کوروناکاعلاج کیسے ممکن ہے
شیئر کریں
دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد دنیا کو جس خوفناک وباء کا سامناکرناپڑرہاہے اس سے کرہ ٔ ارض کا شاید ہی کوئی ملک محفو ظ رہا ہوں کورونا وائرس کے نتیجے میں دنیابھرمیں لاک ڈائون کا سلسلہ درازہے ،ایک طرف جہاں ہیوی ویٹ معیشت کا حجم رکھنے والے ترقی یافتہ ممالک ایک نظر نہ آنے والے وائرس کے سامنے ڈھیرہوگئے ہیں وہاں دنیا کے غریب ممالک انتہائی متاثرہوئے ہیں یہاں کے حکمران کہاجاسکتاہے کہ بہت زیادہ مشکل میں ہیں ایک طرف وہ اپنے شہریوںکو اس چھوت کے مرض سے بچانے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں اور دوسری طرف بھوک لوگوںکو نگل رہی ہے ، پاکستان تو پہلی ہی معاشی عدم استحکام کا شکار تھا یہاں عام آدمی کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں اب خوراک،ادویات،علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے حکومت کو بہت سے محاذوںپر لڑناپڑرہاہے کیونکہ صحت،تعلیم اور روزگار کے وسائل کبھی بھی ماضی کے حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل نہیں تھے ،میٹروبس ،اورنج لائن ٹرین جیسے فضول میگا پراجیکٹ نے ملکی وسائل کو ہڑ پ کرلیا یہی وجہ ہے پاکستان میں عالمی معیارکا ایک بھی ایسا ہسپتال نہیں جہاں اشرافیہ اپنا علاج کرواسکے اسی لیے وہ اپنا علاج بیرون ممالک میں کرواناپسندکرتے ہیں اور عوام کی بدقسمتی کہ ا ن کا علاج کا بھی عوام کے ٹیکسز سے ہوتاہے ،اس سے زیادہ بے رحمی اور سفاکیت کیا ہوگی کہ عام آدمی کے لیے کسی سرکاری ہسپتال میں بیڈ تک میسر نہیں ،بہرحال کورونا وائرس نے دنیاکوسوچنے پرمجبورکردیاہے کہ ہرشخص کے لیے بلاامتیاز علاج معالجہ کی سہولتوں اور خو راک کی فراہمی تک کوئی معاشرہ مہذب نہیں کہلا سکتا ۔ کیونکہ ترقی پذیر اور پسماندہ مملک میں جو لوگ کورونا وائرس سے بچ گئے ہیں وہ اب بھوک سے مررہے ہیں،اس وقت دنیا بھر میں کورونا سے ایک لاکھ30 ہزار 741 افراد ہلاک ہوگئے، 21 لاکھ 99 ہزار 841 افراد متاثر ہیں جن میں پچاس ہزار 612 مریضوں کی حالت تشویشناک ہے، امریکا کے بعد اٹلی،برطانیا میں صورتحال سب سے خوفناک ہے۔
چین نے یہ کمال کردکھایا کہ ویکسین کے بغیرہی اس نے ہزاروںمتاثرین کا علاج کرکے ناممکن کو ممکن کردکھایا یوں توپوری دنیا میں کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری کے لیے تجربات ہورہے ہیں لیکن حالات کی سنگینی کااحساس کرتے ہوئے تھائی لینڈ اور چین کے سائنسدانوں نے پہلی بار ایک لاش سے نیا نوول کورونا وائرس ایک زندہ انسان میں منتقل ہونے کا کیس دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔جریدے جرنل آف فارنسک اینڈ لیگل میڈیسین میں شائع خط میں سائنسدانوں نے بتایا کہ یہ نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کا ایسا پہلا کیس ہے جو ایک فرانزک میڈیسن یونٹ کے عملے کے شامل ایک فرد میں سامنے آیا اور وہ بھی اس بیماری کے نتیجے میں چل بسا سائنسدانوں کو ابھی اندازہ نہیں کہ کورونا وائرس کسی مریض کی موت کے بعد جسم میں کب تک زندہ رہ سکتا ہے اور خط میں کہا گیا کہ تھائی لینڈ میں کووڈ 19 کے مریضوں کی ہلاکت کے بعد عموماً لاشوں کا معائنہ نہیں ہوتا۔سائنسدانوں نے لکھا اس وقت کووڈ 19 سے ہلاک افراد کی لاشوں کی درست تعداد کا کوئی ڈیٹا موجود نہیں کیونکہ تھائی لیند میں لاشوں میں کووڈ 19 کا معائنہ نہیں کیا جاتا اس لیے اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ فرانزک میڈیسن ماہرین کسی متاثرہ مریض کے نتیجے میں اس وائرس کا شکار ہوجائیں مگر وہ حیاتیاتی نمونوں اور لاشوں سے اس کی زد میں آسکتے ہیں جبکہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں پاکستانی سائنسدانوں نے اہم کامیابی حاصل کرنے کا دعوی کیا ہے۔ ڈاؤ یونیورسٹی کی ریسرچ ٹیم نے کووڈ 19 کے صحتیاب مریضوں کے خون سے حاصل شدہ اینٹی باڈیز سے انٹرا وینیس امیونو گلوبیولن(آئی وی آئی جی ) تیار کرلی جس کے ذریعے کورونا متاثرین کا علاج کیا جاسکے گا ڈاؤ کالج آف بائیو ٹیکنا لوجی کے پرنسپل پروفیسر شوکت علی کی سربراہی میں ریسرچ ٹیم نے دنیا میں پہلی مرتبہ کورونا کے علاج کے لیے امیونوگلوبیولن کاموثر طریقہ اختیار کرنے کی تیاری مکمل کرلی۔ امریکی ادارے ایف ڈی اے سے منظورشدہ یہ طریقہ علاج محفوظ، لورسک اور کورونا کے خلاف انتہائی موثر ہے جس میں کورونا سے صحت یاب مریض کے خون میں نمو پانے والے اینٹی باڈیز کو علیحدہ کرنے کے بعد شفاف کرکے امیونو گلوبیولن تیار کی جاتی ہے۔ ڈاؤ یونیورسٹی کی ٹیم نے خون کے نمونوں کے پلازمہ سے اینٹی باڈیزکو کیمیائی طور پر الگ تھلگ کرنے ، صاف شفاف کرنے اور بعد میں الٹرا فلٹر تکنیک کے ذریعے ان اینٹی باڈیز کو مرتکز کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اس طریقے میں اینٹی باڈیز سے باقی ناپسندیدہ مواد جن میں بعض وائرس اور بیکٹیریا بھی شامل ہیں انہیں ایک طرف کرکے حتمی پروڈکٹ یعنی ہائپر امیونوگلوبیولن تیار کرلی جاتی ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ طریقہ غیرمتحرک مامونیت(پے سو امیونائزیشن) کی ہی ایک قسم ہے مگر اس میں مکمل پلازمہ استعمال کرنے کے بجائے اسے شفاف کرکے صرف اینٹی باڈیز ہی لئے جاتے ہیں۔ ریسرچ ٹیم نے کوووڈ نائینٹین کے صحتیاب مریضوں کی جانب سے کم مقدار میں عطیہ کیے گئے خون کو شفاف کر کے اینٹی باڈیز علیحدہ کیے جو کورونا کو غیرموثر کرچکے تھے انکی لیبارٹری ٹیسٹنگ اور حیوانوں پر اس کا سیفٹی ٹرائل کرکے حاصل ہونے والی ہائپر امیونوگلوبیولن کو کامیابی کے ساتھ تجرباتی بنیادوں پر انجیکشن کی شیشیوں (وائلز) میں محفوظ کرلیا۔ ڈاؤ یونیورسٹی نے نئے کورونا وائرس کے خلاف کی جانے والی کوششوں میں اہم کردار کا جینیاتی سیکوینس معلوم کیا، انسانی جین میں ایسی تبدیلیوں کا پتہ لگایا یا جو کورونا وائرس کے خلاف مزاحمت فراہم کرسکتی ہیں، اور اب صحتیاب مریضوں کے خون سے حاصل شدہ اینٹی باڈی سے انٹرا وینس امینوگلوبیولن تیار کی۔پاکستان کے ایک ممتاز ڈاکٹر طاہرعلی شمسی نے بھی کرونا وائرس کو شکست دینے والوں کے خون سے پلازمہ حاصل کرکے مریضوں کے علاج کا طریقہ دریافت کیاہے جس پر مزیدریسرچ ہورہی ہے جس نے بھی اس موذی مرض کی ویکیسن تیارکرلی بلاشہ وہ انسانیت کا بہت بڑ ا محسن کہلائے گا اللہ تبارک تعالیٰ کے حضور دعاگوہیں کہ وہ انسانیت کو اس عالمی وباء سے نجات و امان عطافرمائے آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔