پاک بھارت مذاکرات میں مسئلہ کشمیر کی کلیدی حیثیت
شیئر کریں
اس وقت مسئلہ کشمیر پاک بھارت مذاکرات میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے ۔ پاکستان کا شروع ہی سے یہی مو¿قف رہا ہے کہ مذاکرات کے لیے کشمیری قیادت کو اعتماد میں لینا انتہائی ناگزیر ہے، لیکن بھارت دومرتبہ اس بات پرمذاکرات کرنے سے راہِ فرار اختیار کرچکا ہے۔ پاک بھارت تعلقات کے اثرات صرف خطے میں ہی نہیں بلکہ عالمی سیاست پر بھی مرتب ہوسکتے ہیں ۔ دونوں ملکوں میں اتار چڑھاو¿ کا جنوبی ایشیا کے تقریباً 2ارب عوام کی زندگیوں پر براہِ راست اثر پڑتا ہے۔ اورغالباً یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ بھارت کو تمام متنازع فیہ امور میں جامع مذاکرات کی دعوت دی ،تاکہ باہمی تعلقات میں بہتری لاکر خطے میں بسنے والے عوام کو مسرت کی نوید سنائی جاسکے ۔ لیکن بھارت روزِ اوّل سے ہی اس قسم کے جامع مثبت مذاکرات میں ٹال مٹول اور پس و پیش سے کام لیتا رہا ہے۔ در اصل بھارت مسئلہ کشمیر اور دیگر اہم ترین موضوعات پر پاکستان سے جامع مذاکرات کرنا ہی نہیں چاہتا۔ اسی وجہ سے وہ ان سے پہلو تہی اپنائے ہوئے ہے ۔
ابھی چند ہفتے قبل نئی دہلی میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر عبد الباسط نے بھارت کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کا جاری سلسلہ فوری طور پر بند کرے ۔ انہوں نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو اور اس کے مزید کارندوں کے پاکستان میں پکڑے جانے سے متعلق کہا ہے کہ ان کاپکڑا جاناایک نہایت سنجیدہ معاملہ ہے ۔ ان سے تحقیقات جاری ہیں اور تحقیقات کی روشنی میں تخریبی سرگرمیوں میں ملوث مزیدافراد تک رسائی حاصل کی جاسکے گی۔ پاک بھارت مذاکرات جب بھی ہوں گے، برابری کی بنیادپر ہوں گے ۔ پاکستان کو بھارت کے ساتھ مذاکرات کرنے میں کوئی جلدی نہیں ہے ۔ پاکستان چاہتا ہے کہ مذاکرات بغیر کسی شرط کے برابری کی سطح پر ہونے چاہئیں اور کشمیری قیادت کو اعتماد میں لے کر ہونے چاہئیں ۔ مسئلہ کشمیر کے حل کیے بغیر پاک بھارت تنازعات کا خاتمہ کسی طرح بھی ممکن نہیں ۔ پاکستان اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ اچھے اور مثبت تعلقات استوار کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ تعلقات کی بہتری چاہتا ہے ۔ بلاشبہ پاک بھارت دوطرفہ مسائل کا جامع حل مذاکرات ہی میں مضمر ہے اور پاکستان بھارت کے ساتھ تمام تر مسائل باہمی افہام و تفہیم اور بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا خواہاں ہے ۔
اس میں دورائے نہیں ہوسکتیں کہ پاک بھارت خوش گوار تعلقات خطے کی ترقی ، خوش حالی اور استحکام کے لیے انتہائی ناگزیر اہمیت کے حامل ہیں ۔ اصولی طور پر ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ تقسیم ہند کے بعد جنوبی ایشیا کے یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے اپنے عوام کو غربت و افلاس ، جہالت و ظلمت اور ناانصافی کے ناسور سے نجات دلانے کی ہر ممکن کوشش بر روئے کار لاتے ۔ محاذ آرائی کے بجائے صحت مند مسابقت اور کشیدگی کے مقابل باہمی اعتماد کا ماحول پیدا کرتے ۔اور اپنے اپنے ملک کی بقاءکی خاطر ایک دوسرے کے احترام کی سوچ کے تحت برابری کی سطح پر باہمی تعلقات کو فروغ دیتے ۔ لیکن آج انتہائی افسوس کے ساتھ مجبوراً یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ دونوں ممالک عملی طور پر آج تک ایسا نہیں کرسکے۔
قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے دوٹوک الفاظ میں بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی خواہش کا ظہار کیا تھا، جس کے جواب میں بھارت کی قیادت کا ردّعمل آج کی طرح اس وقت بھی منفی ہی رہا تھا ۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کو دل سے قبول نہ کرنے کی سوچ ایسی تکلیف دہ بنیاد رہی ہے کہ جس نے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں خلیج کو بڑھادیا ہے ۔ کوئی ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کی جاسکتی کہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہوکہ بھارت پاکستان کو پر امن ، ترقی یافتہ اور خوش حال دیکھنا چاہتا ہو ۔پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے اور اکھنڈ بھارت کے غیر حقیقی نظریے ہی کی وجہ سے نئی دہلی نے حیدر آباد اور جوناگڑھ کی ریاستوں کو جبراً بھارت میں شامل کردیا تھا اور کشمیر پر غاصبانہ قبضہ جمالیا تھا اور بھارت کی اس خطرناک سوچ کے نتیجے میںجنوبی ایشیا کے عوام بظاہر نہ ختم ہونے والی آزمائش کا شکار ہوگئے ۔
کشمیر پر قبضہ کرنے سے شروع ہونے والی اس کشمکش نے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کا روایتی حریف بنادیا ہے ۔ بھارتی قیادت نے نہ صرف کشمیری عوام کی خواہشات کی توہین کی ہے، بلکہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق اس مسئلے کو حل کرنے پر آمادگی کے باوجود ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلسل لیت و لعل سے کام لیا ہے ۔ مسئلہ کشمیر سے پاکستان کی توجہ ہٹانے کے لیے بھارت نے پاکستان پر بار بار مختلف قسم کی جنگیں مسلط کیں،باہمی سرحدوں اور کنٹرول لائن پر کشیدگی کا ماحول پیدا کیا، اور ایسے جارحانہ اقدامات کیے کہ جن سے خطے میں بد امنی اور فساد پھیلنے کے بیسیوں واقعات جنم لیتے ہیں ۔
بھارت کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستانی قیادت اور پاکستانی عوام قطعاً اس بات سے لاعلم نہیں کہ پاکستان میں صوبائی ، لسانی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دے کر خطے میں عدم استحکام کی صورت حال پیدا کرنے کے پس پردہ مکار بھارت ہی کا ہاتھ ہے ، اور کوئٹہ میں چند ماہ قبل شرپسندوں کی فائرنگ سے F.Cکے 4جوانوں کی شہادت سمیت دہشت گردی اور تخریب کاری کے واقعات کے تانے بانے بھی بھارت ہی سے جاملتے ہیں ۔
بلاشبہ امریکا ، مغرب ، بھارت اور افغانستان، چاروں فریق موجودہ حالات کو ایسے رُخ پر لے جانے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں کہ جن کے نتیجے میں کسی نہ کسی طرح پاک چین اقتصادی شراکت راہ داری کو سپوتاژ کیا جاسکے ۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جاےے تو پاک بھارت مذاکرات کے ُدور دُور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے ۔ اس لیے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ سنجیدگی کے ساتھ جامع مذاکرات کرنے پر کسی بھی طرح آماد نہیں ہورہا ہے ۔
دوسری طرف امریکہ، جنوبی ایشیا میں افغان امن عمل کی آڑ میں بھارت اور ایران کو آگے لاکر افغانستان میں پاک چین اقتصادی شراکت راہ داری منصوبے کے خلاف نئی صف بندی کر رہا ہے ۔ ایسے میں پاکستان پر بھی لازم بنتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ ، اسلامی تعاون کونسل اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسے فورمز پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے اپنی سفارتی کوششیں تیز سے تیز تر کردے ۔ اگر 68برسوں کی قانونی جنگ کے بعد نظام حیدر آباد دکن کے مقدمہ میں پاکستان بھارت کو زیر کرسکتا ہے تو مقدمہ¿ کشمیر میں وہ اسے کیوں نہیں بچھاڑ سکتا ؟اور یاد رکھیں کہ وہ وقت دور نہیں جب مقدمہ¿ کشمیر کا فیصلہ بھی انشاءاللہ پاکستان کے حق میں ہوجائے گا اور کشمیر پاکستان بن کر رہے گا۔ بس تھوڑی سی ہمت اور کوشش کی ضرورت ہے کہ
مل ہی جائے گی کبھی منزل اقبال
کوئی دن اور ابھی بادہ پیمائی کر!