بھارت غلط خبریں چلانے میں نمبر ون
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
بھارت جعلی خبر رساں اداروں اور تھنک ٹینکس کے ذریعے شدت پسندی کی فنڈنگ اور اس کو بیرون ملک ترغیب دے رہا ہے۔ یورپی یونین کے ڈِس انفو لیب گروپ کی طرف سے مذموم سرگرمیوں کے بڑے بھارتی گروپ کے انکشاف سے پاکستان کے موقف کی توثیق ہوتی ہے۔ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل رسک رپورٹ کے مطابق غلط اور گمراہ کن معلومات کی تشہیر میں بھارت دنیا بھر میں پہلے نمبرپر آگیا۔ بھارت کے عام انتخابات سے قبل منظرِ عام پر آنے والی رپورٹ میں مودی سرکار کے انتخابات کو بھارت میں پراپیگنڈے اور جھوٹے بیانیے پر مبنی غلط معلومات پھیلانے کے لیے ایک اہم ذریعہ قرار دیا گیا۔یوںبھارت میں سماجی خلیج اور پولرائزیشن بڑھنے کا خطرہ ہے۔
مبصرین کے مطابق مودی حکومت ہی نہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی وقتی سیاسی فائدے اور انتخابات میں کامیابی کے لیے بڑے پیمانے پر ‘مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن’ (غلط اور گمراہ کن معلومات) کا غیر معمولی استعمال کر رہی ہیں۔ غلط اور گمراہ کن معلومات کو بھارت کے لیے آئندہ 10 برس تک سب سے بڑا خطرہ تسلیم کیا گیا۔رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ پروپیگنڈے اور جھوٹے بیانیے کا وسیع پیمانے پر استعمال بھارت میں شہری بدامنی، احتجاج اور نفرت انگیز جرائم کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ غلط معلومات کے پھیلاؤ سے بھارتی عوام کی سماجی ہم آہنگی اور ذہنی صحت پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ یہ اقدام غلط معلومات پھیلانے کے سیاسی ایجنڈے میں سوشل میڈیا کی شمولیت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔غلط معلومات کے بڑھنے اور ممالک کے زوال پذیر پریس فریڈم انڈیکس میں بھارت گزشتہ سال 180 ممالک میں 161ویں نمبر پر تھا، اسی تناظر میں گزشتہ سال واشنگٹن پوسٹ نے 2020 سے بھارتی کرنل کی سرپرستی میں پراپیگنڈہ کرنے والی تنظیم ڈس انفو لیب (DISINFO LAB)کو بے نقاب کیا جس کا مقصد بے بنیاد اور جھوٹی خبریں پھیلاکر مودی سرکار کابین الاقوامی تشخص بہتر بنانا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘ڈس انفو لیب’ کے پروپگنڈے کو سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر پھیلانے کے لیے انتہا پسند جماعت بی جے پی کے کارندے، سابق انٹیلی جنس اور ملٹری افسران اور حکومتی وزرا کاربند ہیں، بی جے پی سوشل میڈیا پر مسلمان مخالف پراپیگنڈہ کرکے انتہا پسندوں ہندوؤں کی حمایت حاصل کرتی ہے، بی جے پی نے اس مذموم مقصد کی خاطر ڈیڑھ لاکھ سوشل میڈیا ورکرز کا بڑا نیٹ ورک بنا رکھا ہے۔2020ء میں ای یوڈس انفولیب ادارے نے سنسنی خیز انکشافات پرمبنی رپورٹ جاری کی جس کے مطابق یورپی یونین اوراقوام متحدہ کوگمراہ کرنے کیلئے بھارت پاکستان کے خلاف 2005 ء سے جعلی خبریں پھیلانے کے لیے 750 میڈیاہاوسز،550 ویب سائٹس کو استعمال کررہا ہے۔جعلی خبریں پھیلانے کے لیے 10سیزائدجعلی این جی اوزکو بھی استعمال کیا۔ بھارت کے آپریشن کامقصدپاکستان کودنیاسے الگ تھلگ کرناتھا۔ سابق صدریورپی پارلیمنٹ کوجعلی این جی اوکاسربراہ بناکرپیش کیاگیا۔ جعلی این جی اوکے ذریعے ہیومن رائٹس کونسل میں پاکستان پرالزامات لگائے گئے۔پاکستان کے خلاف ہیومن رائٹس کی جعلی تنظیموں کوفنڈنگ بھی کی گئی۔ پاکستان کومنفی اندازمیں دکھانے کیلئے جنیوا،برسلزاور دنیاکے دیگرشہروں میں جعلی میڈیاہاؤسزبنائے گئے۔یورپی یونین کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 15 برس سے بھارت جعلی خبروں کے ذریعے پاکستان مخالف پروپیگنڈے میں ملوث تھا۔ بھارتی غلط معلومات اور پروپیگنڈا مہم بھارت کے پاکستان کے خلاف مہم کا حصہ ہے۔ ہم اس معاملے کو تمام ممکنہ پلیٹ فارمز پر اٹھائیں گے۔ بھارت اس وقت عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے سامنے مکمل طور پر برہنہ ہو چکا ہے۔
گزشتہ برس یورپی یونین کی ڈِس انفو لیب نے 65 ممالک میں بھارتی مفادات کے لیے کام کرنے والے 265 مربوط جعلی مقامی میڈیا آؤٹ لیٹس کا نیٹ ورک بے نقاب کیا تھا جس میں متعدد مشتبہ تھنک ٹینکس اور این جی اوز بھی شامل تھیں۔بھارتی کرونیکل کے عنوان سے تحقیقات میں ایک اور بھارتی نیٹ ورک بے نقاب ہوا جس کا مقصد بھارت میں پاکستان مخالف (اور چین مخالف) جبکہ بھارت کے حق میں جذبات کو تقویت دینا تھا۔بین الاقوامی سطح پر یہ نیٹ ورک بھارت کی قوت کو مستحکم اور تشخص کو بہتر بنانے کے ساتھ حریف ممالک کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے کام کررہا تھا تاکہ بھارت کو یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ جیسے اداروں کی مزید حمایت سے فائدہ حاصل ہو۔اس کام کے لیے نیٹ ورک نے انتقال کر جانے والے انسانی حقوق کے کارکن اور صحافیوں کی جعلی شخصیت کا استعمال کیا اور میڈیا اور پریس کے اداروں مثلاً یورپی یونین آبزرور، دی اکنامسٹ اور وائس آف امریکا کی نقالی کی بھی کوشش کی۔اس کے علاوہ نیٹ ورک نے یورپی پارلیمان کے لیٹر ہیڈ، جعلی نمبروں کے ساتھ اوتار کے تحت رجسٹرڈ ویب سائٹس کا استعمال کیا اقوامِ متحدہ کو جعلی پتے فراہم کیے اور اپنے تھنک ٹینکس کی کتابوں کی اشاعت کے لیے اشاعتی ادارے قائم کیے۔
‘انڈین کرونیکلز’ کے نام سے ہونے والی اس نئی تحقیق کے مطابق اس منصوبے کے تحت جس شخص کی شناخت کو چرا کر دوبارہ زندہ دکھایا گیا ہے اسے درحقیقت انسانی حقوق کے قوانین کے بانیوں میں سے شمار کیا جاتا ہے اور ان کی 2006 میں 92 سال کی عمر میں وفات ہو گئی تھی۔ای یو ڈس انفو لیب کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ایلیگزانڈر الافیلیپ نے اس بارے کہا کہ انھوں نے ڈس انفارمیشن پھیلانے کی غرض سے مختلف اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل کسی نیٹ ورک میں اتنی ہم آہنگی نہیں دیکھی۔ہم نے اس نوعیت کا اتنا بڑا نیٹ ورک اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا۔ گذشتہ سال اس نیٹ ورک کے بارے میں تحقیق سامنے لانے کے باوجود اس نے اپنے کام کو جاری رکھا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتنا مضبوط اور بااثر نیٹ ورک ہے۔ جس نوعیت کا یہ آپریشن ہے اور جتنی وسیع اس کی پہنچ ہے، یہ کافی غور طلب بات ہے اور اتنا بڑا آپریشن آپ محض چند کمپیوٹرز کے ساتھ نہیں چلا سکتے، اس کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہوتی ہے۔