم کرنے لگا۔ تین چار برسوں میں امریکا کی دوسری ریاستوں میں بھی اس کی کمپنی کی شاخیں کْھل گئیں اور یوں وہ کروڑ پتی بن گیا۔اس دوران اس شخص نے شادی کر لی‘ شادی کے بعد اس نے اپنی بیوی کے لیے انشورنس پالیسی لینے کا فیصلہ کیا۔۔ انشورنس ایجنٹ آیا، اس نے انشورنس کا فارم پْر کیا اور اس سے کہا۔۔مسٹر فِلپ آپ مجھے اپنا ای میل ایڈریس لکھوا دیں تا کہ میں آپ کو کانٹریکٹ میل کر دوں۔۔فِلپ نے مسکرا کر جواب دیا،لیکن میں نے تو آج تک اپنا ای میل نہیں بنایا۔۔انشورنس ایجنٹ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور بولا،کمال ہے جناب آپ نے کمپیوٹر اور ای میل کے بغیر اتنی ترقی کر لی۔ آپ سوچئے آپ اگر کمپیوٹر اور ای میل استعمال کررہے ہوتے تو کہاں ہوتے۔۔فلپ نے یہ سن کر قہقہہ لگایا اور بولا۔۔اگر میراای میل ہوتا تو میں اس وقت مائیکرو سافٹ میں چپڑاسی ہوتا۔۔کیونکہ جن انیس نوجوانوں کے ای میل ایڈریس تھے وہ آج بھی وہاں چپڑاسی کی نوکری کر رہے ہیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔