پیپلزپارٹی ، نون لیگ میں عدم اعتماد کی فضا برقرار‘مولانا کی پریشانی میں اضافہ
شیئر کریں
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم میں ’’جماعتوں‘‘سے مشاورت سے مراد اتحاد کی دو بڑی جماعتیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون ہوتی ہیں اور ان دونوں جماعتوں کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے جبکہ اس ساری صورتحال میں مولانا فضل الرحمان کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔تجزیہ کاروں کے خیال میں پی ڈی ایم اگرچہ حکومت کو گرانے میں ناکام رہی ہے تاہم لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونے سے دستبردار نہیں ہوئی جو حکومت کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کے نزدیک پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے بھی اپنے اراکین اسمبلی سے 31 جنوری تک استعفے پارٹی قیادت کو جمع کروانے کی ہدایت کر رکھی تھی مگر ابھی کوئی بھی جماعت اس میں بیس ‘تیس فیصد سے آگے نہیں بڑھ سکی یہی وجہ ہے پی ڈی ایم کی جانب سے وقت حاصل کرنے کے حربے استعمال کیئے جارہے ہیں. ان کا کہنا ہے نون لیگ جو استعفوں کے معاملے میں سب سے آگے ہے اس کے بھی 60فیصد زائد اراکین اسمبلی کے ڈیڈ لائن گزرجانے کے باوجود استعفے جمع نہیں کروائے دوسری جانب پیپلزپارٹی کی اپنی الگ لائن ہے پیپلزپارٹی اپوزیشن میں بھی رہنا چاہتی ہے اور حکومت کے ساتھ اپنے ’’معاملات‘‘کو بھی ٹھیک رکھنا چاہتی ہے ان کا کہنا ہے کہ مریم نوازاور مولانا فضل الرحمان کو بختاور زرداری کی شادی میں مدعو نہ کرکے پیپلزپارٹی نے مقتدرقوتوں کو مفاہمت کا پیغام دیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ تاثردینا کہ کورونا کی وجہ سے مریم نواز اور مولانا فضل الرحمان کو دعوت نہیں دی گئی تو کراچی میں جب کورونا کی صورتحال ابترتھی اس وقت پی ڈی ایم کا جلسہ کراچی میں منعقد کیا جاسکتا ہے اب جبکہ حالات بہت حد تک قابو میں ہیں ان حالات میں کورونا کا بہانہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ انہوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی کی کوشش ہوگی کہ نون لیگ قومی اسمبلی میں استعفوں کی غلطی کرئے تاکہ قائد حزب اختلاف کا اہم ترین عہدہ بھی اس کے پاس آجائے ادھر حزب اختلاف کے اتحاد نے اپنے آئندہ کی حکمت عملی کے لئے 4 فروری کو سربراہی اجلاس بلا رکھا ہے جس میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ اور پارلیمنٹ سے مشترکہ طور پر مستعفیٰ ہونے کی تجاویز پر غور کیا جائے گا ۔قبل ازیں پی ڈی ایم نے مشترکہ حکمت عملی اپنانے کا اعلان کیا تھا تاہم اب کہا گیا ہے کہ اتحاد میں شامل جماعتوں کی تجاویز کے تحت حکمت عملی اپنائی جائے گا۔