سعودی عرب نے پاکستان میں ریفائنری کا منصوبہ سیاسی اتفاق رائے سے مشروط کر دیا
شیئر کریں
سعودی عرب نے پاکستان میں اربوں ڈالرکی آئل ریفائنری کے قیام کو سیاسی اتفاق رائے، کابینہ کی منظوری اور آرامکو کی تجویز کردہ سخت شرائط سے جوڑا ہے۔ وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک کے دورہ سعودی عرب کے بعد پاکستانی سفارتخانہ متعلقہ سعودی حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تاکہ اس دورے کے دوران طے پانے والی مفاہمتوں کو آگے بڑھایا جا سکے۔ اس سلسلے میں پاکستانی سفیر نے مندرجہ ذیل روڈ میپ تجویز کیا ہے کہ آئل ریفائنری منصوبے کے بارے میں حکومت کو آرامکو کی جانب سے تجویز کردہ شرائط و ضوابط کی حمایت میں کابینہ کے موافق فیصلے پرعمل کرنا چاہیئے۔ ایک بار فیصلہ ہونے کے بعد پاکستان کو سعودی حکام کو تحریری طور پر اس سے آگاہ کرنا چاہئے۔ سعودی وزیر سرمایہ کاری نے تجویز دی تھی کہ آئل ریفائنری منصوبے پر سیاسی اتفاق رائے اور ملکیت کو فروغ دینے کے لیے یہ معاملہ پارلیمنٹ کے سامنے بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔ سفیر کے مطابق سفارتخانہ پہلے ہی وزیر توانائی کی جانب سے نامزد فوکل پرسن کے ساتھ رابطے میں ہے۔ پاکستانی سفیر نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ آئل ریفائنری منصوبے پر پیش رفت کے بارے میں سفارت خانے کو آگاہ رکھا جائے۔ ذرائع نے بتایا کہ سفیر نے مشاہدہ کیا کہ نائب وزیر برائے سرمایہ کاری بدر البدر کے ساتھ ملاقات کے دوران یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پاکستان منصوبے کی تفصیلات اور ٹیزر کوغور کے لئے سعودی فریق کے ساتھ شیئر کرے گا۔ وزیر مملکت برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل نے اپنے دورہ سعودی عرب کے دوران آرامکو کے ایگزیکٹوز اور سعودی وزرائے سرمایہ کاری، توانائی اور معدنیات و سرمایہ کاری کو بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے آرامکو کی جانب سے منصوبے کو معاشی طور پر قابل عمل بنانے کے لیے طے کردہ تمام شرائط و ضوابط پر اتفاق کی اصولی منظوری دے دی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آئل ریفائنری منصوبہ پاکستان کے لئے اسٹریٹجک لحاظ سے اہم ہے اورحکومت اس پر آگے بڑھنے کی خواہاں ہے۔ مصدق ملک کے مطابق آرامکو کی شرائط کو قبول کرنے کا فیصلہ کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا اور چند ہفتوں میں اس کے مثبت نتائج متوقع ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ دونوں فریقین کو منصوبے کی تفصیلات کو حتمی شکل دینے اور زیر التوا مسائل حل کرنے کے لیے ایک اعلی سطح کمیٹی کے قیام سے اتفاق کرنا چاہئے۔ مصدق ملک کے مطابق پاکستان نے حال ہی میں ایک نیا قانون متعارف کرایا تھا جس کے تحت حکومت کو کسی پیچیدگی میں جائے بغیر G-2-G کی بنیاد پر معاہدوں پردستخط کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ کان کنی کے شعبے میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ روڈ میپ تیار کرنے کے لیے ایک ورکنگ گروپ تشکیل دیا جائے۔ سعودی عرب کی جانب سے کان کنی کے امور کے نائب وزیر ورکنگ گروپ کی قیادت کریں گے۔ سعودی وزرا نے پاکستان کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ وہ کابینہ کی باضابطہ منظوری کے منتظر ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مملکت کی قیادت بھی اس منصوبے پر عمل درآمد کی خواہاں ہے جو دونوں ممالک کے درمیان مضبوط شراکت داری کی ایک اور مثال ہوگی۔ چونکہ آرامکو ایک پبلک لسٹڈ کمپنی ہے، لہذا اس منصوبے کی معاشیات بھی اہم ہے۔ سعودی وزیر خزانہ نے کے الیکٹرک میں الجومیح گروپ کی سرمایہ کاری کا معاملہ بھی اٹھایا اور کہا کہ ایک سرمایہ کار کو درپیش مسئلہ ممکنہ طور پر سعودی عرب میں نجی شعبے کے دوسرے سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب پاکستان میں مزید سرمایہ کاروں کو لانا چاہتا ہے لیکن جب تک منفی مثالیں موجود ہیں اعتماد پیدا کرنا مشکل ہو گا۔ جواب میں وزیر مملکت برائے پیٹرولیم نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر متعلقہ حکام کے ساتھ اس معاملے کو اٹھائیں گے اور اس کے جلد حل پر زور دیں گے۔ سفیر نے مزید کہا کہ اے سی ڈبلیو اے پاور کی جانب سے منصوبہ بند منصوبے سعودی قیادت کی ترجیحی فہرست میں سرفہرست ہیں۔ سعودی وزیر سرمایہ کاری نے واضح طور پر کہا تھا کہ اے سی ڈبلیو اے پاور آرامکو سے زیادہ اہم ہے۔ سفیر نے یہ تجویز بھی دی کہ پاکستان کو خصوصا مستقبل کے G-2-G منصوبوں کے لیے اے سی ڈبلیو اے پاور کو ترجیح دینی چاہئے۔