شہریت ترمیمی قانون اور حکومت کی ہٹ دھرمی
شیئر کریں
جمہوریت کا سب سے بڑا حسن یہ ہے کہ اس میں عوامی رائے کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اسی لیے جمہوری نظام کو عوام کے ذریعہ، عوام کے لیے اور عوام کی طرف سے چلایا جانے والا نظام بھی کہا جاتا ہے، مگر موجودہ نظام حکومت میں ہمیں جن تجربات سے گزرنا پڑ رہا ہے، اس میں رائے عامہ اورعوامی مفادات کو پوری طرح پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔موجودہ حکومت پوری طرح غیرجمہوری طریقوں پرچل رہی ہے۔اس کی ایک دو نہیں، کئی مثالیں موجود ہیں۔ مرکزی حکومت مسلسل عوامی مفادات کے خلاف قانون بنارہی ہے اور جو لوگ عوام دشمن قوانین کے خلاف احتجاج کررہے ہیں، انھیں انتقامی سیاست کا شکار بنایا جارہا ہے۔اس کا سب سے بڑاثبوت شہریت ترمیمی قانون ہے، جس کے معاملے میں حکومت نے ہٹ دھرمی کا رویہ اختیارکررکھا ہے۔یہ خبر ان لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث ہوسکتی ہے، جو گزشتہ دوسال سے مذہبی تفریق پر مبنی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک گیر سطح پر احتجاجی مہم چلارہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق حکومت نے اترپردیش سمیت پانچ اسمبلی انتخابات سے پہلے اس قانون کے تعلق سے ایک بڑا داؤ کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ جنوری کے پہلے ہفتہ میں سی اے اے نافذ کرنے جارہی ہے۔
2020 میں زبردست مزاحمت کے درمیان بنایا گیا یہ متنازع قانون ابھی نافذ نہیں ہوپایا ہے کیونکہ ابھی تک اس کے ضابطے نہیں طے ہوپائے ہیں۔لیکن اب اس کام کے لیے 10 جنوری کی حتمی تاریخ مقرر کردی گئی ہے۔ حکومت پر اس معاملے میں آرایس ایس کا شدید دباؤ ہے اور وہ چاہتی ہے کہ یو پی اسمبلی انتخابات سے پہلے اس قانون کو پوری طاقت کے ساتھ نافذ کردیا جائے۔ اس طرح یوپی اسمبلی انتخابات جیتنے کے لیے ایک اور فرقہ وارانہ موضوع حکمراں بی جے پی کے ہاتھوں میں ہوگا۔ اب یہ بات بھی طے ہوگئی ہے کہ جو لوگ زرعی قوانین کی واپسی کی طرز پر سی اے اے کی واپسی کی آس لگائے بیٹھے تھے، انھیں اب مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔سبھی جانتے ہیں کہ سی اے اے کے خلاف ملک گیرسطح پرچلائی گئی تحریک اس ملک میں اپنی نوعیت کی انوکھی تحریک تھی، جس کے اثرات عالمی سطح پر محسوس کئے گئے۔اس تحریک کی مقبولیت اوروسعت کو دیکھ کریوں لگتا تھا کہ حکومت عوامی مطالبات کے سامنے ہتھیارڈال دے گی، لیکن اس تحریک کا تعلق چونکہ براہ راست مسلمانوں سے تھا اور ان ہی پر اس قانون کی ضرب بھی پڑے گی، لہٰذا حکومت نے اس کی واپسی کے مطالبات پر غور کرنے کی بجائے اسے سیاسی ہتھیار کے طورپر استعمال کرنے کی فیصلہ کیا ہے۔ اب اس قانون کو اترپردیش کے چناؤ میں ایک اہم موضوع کے طورپر پیش کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے ،تاکہ موجودہ حکومت کا فرقہ وارانہ اور مسلم مخالف ایجنڈا پروان چڑھ سکے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق جنوری کے پہلے ہفتہ میں ان’شرنارتھیوں‘کو شہریت ترمیمی قانون نافذ ہونے کا تحفہ مل سکتا ہے، جو برسوں سے ہندوستانی شہریت حاصل کرنے کا انتظارکررہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یوپی سمیت پانچ صوبوں کے انتخابات کے پیش نظر آرایس ایس مسلسل اس بات پر زور دے رہی ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آئے ہندوؤں،سکھوں، جینیوں،بودھوں، پارسیوں اور عیسائیوں کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ سرکار نے آرایس ایس قیادت کو پورا بھروسہ دلایا ہے کہ اب اس سلسلہ میں 10جنوری کی جو تاریخ طے کی گئی ہے اس کو آگے نہیں بڑھایا جائے گااور اس سے پہلے ہی ضابطے بناکر سی اے اے کو نافذ کردیا جائے گا۔حکومت کا خیال ہے کہ پڑوسی مسلم ملکوں میں رہ رہی اقلیتوں کے ساتھ’بھیدبھاؤ‘کیا جاتا ہے اور ان کے انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے، لہٰذا انھیں ہندوستانی شہریت دے کر اس ظلم سے نجات دلائی جائے جس کا وہ برسوں سے شکار رہے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ خود ہمارے اپنے ملک میں مذہبی اقلیتوں کا کیا حال ہے اور بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد کس طرح ان کا عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے، یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ حکومت پڑوس کے مسلم ملکوں میں رہنے والی اقلیتوں کے حال پر خون کے آنسو بہارہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مودی سرکار حکمرانی کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے پہلے خود اپنے ملک کی اقلیتوں کی خبر گیری کرتی اور انھیں ظلم وستم سے نجات دلاتی،لیکن اس کی بجائے اس نے پڑوسی ملکوں کی اقلیتوں کی خبرگیری کوفوقیت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پڑوسی ملکوں میں بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو وہاں کی اقلیتوں کے ساتھ مذہبی بنیاد پر’بھیدبھاؤ‘ کرتے ہیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہاں کی حکومتیں ان سے سختی کے ساتھ پیش آتی ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ پچھلے دنوں جب بعض شرپسندوں نے پاکستان اور بنگلہ دیش میں مندروں کو نشانہ بنایا تو وہاں کی حکومتیں فوراً حرکت میں آئیں۔ نہ صرف یہ کہ ملزمان کی فوری گرفتاری عمل میں آئی بلکہ ان سے نقصان کا معاوضہ بھی وصول کیا گیا۔جن شرپسند وں نے پاکستان اور بنگلہ دیش میں مندروں کو نشانہ بنایا تھا، وہ اب بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔اس کے برعکس ہمارے ملک کا حال یہ ہے کہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملے کرنے یا انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنانے والوں کے ساتھ اتنی نرمی برتی جاتی ہے کہ وہ بار بار اسی گناہ کو دہراتے ہیں۔حکومت کے اسی نرم رویے کااثر ہے کہ اب یہاں مسلمانوں کی نسل کشی کی اپیلیں جاری کی جارہی ہیں اور کھلے عام ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی باتیں ہونے لگی ہیں۔حال ہی میں ہری دوار کی نام نہاد دھرم سنسد میں جو کچھ ہوا ہے، اس نے سب کی آنکھیں کھول دی ہیں، لیکن حکومت اور اس کی مشنری اب بھی خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔اس کے برعکس اقلیتی فرقہ کے لوگ اگر اپنے جائز دستوری مطالبات پر زور دینے کے لیے کہیں اکٹھا بھی ہوتے ہیں تو ان کے خلاف ملک دشمنی کی دفعات کے تحت کارروائی ہوتی ہے۔اس کا سب سے بڑا ثبوت سی اے اے تحریک میں پیش پیش رہنے والے وہ سماجی کارکنان ہیں، جنھیں حکومت نے دہشت گردی مخالف قانون ’یو اے پی اے‘کے تحت گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال رکھا ہے اور ان کی ضمانتیں بھی نہیں ہوپارہی ہیں۔ان میں سے بیشتر کو نارتھ ایسٹ دہلی کے فساد کی سازش رچنے کا ملزم گردانا گیا ہے۔
دہلی کے شاہین باغ میں سی اے اے مخالف احتجاج کرنے والوں کے ساتھ سرکاری مشنری نے یہ سلوک اس لیے کیا کہ وہ مستقبل میں ایسی ہمت ہی نہ کرسکیں۔ان کا قصور یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ کھلی تفریق برتنے والی ایک غیردستوری ترمیم کے خلاف پرامن احتجاج کررہے تھے،جس کا حق انھیں دستور نے دیا ہے۔ مگر حکومت کی مشنری نے ان کے حوصلوں کو کچلنے کا کام کیا۔ اس درمیان کورونا وبا پھیل جانے کے سبب اس تحریک کو موخر کردیا گیا، لیکن تحریک چلانے والوں کا کہنا تھا کہ حالات معمول پر آنے کے بعد وہ اس کا احیاء کریں گے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کے دوران وزیرداخلہ امت شاہ نے اعلان کیا تھاکہ ملک بھر میں ٹیکہ کاری مکمل ہونے کے بعد سی اے اے نافذ کردیا جائے گا۔ لہٰذا اب اس کی تیاری پوری کرلی گئی ہے اور اس کی حتمی تاریخ 10جنوری مقرر کی گئی ہے۔واضح رہے کہ کسی قانون کے وجود میں آنے کے بعد اس کے ضابطے چھ مہینے کے اندر شائع ہوجانے چاہئے تاکہ اس قانون پر عمل آوری ہوسکے۔ سی اے اے پارلیمنٹ سے11/دسمبر 2019کو پاس ہوا تھا۔ اس کا آرڈی نینس 10/ جنوری 2020کو نافذ ہوا، لیکن اس کے ضابطے نہیں طے کیے جاسکے۔ضابطے طے کرنے کے لیے مرکزی حکومت نے پہلے اکتوبر 2020، پھر فروری2021اوربعد میں مئی 2021 تک توسیع طلب کی۔ اب حکومت کے سامنے 10/جنوری 2022کی ڈیڈ لائن ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ مرکزمزید توسیع نہیں طلب کرے گا۔ اس طرح ملک میں ایک ایسا قانون نافذ ہوجائے گا جو پڑوسی ملکوں کے سبھی غیر مسلم شہریوں کو ہندوستانی شہریت حاصل کرنے کا حق فراہم کرے گا، مسلمان اس سہولت سے محض اس لیے محروم رہیں گے کہ وہ موجودہ حکومت کے ایجنڈے کا حصہ نہیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔