میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ،مہنگائی کا طوفان

پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ،مہنگائی کا طوفان

منتظم
بدھ, ۳ جنوری ۲۰۱۸

شیئر کریں

دنیا بھر میں یہ عام معمول ہے کہ جمہوری حکومتیں کوئی بھی معاشی فیصلہ کرنے سے پہلے کم آمدنی والے غریب طبقے پر اس کے اثرات کا جائزہ لیتی ہیں اور ایسے اقدامات سے گریز کرتی ہیں جن سے معاشرے کے پہلے سے پسے ہوئے لوگوں کی مشکلات بڑھ سکتی ہوں۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ایک تہائی سے زائد آبادی خط افلاس سے نیچے عسرت کی زندگی گزار رہی ہے۔ اس کے لیے دوسری سہولتیں تو دور کی بات ہے دووقت کی روٹی کا حصول بھی جان جوکھوں کا کام ہے۔ جب زمینی حقائق یہ ہوں تو ایسا کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے سو بار سوچنا چاہئے جس کے نتیجے میں مہنگائی کا طوفان آجائے لیکن ہماری حکومت نے اچانک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا بم گرا کر عوام، خصوصاً نادار طبقے کی مشکلات بڑھا دی ہیں۔
سال نو کے آغاز سے چند گھنٹے قبل وزیراعظم کے مشیر مالیات ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے نہ صرف پٹرول اور ڈیزل بلکہ عام آدمی کے استعمال میں آنے والے مٹی کے تیل کے نرخ بھی بڑھا دیئے ہیں جنہیں عام طور پر غریب پروری کی خاطر نہیں بڑھایا جاتا، مشیر مالیات نے پٹرولیم مصنوعات مہنگی کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے دلیل دی ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں جس کی وجہ سے نرخوں میں اضافہ ناگزیرتھا، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں یہ نرخ اب بھی ہمسایہ ممالک بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش اور ترکی سے کم ہیں۔آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے قیمتوں میں اضافے کی جو سفارش کی تھی وزیراعظم نے اسے من وعن منظور نہیں کیا اور بعض آ ئٹمز کے نرخ کم بڑھائے۔ حکومت پٹرولیم مصنوعات کے اخراجات کا زیادہ بوجھ خود برداشت کر رہی ہے۔ پٹرول پر سیلز ٹیکس نہیں بڑھایا گیا اور ڈیزل پر بھی یہ ٹیکس 30.6سے کم کر کے 25.5فیصد کر دیا گیا ہے۔ حکومت کا یہ موقف درست ہو سکتا ہے لیکن عملی صورت حال یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں رد و بدل کا ضروریات زندگی کی قیمتوں سے گہرا تعلق ہے۔
پٹرول اور ڈیزل مہنگا ہونے سے ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں جتنا اضافہ ہوتا ہے مسافروں اور مال برداری کے کرائے ان سے کہیں زیادہ بڑھا دیئے جاتے ہیں اور منافع خور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اشیائے صرف کی منہ مانگی قیمتیں وصول کرنے لگتے ہیں۔ اس سے مہنگائی کو پر لگ جاتے ہیں جس کا غریب تو درکنار متوسط طبقہ بھی متحمل نہیں ہو سکتا۔ موجودہ حکومت نے گزشتہ چار سال میں تیل کی مصنوعات کے نرخوں میں بار بار ردوبدل کیا ہے اس عرصے میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا رجحان رہا جس کی وجہ سے حکومت نے 14 مرتبہ عوام کو ریلیف بھی دیا لیکن18بار قیمتوں میں اضافہ کر کے ان کے مالی بوجھ میں اضافہ بھی کیا گیا یہ درست ہے کہ اس وقت تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن اضافے کی اس شرح سے کہیں زیادہ مقامی نرخ بڑھا دیئے گئے ہیں۔ نرخوں میں اضافے کا یہ فیصلہ معاشی سے زیادہ سیاسی لگتا ہے کرنسی کی شرح مبادلہ کے معاملے کی طرح پٹرولیم کے نرخوں میں اضافے کو پہلے روکا گیا لیکن پھریک لخت دھماکہ کر دیا گیا۔ اس کی بجائے تدریجی عمل اختیار کیا جاتا تو زیادہ مناسب تھا۔ مشیر مالیات کا یہ اعلان خوش آئند ہے کہ ملکی معیشت مستحکم ہے۔آ ئی ایم ایف کے پاس جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایمنسٹی اسکیم یا بانڈ بھی نہیں لائے جا رہے اگر واقعی ایسا ہے تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یک لخت اتنے اضافے کی ضرورت نہیں تھی۔ سابق وزیر خزانہ کی سبکدوشی کے بعد وزارت خزانہ کے نئے وزیر مملکت اور مشیر بھی آ گئے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ نئے سرے سے معاشی منصوبہ بندی کی جاتی۔ نئی پالیسیوں کا اعلان کیا جاتا اور عوام کو اعتماد میں لیا جاتا۔پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافیسے مہنگائی کے جس طوفان کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں اسے روکنے کے لیے موثر اور بروقت اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ عام اشیا کی قیمتوں پر کڑی نظر رکھے اور انہیں بڑھنے نہ دے۔ (تجزیہ)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں