میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پنجاب شاہی؟

پنجاب شاہی؟

منتظم
هفته, ۳ فروری ۲۰۱۸

شیئر کریں

ظہور دھریجہ
مسلم لیگ ن کی طرف سے میاں شہباز شریف کو آئندہ وزیراعظم اناؤنس کیا گیا ہے ۔ گویا وہ خادم پنجاب سے خادم پاکستان کے سفر پر کمر بستہ ہیں ۔ اگر ایک لمحے کے لیے سوچا جائے کہ کیا خدمت کا یہ منصب آگے کے لیے ہمیشہ لاہور کے پاس رہے گا؟ اگر اس سوال کا جواب پنجاب کی آبادی کے حوالے سے ڈھونڈا جائے تو بالکل یہی جواب آتا ہے کہ 62 فیصد آبادی کا ایک صوبہ ہے اور 38 فیصد آبادی کے تین صوبے ۔ اگر موجودہ صورتحال پر غور کیا جائے تو سندھ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے ن لیگ نہ ہونے کے برابر ہے اور وہاں حکومتیں بھی دوسری جماعتوں کی ہیں ۔ محض ایک صوبے کے بل بوتے پر پنجاب کے حکمران پورے ملک پر راج کر رہے ہیں ۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ سرائیکی صوبہ بن جائے تا کہ وفاق کچھ تو متوازن ہو ۔ اسی میں پاکستان کا استحکام اور مضبوطی کا راز پوشیدہ ہے۔

مولانا فضل الرحمن ، اسفندیار ولی خان ، محمود خان اچکزئی ، حاصل خان بزنجو ، عطا اللہ خان مینگل ، ممتاز بھٹو، پیر صاحب پگاڑا، فاروق ستار ، عبدالقادر مگسی ، آصف زرداری ، بلاول بھٹو اور عمران خان کے ساتھ ساتھ یہ بات یوسف رضا گیلانی ، جاوید ہاشمی ، شاہ محمود قریشی ، مخدوم احمد محمود ، نتاشہ و تہمینہ دولتانہ اور وسیب کے دیگر سیاستدانوں کے سوچنے سے بھی تعلق رکھتی ہے کہ اگر صورتحال یہی رہی تو خادمِ پنجاب کے ساتھ ساتھ خادمِ پاکستان کی باری بھی لاہور کے مقتدر لوگوں کے حصے میں آتی رہے گی ۔پنڈی کے شیخ رشید صاحب نے میاں نواز شریف کی مخالفت میں طوفان اٹھایا ہوا ہے لیکن ان کو یہ توفیق نہیں ہو رہی کہ وہ پوٹھوہار صوبے کا مطالبہ کر کے پنجاب کے ناروا برتری کا خاتمہ کرائیں ۔ اس کے ساتھ میں سرائیکی وسیب کے سیاستدانوں کے لیے خاص طور پر کہوں گا کہ وہ کب تک قیادت کے لیے لاہور و لاڑکانہ کی طرف دیکھیں گے ؟ ہمارے سرائیکی سیاستدانوں کو سرائیکی شاعری کی اتنی زیادہ سمجھ نہیں ہے ۔ اس لیے میں علامہ اقبال کی زبان میں کہوں گا کہ ’’ اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی ، تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن‘ اپنا تو بن ‘‘ ۔ اسی طرح علامہ اقبال کا ایک اور شعر اس طرح ہے کہ ’’ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے ‘ خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ؟‘‘۔

عجب بات ہے کہ سرائیکی وسیب کے بہت سے سیاستدان بھی سوال کرتے ہیں کہ صوبے کا کیا فائدہ ہے ؟ میں عرض کرتا ہوں کہ ہمارے ملک پاکستان کی بقاء اور استحکام کے لیے صوبہ سرائیکستان کا قیام بہت ضروری ہے۔ سرائیکی وسیب کے لوگوں کا علیحدہ صوبہ حق ہے۔ وسیب کے لوگ اپنا حق اور پہچان مانگتے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے پنجاب کو بہت بڑا صوبہ بنا دیا گیا۔ 38 فیصد آبادی کے تین اور 62 فیصد آبادی کا ایک، یہ بد ترین مذاق ہے۔ یہ ایسے ہے جیسے ایک پہیہ ٹریکٹر اور تین پہیے کار۔ گاڑی کیسے چلے گی؟ تقسیم کے بعد ہندوستانی پنجاب جو پاکستانی پنجاب کا نصف سے بھی کم ہے کے چار صوبے پنجاب ، ہریانہ ، ہماچل اور دہلی بنے۔یہاں مزید صوبے بنانے کی بجائے بہاولپور کو بھی ہڑپ کر لیا ، جس سے خطرناک حد تک وفاق عدم توازن کا شکار ہے۔ صوبہ سرائیکستان بننے سے صوبے متوازن ہوں گے ۔ لٹیرے ڈاکو اور ظالم رنجیت سنگھ کے قبضے اور دیرہ اسماعیل خان اور ٹانک پر انگریز سامراج کے غلط فیصلے کا خاتمہ ہو گا۔ ملتان ہزار ہا سال سے ایک خومختار ریاست اور علیحدہ صوبہ رہا۔ صوبہ سرائیکستان بننے سے سرائیکی وسیب کو تخت لاہور اور تخت پشور کی غلامی سے نجات ملے گی کہ ہمارے وسیب کو زبردستی ان صوبوں کا حصہ بنایا گیا۔ چھوٹے صوبے کے لوگ صوبہ پنجاب سے بہت ناراض ہیں ۔ اس کا خمیازہ اور جانی و مالی نقصان سرائیکیوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ بلوچستان میں سینکڑوں سرائیکیوں کو پنجاب کا رہنے والا کہہ کر مار ڈالتے ہیں ۔ جرم یہ بتایا گیا ہے کہ آپ پنجابی ہو اور پنجاب میں رہتے ہو ۔ حالانکہ سرائیکی خود پنجاب کے ظلم اور استحصال کا شکار ہیں۔

قیام پاکستان سے لے کر آج تک سرائیکی وسیب اور سرائیکی عوام کو تعلیم ، اقتصادی ترقی اور معاشی خوشحالی کے عمل میں شامل نہیں کیا گیا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس لیے ہم جغرافیائی ، ثقافتی اور تاریخی بنیاد پر اپنے علیحدہ صوبے سرائیکستان کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ ہمارے ہمسائے ملک ہندوستان میں تمام صوبوں کی سٹیٹ ری آرگنائزیشن ایکٹ آف 1956 ء کے تحت لسانی بنیاد پر تشکیل نو کی گئی ۔ اس اصول کے تحت پندراں بیس صوبے اور بنائے گئے ۔ وہاں بھی پنجاب کے چار صوبے بنائے گئے ۔سرائیکی صوبہ سرائیکی وسیب کے کروڑوں لوگوں کا حق ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں