بلاول کا تیر چل کیوں نہیں رہا؟
شیئر کریں
کیا بلاول بھٹو کو ناکام بنانے کی کوئی منظم مہم موجود ہے؟ یہ سوال بلاول بھٹو کے سیاسی تیوروں کی تہہ داریوں میں جھانکتے ہوئے ازخود جنم لیتا ہے۔بلاول بھٹو کے ساتھ شروع سے ایک مسئلہ ہے، اُنہیں بھٹو کے نواسے ،بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے کے متوازی جناب زرداری کے بیٹے کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ یہ دونوں نگاہیں بلاول بھٹو کو پہلے سے ہی دو مختلف سمتوں میں منتشر رکھتی ہیں۔ اس پر مستزاد، اُنہیں سیکھنے کے زمانے میں بھی ”استادی” کرنا پڑرہی ہے، جو اُن کے بس کی بات نہیں۔انگور پکے بغیر منقہ نہیں بنتے۔ انگریزی محاورے میں اس کی وضاحت موجود ہے:
Soon Ripe Soon Rotten
(جلدی پکنا اور جلدی سڑنا)
بلاول بھٹو کو ،کوئی ”نامعلوم”قوت تقدیر کی بے رحمی کے حوالے کررہی ہے، جہاں اُن کے لیے امکانات کی دنیا معدوم ہو جائے۔وہ کون تھا، جس نے چند روز قبل بلاول بھٹو کی زبان سے یہ کہلوایا کہ ”بلدیاتی قانون کو ”کالا” کہنے والے کا منہ کالا ہوگا”۔ حقیقت کی صبح کاذب تو سامنے تھی، چند لحظوں میں جس کی تحلیل ہوتی تیرگی کافور ہوکر صبح صادق میں بدلنے والی تھی۔ بلاول کی زُبان پر یہ الفاظ کن کے تھے؟ حافظ نعیم الرحمان سندھ اسمبلی کے سامنے دھرنا دیے بیٹھے تھے جس نے سندھ کی تمام باقی جماعتوں کے اندر ایک بے چینی پیدا کردی تھی۔ اگلا سال عام انتخابات کا ہے اور ایم کیوایم بقا کی جدوجہد میںمصروف ہے، جسے اژدہے کی طرح نگلنے کے لیے مرکز میں خود اُس کی سیاسی حلیف تحریک انصاف تیار بیٹھی ہے اورقوت کے مرکزی دھاروںسے ”ساز باز” کے پُرانے راستوںپران دنوں خاموشی سے گامزن ہے۔ خود ایم کیوایم کے بکھرے ٹکڑوں میں بھی ایک چھینا جھپٹی ہے۔ سب اپنے ”آقا” کو شاعر کی زبان میں پکار رہے ہیں کہ ، وہ تو وہ ہے تمہیں ہو جائے گی اُلفت مجھ سے! عروس البلاد کی زمینوں پر ہی نہیں سیاسی منطقوں پر بھی قبضے کی یہ جنگ بھیانک ہے اور اس میں پیپلزپارٹی کے لیے کوئی گنجائش پیدا نہیں ہو رہی۔ پھر بھی بلاول بھٹو نے دل جیتنے کے بجائے، دل دکھانے والی زبان کیوں اختیار کی؟
صورتِ حال کا ایک دوسرا تناظر بھی ہے۔ کیا بلاول نہ جانتے تھے کہ کالا بلدیاتی قانون تاریخ میں دوام نہیں پاسکتا؟یہ اختیارات کی تقسیم کی بنیادی روح کے خلاف ہے۔ دنیا میں کہیں بلدیاتی اختیارات پر تصرف صوبائی یا مرکزی کسی شکل میں بھی موجود نہیں۔ پیپلزپارٹی مرکز میں اختیارات کی تقسیم کا جو واویلا کرتی ہے، وہ خود بلدیاتی قانون کے خلاف ایک مقدمہ ہے۔ پھر کراچی کی تمام نمائندہ جماعتوں کے اکٹھے ہونے کے بعد یہ ممکن ہی نہیں کہ اِسے کسی بھی طرح برقرار رکھا جاسکتا۔اس کے باوجود بلاول بھٹو کی زبان سے یہ کیوں کہلوایا گیا کہ بلدیاتی قانون کو کالا کہنے والے کا منہ کالا ہوگا۔ پیپلزپارٹی آگاہ تھی کہ اس قانون کے خلاف ایم کیوایم عدالت ِ عظمیٰ میں فریادی ہے، فیصلہ محفوظ ہے، جو گزشتہ روز سنا بھی دیا گیا، اس سے مختلف فیصلے کا کوئی اندیشہ بھی کہیں پر موجود نہیں تھا، سیاسی دنگل اور قانونی مَنگل(موسیقی) میں اِسے کسی صورت برقرار نہیں رہنا تھا، بہر صور ت اسے اکھاڑ پھینکا جانا تھا۔مگر بلاول کو اس ناکامی کا منہ دکھانا تھا، وہ مرکزی حکومت کے خلاف ایک احتجاجی ہدف پر تھے،اُنہیں اس کے باوجود کراچی میں رسوائیوں کا ایک طوق گردن میں ڈالے دکھایا گیا۔ ایسا کیوں ہوا؟
اس سوال کو ایک ذرا وسیع تناظر میں ٹٹولتے ہیں۔ بلاول بھٹو کی سیاست کا آغاز ہی باربار کے ناکام تجربوں سے ہوا۔اُن کی سیاست میں آمد کوئی جوش آور قدم ثابت نہ ہوسکی۔ پیپلزپارٹی کے سنجیدہ ، فہمیدہ لوگ بلاول بھٹو کے دائیں بائیں کھڑے نہیں ہو سکتے تھے، جن پر انحصار تھا، وہ ذہنی طور پر پست درجہ تھے، جن کے درمیان بلاول بھٹو چیختے چنگھاڑتے اور گرجتے برستے تیوروں کے ساتھ ظاہر ہوتے۔ سیاسی فہم کا متبادل پنجابی فلموں کی سلطان راہی طرز کی بڑھکیں سمجھ لیا گیا۔الغرض بلاول بھٹو کا آغاز ہی غیر سنجیدہ تھا۔بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے کے طور پر اُن کی شناخت ، زرداری چھاپ کے باعث اُبھر نہ سکی۔بلاول بھٹو اس ناپسندیدہ سائے میں ملک بھر میں تو کیا کوئی جادو جگا سکتے، خود سندھ کے اندر بھی کوئی نئی برکت پیدا نہیں کر سکے۔ اگر اُن کی 2014ء کی پہلی انتخابی مہم کے طور پر بدین کے بلدیاتی انتخابات کو ہی یاد کریں تو اسے ایک ناکام معرکے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ذوالفقار مرزا تب ایم کیوایم ، آصف زرداری اور فریال تالپور کے خلاف گرج برس رہے تھے۔ وہ اپنے ہی گریبان کو جنوں کا پرچم بنا کر میدان میںاس طرح اُترے تھے کہ خود اُنہیں سب سے زیادہ سمجھنے والے آصف علی زرداری بھی دم بخود تھے۔ اس موقع پر بلاول بھٹو کو بدین میں اُتارا گیا، مگر یہ تیر نہیں چلا۔ پیپلزپارٹی اس انتخابی معرکے میں صرف ایک نشست کی برتری ہی حاصل کرسکی اور حسام مرزا سے ضلعی چیئرمین کا منصب صرف ایک ووٹ کی سبقت سے خجل خجل حاصل کیا گیا ۔عام انتخابات میں بلاول بھٹو پیپلزپارٹی کے مرکز لیاری میں عبدالشکور شاد سے شکست کھاگئے۔ اُنہیں ایک دوسرے موقع پر لیاری میں پتھراؤ کا سامنا بھی ہوا۔ بلاول بھٹو مارچ 2019ء میںاسی مہنگائی پر ایک ناکام ٹرین مارچ بھی کرچکے ہیں، جو کراچی سے شروع ہوا تھا۔ اس مارچ میں خود پیپلزپارٹی کے اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آگئے تھے، جب ایک ایک اسٹیشن پر تین تین رہنما اپنے اپنے الگ الگ کیمپ قائم کرکے بیٹھے تھے۔ اس سے قبل پیپلزپارٹی کو اپنے سیاسی گڑھ لاڑکانہ میں صوبائی اسمبلی کی نشست سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں جی ڈی اے کے معظم عباسی نے پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما نثار کھوڑو کی صاحبزادی ندا کھوڑو کو شکست دی تھی۔ سپریم کورٹ نے اگست 2019ء میں ایک انتخابی عذر داری مقدمے میں یہ نشست خالی کرنے اور دوبارہ انتخاب کا حکم دیا تھا۔ ضمنی انتخابی معرکے میں معظم علی عباسی نے ہی حصہ لیا۔ یہاںبلاول بھٹو نے اپنے سیکریٹری جمیل سومرو کو انتخابی دنگل میں اُتارا۔جمیل سومرو کی انتخابی مہم خود بلاول بھٹو نے چلائی، اُن کے ساتھ آصفہ بھٹو نے بھی متعدد جلسے کیے، ریلیاں نکالیں۔ مگر جمیل سومرو کو شکست کا سامنا ہوا۔ یہ واضح طور پر بلاول بھٹو کی ناکامی تھی۔ یوں سندھ میں بھی بلاول بھٹو کا کوئی خاص جادو نہیں چلا۔ اس تناظر میں بلاول بھٹو کے لیے ایک محتاط طرزِ عمل اختیار کرنے کی ضرورت تھی اور اُنہیں نہایت مشاقی سے ایسے معاملات میں شریک کیا جاتا جس میں کامیابی نہ بھی ہو، تو کم ازکم کامیابی کا ایک دھوکا یا مغالطہ تو پیدا کیا جا سکے۔مگر یہاں تو کچھ اور ہی چل رہا ہے۔ بلاول بھٹو کو مسلسل ناکامیوں سے گلے لگنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
پیپلزپارٹی اپریل 2008ء سے سندھ میںبرسرِ اقتدار ہے۔ پاکستان کے مرکزی سیاسی منظرنامے میں کوئی ایسی انہونی نہ ہوئی جو پیپلزپارٹی کو اقتدار کی چھتری میں رکھنے کی مجبوری پیدانہ کردے تو اگلی سندھ حکومت مخلوط اور پیپلزپارٹی کے بغیر قائم ہوگی۔ اس حوالے سے گزشتہ انتخاب کی طرح اصل قوتوں کے ساتھ سازباز کی کوششیں کچھ زیادہ بارآور ہونے کے امکان محدود ہوچکے ہیں۔ اب بلاول بھٹو پنجاب میں مجمع لگانا چاہتے ہیں۔ جہاںسیاسی شعور اور رائے عامہ کا وفور ایک اور سمت میں بہتا ہے۔ جس کے خلاف اصل قوتیں بھی بند باندھنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکیں۔ تحریک انصاف حکومت کے خلاف عوامی غضب کی لہروں پر بلاول بھٹو سواری کرنے میں تاحال کامیاب نہیں ہوسکے۔ ابھی تک 27 فروری کے لانگ مارچ میں سرگرم عوامی شرکت ایک خواب ہی ہے۔ پیپلزپارٹی کے سیاسی شعور کا اندازا لگائیے، بلاول بھٹو ایک ایسے لانگ مارچ کوکامیاب بنانے کے ہدف پر ہے جس میں خود حزب اختلاف کی جماعتیں بھی اُن کے ساتھ نہیں، ان حالات میں بلاول بھٹو کو کراچی میں بلدیاتی قانون پر دیگر جماعتوں کے ساتھ دشمن حالات میں ملوث کردیا گیا۔ اس طرح بلاول بھٹو لانگ مارچ کرتے ہوئے مرکزی حکومت کے خلاف کوئی مضبوط مقدمہ قائم کرنے کے قابل بھی نہیں چھوڑے گئے۔ آخر اُن کے ساتھ یہ سلوک کون کررہا ہے؟ بلاول بھٹو ایسے سیاسی کھیلوں میں کیوں شریک ہیں جن کے کامیابی کے امکانات ارضی حقائق میں سرے سے موجود نہیں۔ لانگ مارچ کا تنہا فیصلہ اب بلاول بھٹو کے لیے بوجھ بننے لگا ہے۔ پی ڈی ایم کا 23 مارچ کو مارچ کا اعلان پہلے ہی اس فیصلے کی تب وتاب چاٹ چکا ہے۔پیپلزپارٹی کے مارچ کو کسی سیاسی جماعت کی حمایت حاصل نہیں ہوسکی۔اطلاع یہ ہے کہ اس حوالے سے پنجاب کی حد تک حمایت لینے اور اسلام آباد میں پنجے گاڑنے کے لیے آزمودہ طاہر القادری کی طاقت کو خاموشی سے اپنے پروں میں سمیٹنے کی کوششیں بھی ناکام ہوئیں۔ کیا بلاول بھٹو آخری لمحات میں اس لانگ مارچ کو منسوخ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے، کیا اس کے لیے مولانا فضل الرحمان بلاول ہاؤس جاکر اس سبکی کا بوجھ بانٹیں گے؟ آثار یہی ہیں۔ اگر ایسا نہیں بھی ہوتا تو بلاول بھٹو کے لیے پنجاب میں کوئی بڑا مجمع لگانا ممکن نہیں۔بلاول بھٹو مجمع لگانے پر صرف ہورہے ہیں۔ اُنہیں کسی بڑے سیاسی تصور پر بات کرتے نہیں دیکھا گیا، وہ نظام کی اصلاح کے کسی تصور کے بجائے حکومت حاصل کرنے کی کوششیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کی گفتگو سے کوئی علمی وقار نہیں جھلکتا، دوسرے درجے کی سیاسی بڑھک بازیاں چھلکتی ہیں۔بلاول بھٹو کا مسلسل ناکامیوں کے ساتھ یہ کوئی اچھا تعارف نہیںجو مستقبل کے رہنما کے طور پر اُن کے سیاسی کردار کا تحفظ کرتا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔