میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
طلسماتی ملک

طلسماتی ملک

ویب ڈیسک
هفته, ۳ فروری ۲۰۲۴

شیئر کریں

میری بات/روہیل اکبر
رات کی تاریکی میںعمران خان کو وزیراعظم ہائوس سے نکالا تو انہوں نے ڈائری پکڑی اور اپنے گھر کو روانہ ہوگئے ۔گزشتہ روز اڈیالہ جیل میں رات گئے عدالت نے انہیں 10سال قید سنائی تو قیدی نمبر804 مسکرا کرقید خانہ عدالت سے اٹھا اور اپنے قید خانہ کی طرف چل پڑا۔ توشہ خانہ ریفرنس میں بشریٰ بی بی اور عمران خان کو چودہ سال قیدہو گئی اور جس وقت آپ یہ سب پڑھ رہے ہونگے امید ہے اس وقت تک انہیں عدت میں نکاح کرنے پر بھی سزا ہوچکی ہوگی۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ واحد مجرم ہے جس کی سزا پر ڈانس نہیں ہوا ۔بھنگڑے نہیں ڈالے گئے اور تو اور مٹھائی بھی تقسیم نہیں ہوئی بلکہ مخالفین مزید پریشان ہیں کہ ان سزائوں کے باوجود عمران خان کی مقبولیت دن بدن بڑھتی ہی جارہی ہے۔ آج پی ٹی آئی ختم ،بلے کا نشان ختم ،امیدوار جیلوں میں اور باہر والے قتل ہورہے ہیں ملک بھر میں کہیں بھی عمران خان کے نام پر ووٹ مانگنے والوں کی فلیکس لگنے نہیں دی جارہی۔ انکی ریلیوں میں شامل ہونے والوں پر مقدمے درج کیے جارہے ہیں ۔لیکن اس کے باوجود ہر باشعور شہری عمران خان کے امیدواروں کو ڈھونڈ رہا ہے۔
عمران خان کے مقابلے میں جب توشہ خان خالی کرنے والوں کو جب سزائیں ہوتی تھیں تو ملک بھر میں مٹھائیاں تقسیم کی جاتی تھیں اور تو اورجب جنرل ضیا ء الحق کی عدالت نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی تو اس وقت بھی مخالفین نے خوشیاںمنائیں اور مٹھائیاں بانٹی لیکن آج اس سزا پر عدالت بھی شرمندہ ہے اور اسکی معافی تلافی کا بھی سوچا جارہا ہے۔ عمران خان کو دی جانے والی پہلی سزاسائفر کیس کی ہے جس میں انہوں نے بیرونی غلامی سے نجات کا اعلان کیا تھا لیکن کیا کریں ہم ایک غلام قوم ہیں اور اس غلامی کو ہم نے اپنے گلے کا ہار بنایا ہوا ہے۔ خیر یہ سزائیں بھی ختم ہو جائیں گی کیونکہ یہ ملک خدا کا معجزہ ہے اور معجزوں کا یہ سلسلہ رکا نہیں ہے۔ نہیں یقین تو دیکھ لیں کہ طیارہ ہائی جیک کیس میں شریف برادران کو عمر قید ہوئی چار ماہ بعد دونوں بھائی جدہ پہنچ گئے ۔شاہی مہمان رہے اور دس سال بعد چھوٹا بھائی پھر سے نہ صرف پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنابلکہ فرد جرم عائد ہونے سے چند گھنٹے پہلے بطور وزیرا عظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کا حلف بھی اٹھا لیا۔حنیف عباسی کو پھانسی کی سزا ہوئی دو سال کے اندر معطل ہو گئی۔ پانامہ کیس میں یوں تو 360 افراد کے نام تھے مگر پھر میاں نواز شریف کو رگڑا لگانا مقصود تھا۔ اس لیے تاحیات نااہلی ہوئی لیکن چار سال بعد میاں صاحب پھر سے میدان میں ہیں اور وہ بھی ایسے کہ ان کے مقابل سارا میدان صاف کیا جا رہا ہے۔ زرداری صاحب کو سرے محل، بینک سکینڈل اور دیگر کیسز میں گیارہ سال قید ہوئی۔ زرداری صاحب نے تین سال کاٹی اس کے بعد صدر پاکستان بنے اور اب وہ پارٹی کے شریک چیئرمین ہیں، یہ معجزہ نہیں تو پھر کیا ہے کہ ایک بندہ جیل میں سزا یافتہ قیدی بن جائے اور پھر کچھ ہی عرصہ بعد اسے ایوان اقتدار بھیج دیا جائے۔ یہاں کب قانون کی پٹاری سے کوبرا نکل آئے اور کب آزادی کا کبوتر اس بارے صرف وہی جانتے ہیں جو غائب بھی ہیں، حاضر بھی کہ کس لمحے کس سبب ڈیل ہو جائے کب منظر بدل جائے کب حسینیت زندہ ہو اور کب یزیدیت چھانے لگے ۔سچ کس گھڑی جھوٹ کا لبادہ اوڑھ کر پتلی گلی سے نکل لے اور کب جھوٹ کورا سچ بن کر سامنے آن کھڑا ہو ، کسی کو کچھ معلوم نہیں لیکن جو جانتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ قانون و آئین تو وہ کتاب ہے جو مخالف کو فکس کرنے کے کام آتی ہے۔ ملکی نظام چلانے کے نہیں اور آجکل تو ہمارا سارے کا سار نظام تو فون کال اور واٹس ایپ پر چل رہا ہے جو کہہ دیا وہی قاعدہ اور وہی قانون جسے بدلنے میںرویوں کے بدلنے کا انتظار ہوتا ہے۔ بس ذرا صبر، تھوڑا وقت اور موسم بدلنے کا انتظار ہی تو کرنا ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعدکل کا ولن ہیرو بن جاتا ہے اور آج کا ہیرو کل کا ولن ہو سکتا ہے۔ ہماری سیاست مداری کا کھیل اورپتلی تماشا ہے جہاں کردار کسی بھی لمحے یک لخت بدلے جاتے ہیں اور ہمارا نظام کسی بھی وقت کوئی بھی روپ بدل سکتا ہے ۔اِدھر سقراط کو تخت بھی مل سکتا ہے اور یونانیوں کو زہر کا پیالہ یہاں گلیلیو زمین کو سورج کے گرد گھما سکتا ہے اور چرچ سورج کو زمین کے گرد لیکن اسکے لیے نعرہ مستانہ بلند کرنا ہوگا کہ میرا چیف میری حکومت، تیرا چیف تیری حکومت ،میرا جج حق سچ کا فیصلہ، تیرا جج جابرانہ فیصلہ کسی کی تصویر تک پابندی اور کسی کو ہر لمحہ ٹیلی ویژن پر مملکت خداداد میں کسی بھی وقت کچھ بھی ممکن ہے بلکہ سب کچھ ممکن ہے۔ یہ قطعہ اراضی ممکنات کا دوسرا نام ہے ۔یہاں کسی کے لیے کوئی در بند نہیں سب در کھْلے ہیں اور کسی کے پرسب در بند ہیں اور کوئی کھلا نہیں پاکستان بابِ طلسم ہے یا مجبور و بے کس لوگوں کی دھرتی اب یہ فیصلہ گونگی مخلوق کو کرنا ہے جس نے 8 فروری کو چھٹی کرنی ہے کیونکہ اس دن ہمارا قومی تہوار الیکشن ہے ۔اس دن لوگ صبح نماز ادا کریں پاکستان اور قوم کی ترقی کے لیے دعا کریں ۔گھر آ کر سویوں سے ناشتہ کریں۔ تمام اہل خانہ بشمول بچوں کے پولنگ ا سٹیشن کی راہ لیں اورراستہ میں بچوں سے پاکستان زندہ باد کے نعرے ،قومی اور ملی ترانوں کی گونج میں پولنگ ا سٹیشن پہنچیں ۔کوشش کریں کہ گھر میں کوئی رہ نہ جائے۔ پولنگ اسٹیشن کی حدود میں داخل ہو کر ن لیگ کے پولنگ کیمپ سے جا کر ووٹ کی پرچی لیںاوربریانی یا قیمے والے نان سے ناشتہ کریں پھر پیپلز پارٹی کے کیمپ میں جائیںوہاں سے کوک یا پیپسی کی بوتل پیئں اسکے بعد وہاں سے جمیت العلمائے اسلام کے کیمپ سے حلوے کی پلیٹ کھاتے ہوئے آگے بڑھیں کیونکہ عمران خان کی تصویر والا تو کوئی کیمپ سرے سے لگنے ہی نہیں دیا جائے گا۔ اس لیے آپ سیدھے پولنگ اسٹیشن پہنچیں جہاں دروازے پر شیر جوان کھڑے ہونگے ،وہاں ان کے ایس پی کے حق میں معہ فیملی ایک زوردار نعرہ لگائیں۔ بچوں کو دروازے پہ کھڑا کر کے اندر جا کرجس امیدوار کو دل مانے اسے ووٹ دیں ،کیونکہ اس دفعہ ووٹ آپ نے اپنے آپ کو اپنے ضمیر کو دینا ہے اس قیدی کو دینا ہے جو آپ نے اپنے اندر قید کررکھا ہے۔ اس کے بعد وہاں سے باہر آکے اپنے بچوں کے ساتھ اپنے حق میں ایک نعرہ لگائیں کہ آج آپ نے 76 سالوں میں پہلی بار اپنے آپ کو ووٹ دیا ہے ۔یہی ہمارے بہت بڑے لیجنڈ جناب انور مقصود کا پیغام بھی ہے کہ اس بار آپ نے ہر حال میں 8 فروری کو ضرور ووٹ کا حق استعمال کرنا ہے۔ چاہے کچھ بھی ہو آپ نے ووٹ ضرور دینا ہے۔ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے روشن مستقبل کے لیے اور ان سنہرے خوابوں کے لیے جنہوں نے قیام پاکستان کے وقت اپنی بیٹیوں کی عزت اپنے سامنے پامال ہوتی دیکھی۔ ان مائوں کے لیے جنہوں نے اپنے بیٹوں کو نیزے کی انیوں پر اچھلتے دیکھے ان بزرگوں کے لیے جنہوں نے اپنی جوان اولاد کو تڑپتے دیکھا اور اس خواب کی تعبیر کے لیے جنہوں نے قیام پاکستان کی نوید سنائی اور اور قائد اعظم کے لیے جنہوں نے پاکستان کے لیے تن من اور دھن سب کچھ قربان کردیا، پاکستان پائندہ باد۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں