میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ق لیگ’’ میٹر‘‘ ہورہی ہے

ق لیگ’’ میٹر‘‘ ہورہی ہے

ویب ڈیسک
پیر, ۳ فروری ۲۰۲۰

شیئر کریں

لاہور کی گاتی گنگناتی شاہراؤں پرعوامی اُردو سننے والے جانتے ہیں کہ’’ میٹر ہونا ‘‘کیا ہوتاہے؟پھر بھی زیادہ بہتر تفہیم کے لیے ’’اصحاب ق‘‘ کو دیکھ لیں، آج کل وہ حکومت اور عمران خان پر میٹر ہوگئے ہیں۔ بدلتے موسموں میں بدکتے تیوروں سے حکومت کی نئی کہانی سناتے ہیں۔ نیا ساز اور نئے راگ کے ساتھ زمانے کے انداز بدلنے کی خبر دیتے ہیں۔

سی پی این ای(کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز)کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس سے قبل فیصلہ یہ ہوا کہ بہت سی افواہیں گردش کررہی ہیں کیوں نہ ق لیگ کی خیر خیریت دریافت کی جائے۔ چنانچہ صدر سی پی این ای عارف نظامی کے زیرِ قیادت اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی سے ایک نشست کا اہتمام فورا ً ہوگیا۔ نماز جمعہ اسمبلی ہاؤس میں ہی ادا ہوئی ۔ پھر چودھری پرویز الٰہی سے گفتگو کا آغاز ہوا تو اُنہوں نے اپنا دل کھول کررکھ دیا۔ پہلی بار اندازا ہوا کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت سے شکایتیں نہیں بلکہ اُن کے خلاف مقدمہ قائم کر رہے ہیں۔ وہ بپھرے ہوئے تھے ،مگر بکھرے ہوئے نہیں، اسی لیے غصے کے بجائے طنز سے کام لے رہے تھے۔ حکومت کی تضحیک میں بھی ایسا پہلو نکال رہے تھے کہ سب مسکرانے لگتے۔ چودھریوں کا انداز تو ہمیشہ ’’مٹی پاؤ‘‘ کا رہا۔ مگر یہاں تو وہ مٹی اڑا رہے تھے۔ فطری طور پر سوال اُٹھا کہ اتحادیوں کے عشقِ بلاخیز کا قافلۂ سخت جاں اب کون سی وادی میں بھٹک رہا ہے؟ برادرمحترم ارشاد عارف پہلے سے ہی معاملے کا ادراک رکھتے تھے لہذا اندر سے ٹٹولنے کے لیے ایک نکتہ اُٹھایا کہ حکومت اُ ن سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کررہی تو کیا یہ کسی رکاوٹ کی وجہ سے ہے یا پھر نیت کی خرابی ہے؟سوال کیا تھا خود چودھریوں کی نیت ٹٹولنے کا زاویہ تھا۔ چودھری پرویز الٰہی نے ذرا بھی توقف نہ کیا اور صاف صاف کہا کہ رکاوٹ تو کوئی بھی نہیں۔ گویا وہ کہہ رہے تھے کہ حکومت کی نیت ہی خراب ہے۔ اُنہوں نے صاف صاف کہا : اتحادی کو سوتن نہیں سمجھنا چاہئے‘‘۔ اس ایک فقرے میں اتحادی حکومت کی پوری تال میل اور نیت سے لے کر عمل تک کی کہانی قید ہے۔ اگر حکومت کی نیت ہی خراب ہے یا پھر ق لیگ حکومت کی نیت کو ہی خراب سمجھتی ہے تو پھر کسی کمیٹی کے قیام سے کوئی نتیجہ بھی نکلنے والا نہیں ہے۔ اس کے باوجود ق لیگ شجر سے پیوستہ رہ کر کس امیدِ بہار میں ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو اس نشست کے بعد بھی مختلف ساتھیوں کے درمیان زیر بحث رہا۔ ظاہر ہے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ کوئی قوت ایسی بھی ہے جو انہیں باندھ کررکھے ہوئے ہے!! گویا سب زبان قال سے کہہ رہے ہوں

:
یہاں بھلا کون اپنی مرضی سے جی رہا ہے
سبھی اشارے تری نظر سے بندھے ہوئے ہیں
سوال پھر بھی یہ ہے کہ مگر تابَکے!

پنجاب میں ق لیگ اور حکومت کے درمیان پائے جانے والی اس خلیج کے درمیان ہی افواہوں کا بازار لگا ہوا ہے۔ ہر ایک اپنے اپنے فارمولے لے کر گھوم رہا ہے۔مسلم لیگ نون اپنی سیاست کررہی ہے اور اتحادی اپنی اہمیت جتلانے کے لیے اپنے انتخاب کی وسعت اور اُن پر دیگر قوتوں کی للچائی ہوئی نگاہوں کو ہر ایک کے سامنے دکھا دکھا کر چھپا رہے ہیں اور چھپا چھپا کر دکھارہے ہیں۔ ق لیگ کی جانب سے بھی ایسے اشارے کیے جارہے ہیں کہ

کانٹوں میں رکھ کے پھول ہوا میں اڑا کے خاک
کرتا ہے سو طرح سے اشارے مجھے کوئی

پلّو چھڑانے اور پہلو بچانے کا ایک اور پہلوبھی ہے۔ ق لیگ اسی بندوبست میں رہ کر بنیادی تبدیلیوں کا یقین رکھتی ہے۔چنانچہ وہ اکثر ایسی سرگرمیوں کا بھی حصہ نظر آتی ہے جو حکومت کے اتحادی ہوتے ہوئے اُن سے احتیاط کا تقاضا کرتی ہیں۔ اگر چہ چودھری پرویز الٰہی نے کسی اور تناظر میں کہا کہ ایک کمیٹی بنتی ہے دوسری ڈالی جاتی ہے، ہم نے بھی کمیٹی ڈالی ہوئی ہے جو ابھی نکلی نہیں‘‘۔ یوں لگتا ہے کہ وہ جس کمیٹی کے نکلنے کی امید رکھتے ہیں اس کا اختیار کہیں اور ہے۔لاہور میں ایک باخبر دوست نے یہ راز منکشف کیا کہ ق لیگ نے نون لیگ کے اُن ارکان کو اپنی’’ وفاداریاں بدلنے‘‘ سے روکا جو تحریک انصاف کے موجودہ بندوبست میں کسی’’ معقول انتظام‘‘ کا حصہ بننا چاہتے تھے۔ اُنہیں کہا گیا کہ’’ ذرا صبرکریں، فیصلہ ساتھ مل کے کریں گے‘‘۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ق لیگ اندر ہی اندر ایک نئی دنیا تخلیق کرنے میں بھی ضرور لگی ہوئی ہے۔علامہ اقبالؒ نے کہاتھا

درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
چراغِ رہ گزر کو کیا خبر ہے

ایسا نہیں تھا کہ چودھری پرویز الٰہی کسی اچانک سوال سے اس گفتگو کی جانب راغب ہوئے تھے، وہ بہت تول تول کر بول رہے تھے، اپنا ذہن پہلے سے ہی واضح کرکے آئے تھے۔ چنانچہ حکومت کی جانب سے اتحادیوں کے گلے شکوے دورے کرنے کے لیے نئی کمیٹی کے قیام پر اُنہوں نے اپنے تحفظات کسی سوال کے بغیر ہی ظاہر کیے۔ پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ پچھلی کمیٹی سے معاملات ٹھیک جارہے تھے، اب نئی کمیٹی سامنے آگئی، ہمیں تو اس کی سمجھ نہیں آئی۔ تب چودھری پرویز الٰہی نے اپنی جیب سے ایک پرچی نکالی، جس پر بابا بلھے شاہ کا ایک شعر لکھا تھا، اُنہوں نے پڑھا

اگلی توں نہ پچھلی توں
میں صدقے جاواں وچلی توں

 

(پہلے یا بعد والے کو تو چھوڑیں، میں درمیان والے پر صدقے جاؤں)

آشکار تھا کہ نئی کمیٹی کے قیام سے چودھری خوش نہیں۔ ٹھیک اسی روز چودھری مونس الٰہی نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل کو حرکت دیتے ہوئے نئی کمیٹی پر اپنی ناگواری ظاہر کی اور اگلے روز تو اس پر عدم اعتماد ہی ظاہر کردیا۔ گویا سانجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے پر پھوٹنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس بحث کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ گورنر پنجاب چودھری سرور بھی اپنی ہی جماعت سے ناراض ہیں۔ نجی محفلوں میں اپنی ہی حکومت کے خلاف شکایتوں کا دفتر کھولے رکھتے ہیں۔ اتفاق یہ ہے کہ گورنر اور چودھری برادران کی شکایتوں میں ایک مشترک بات یہ ہے کہ بیوروکریسی اُن کی سنتی نہیں۔ جہاں تک گورنر پنجاب کا تعلق ہے تو وزیراعظم عمران خان اُن سے بھی ناراض ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم نے اپنے دورۂ لاہور میں اُن سے بھی ملاقات سے اجتناب کیا ۔ مگر یہ بات زیادہ قابلِ توجہ نہیں رہی۔ اب اطلاع ہے کہ گورنرکو پنجاب بیوروکریسی کے سب سے بڑے افسر نے پیغام بھیجا کہ آپ اس سیکریٹری، ڈپٹی سیکریٹری ، یا ڈپٹی کمشنر کا نام لیں جس نے آپ کا فون نہ سنا ہو یا پھر آپ کی جائز بات نہ مانی ہو، مگر ایک ہفتہ ہوا کوئی جواب نہیں آیا۔ چودھری برادران کی شکایتوں کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ وہ پنجاب کے چار اضلاع بہاولپور ،چکوال ، منڈی بہاء الدین اورگجرات میں اقتدار کا ارتکاز چاہتے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ عملاً ان چاروں علاقوں میں چودھری برادران کی ہی من پسند انتظامیہ تعینات ہے، بس اُنہیں یہ ہدایت ہے کہ کوئی غلط کام نہ کریں۔گویا اعتراض اس ہدایت پر ہے۔

پاکستان کو ایک آہنگ درکارہے۔ سیاست سے لے کر انتظامی معاملات تک ایک نظم کے ساتھ حدود وقیود کا تعین ضروری ہے ۔ نوے کی دہائی میں جو عادتیں سیاست دانوں کو لگی تھیں وہ اس کو بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ خواہ اس کے لیے اتحاد، جماعتیں یا سیاسی وفاداریاں بدلنی پڑے۔ لاہور میں نئے سیاسی بندوبست اور نئے اتحاد کی افواہیں عروج پر ہیں۔ تاریخ تو یہ ہے کہ غزنوی خاندان کے زوال کے بعد غوری خاندان اور خاندان غلاماں کے دور میں لاہور ،سلطنت کے خلاف سازشوں کا مرکز رہا۔ درحقیقت لاہور ہمیشہ پٹھانوں کے مقابلہ میں مغل حکمرانوں کی حمایت کرتا رہا۔ ایک بار پھر خان لاہور میں ماضی کا مشاہدہ حال میں کررہا ہے۔ کیا ہوگا ، اس کا ایک جواب تاریخ میں ہے اور دوسرا اس رویہ میں جو خود خان کا اتحادیوں کے ساتھ یا اتحادیوں کا خان کے ساتھ ہے۔اس بحر کی تہہ سے کچھ نہ کچھ اُچھلنا ضرور ہے۔ دیکھتے ہیں وہ ’’کچھ نہ کچھ‘‘ آگے ’’کیا کیا کچھ‘‘بدلتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں