امریکی دھمکیاں اور جماعت الدعوۃ کیخلاف کارروائی
شیئر کریں
منذر حبیب
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر پاکستان کیخلاف بے بنیاد الزام تراشی کرتے ہوئے دھمکی آمیز پیغام جاری کیا ہے کہ امریکا نے پندرہ سال میں تینتیس ارب ڈالر سے زائد امداد دیکر بے وقوفی کی ہے لہٰذا آئندہ پاکستان کو کسی قسم کی کوئی امداد نہیں دی جائے گی۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں ٹرمپ نے کہاکہ پاکستان نے امداد کے بدلے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ پاکستانی قیادت امریکی حکام کو بے وقوف سمجھتی ہے۔ وہ ایسے لوگوں کو اپنے ملک میں پناہ گاہیں فراہم کر رہے ہیں جنہیں ہم افغانستان میں نشانہ بنا رہے ہیں۔اس لیے اب ایسا نہیں چلے گا۔ ٹرمپ جب سے برسراقتدار آئے ہیں ان کا واضح جھکائو انڈیا کی جانب ہے اور پاکستان کو مسلسل دھمکانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امریکی صدر نے جب جنوبی ایشیا کے لیے اپنی پالیسی کا اعلان کیا تو اس میں بھی صاف طور پر کہا کہ پاکستان خطہ میں بھارتی کردار کو تسلیم کرے۔اسی طرح افغانستان میں ہندوستانی فوجوں لا کر بٹھا دیا گیا ہے جو قونصل خانوں کے نام پر دہشت گردی کے اڈے چلا رہے ہیں اور بلوچستان، سندھ و دملک کے دیگر حصوں میں تخریب کاری کے لیے دہشت گردوں کو تربیت دیکر پاکستان میں داخل کیا جارہا ہے۔ آنے والے دنوں میں پاکستان کو میدان جنگ بنانے کے لیے داعش جیسی تنظیموں کو بھی افغانستان میں بہت زیادہ پروموٹ کیاجارہا ہے اور انہیں ہر طرح کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ یہ امریکی شہ کا ہی نتیجہ ہے کہ ایک طرف بھارت سرحدوں پرپاکستان کے لیے مسائل کھڑے کر رہا ہے تو دوسری جانب افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے وطن عزیز پاکستان میں دہشت گردی کی آگ بھڑکانے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ امریکی صدر نے رواں سال کی پہلی ٹویٹ میں پاکستان کیخلاف گمراہ گن الزامات لگائے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے تو امریکیوں کی طرف سے شروع کر دہ نام نہاد دہشت گردی کی جنگ کا حصہ بنا کرخود اپنا بہت نقصان کیاہے۔ ہزاروں کی تعداد میں افواج پاکستان، رینجرز، پولیس اور دیگر اداروں سے وابستہ اہلکاروں سمیت عام لوگوں کی شہادتیں ہوئیں۔ایک ایک دن میں کئی کئی دھماکے ہوئے اور بے گناہوں کا کون بہایا جاتا رہا۔ پاکستان کو 130ارب ڈالرسے زیادہ مالی نقصان ہوا مگر ٹرمپ یہ کہہ کر احسان جتلا رہے ہیں کہ ہم نے پاکستان کو تینتیس ارب ڈالر کی امداد دی ہے اس لیے وہ ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کرے۔ افغانستان کی جنگ میں ہماری زمین، سڑکیں اور فضائیں استعمال کی گئیں۔ اس جنگ کی وجہ سے جس قدر ہمارا نقصان ہوا ہے امریکا کی جانب سے دی گئی رقم تومحض اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے۔ ویسے بھی امریکا نے ا س دورانیے میں پاکستان کو اگر کچھ دیا ہے توکسی پر کوئی احسان نہیں کیا۔اس رقم سے تو ہماری سڑکوں کا ہونے والا نقصان پورا نہیں ہو سکتا۔
نائن الیون کے بعد پاکستانی حکمرانوں نے جب نام نہاد دہشت گردی کیخلاف جنگ میں امریکا کا اتحادی بننے کا فیصلہ کیا تو محب وطن حلقوں کی جانب سے اس وقت ہی کہا گیا تھا کہ آپ یہ غلطی نہ کریں ۔ امریکا بظاہر پاکستان سے دوستی کی بات کرتا ہے لیکن درحقیقت وہ بھارت کا فطری اتحادی ہے اور وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرے گا اور پھر یہی کچھ ہوا ہے۔ جب تک امریکا کو اپنا مطلب تھا وہ برداشت کرتا رہا تاہم پوری فوجی قوت جھونکنے اور تمامتر وسائل استعمال کرنے کے باوجود اسے جب افغانستان میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے تو اس نے سارا ملبہ پاکستان پر ڈالتے ہوئے دھمکی آمیز رویہ اختیار کر لیا ہے۔ پہلے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا گیا کہ جب امریکا شراکت داری قائم رکھنا چاہتا ہے تو وہ پاکستان میں بھی ان گروہوں کیخلاف کاروائی دیکھنا چاہے گا جو اس کے مفادات کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ پاکستان ہر سال واشنگٹن سے ایک بڑی رقم وصول کرتا ہے اس لیے وہ امریکا کی امداد کا پابند ہے۔گزشتہ ماہ امریکی نائب صدر مائیک پنس کی جانب سے بیان سامنے آیا جس میں کہا گیا کہ امریکی صدرنے اسلام آباد کو ’’نوٹس‘‘پر رکھ لیا اور خبردار کیا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں اور مجرموں کو پناہ دینا چھوڑ دے وگرنہ اسے بہت کچھ کھونا پڑے گا ۔امریکا کی یہی وہ دھمکیاں تھیںجس پر پاکستان کی عسکری قیادت نے بھی دوٹوک موقف اختیار کیا اور واضح طور پر کہاکہ پاکستان نے بہت کچھ کر لیا اب ڈومور امریکا کو کرنا ہو گا۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے پہلے ہی کہہ دیاگیا تھا کہ پاکستان کو کھلی دھمکیاں دی جارہی ہیں لیکن سوال پاکستان کا سلامتی کا پیدا ہو تو پوری پاکستانی قوم متحد ہے اور اس حوالہ سے سب کا موقف ایک ہو گا۔ اب مشترکہ بیانیہ کا وقت آگیا ہے۔
وطن عزیز پاکستان کے دفاع کے لیے ہم دو جنگیں لڑ چکے اب کسی اور کی نہیں صرف اپنی جنگ لڑیں گے۔ امریکا کی ان دھمکیوں کے بعد عسکری قیادت کا تو واضح اور دو ٹوک موقف سامنے آیا جس پر پوری پاکستانی قوم نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ مشکل کی ہر گھڑی میں وطن عزیز کا بچہ بچہ افواج پاکستان کے ساتھ ہے تا ہم دوسری جانب شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار بننے کی کوشش کرنے والی موجودہ حکومت ایک طرف تو یہ کہہ رہی ہے کہ وہ پاکستانی شہروں پر ہونیو الے ڈرون حملوں کا منہ توڑ جواب دے گی اوریہ کہ وہ ہر قسم کی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ جماعۃالدعوۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن کیخلاف کاروائیوں پر اتر آئی ہے۔ جماعۃالدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید نے سال 2017کشمیر کے نام کرنے کا اعلان کیا تو بھارتی دبائو پر انہیں نظربند کر دیاگیاجس پر انہیں دس ماہ بعد لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے نتیجہ میں رہائی ملی۔ اب ایک بار پھر جب سال 2018ء کے آغاز پر انہوںنے کشمیریوں پر بھارتی مظالم اجاگر کرنے اور مقبوضہ بیت المقدس کی آزادی کے لیے ملک گیر تحریک کا اعلان کیا تو انڈیا کے شدید پروپیگنڈا اور امریکی دبائو پر اب جماعۃالدعوۃ اور ایف آئی ایف کی ایمبولینسیں قبضہ میں لینے کی باتیں شروع کر دی گئی ہیں۔ حافظ محمد سعید کو نظربند کرتے وقت کہا گیا تھا کہ ہم اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے یہ اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ یہ سب معاملات لاہور ہائی کورٹ میں زیر بحث رہے اور پھر اعلیٰ عدلیہ نے واضح طور پر یہ فیصلہ دیا کہ جماعۃالدعوۃ کے سربراہ اور ان کے دیگر ساتھیوں پرلگائے گئے الزامات درست نہیں ہیں۔
ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں اس امر کی بھی وضاحت کر دی ہے کہ جماعۃالدعوۃ اور لشکر طیبہ دو الگ الگ تنظیمیں ہیں لیکن صورتحال یہ ہے کہ حکومت جب چاہتی ہے جماعۃالدعوۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن کو لشکر طیبہ کا حصہ قرار دیکر اس کیخلاف اقدامات اٹھانا شروع کر دیتی ہے۔ ایف کی ایمبولینسیں ، مدارس اور دیگر اثاثے حکومت کی طرف سے تحویل میں لینے اور فنڈز جمع کرنے کی خبروں پر پاکستانی قوم میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ ایک عام پاکستانی سوچنے پر مجبور ہے کہ اگر حکومت واقعتا امریکی دھمکیوں کیخلاف افواج پاکستان کے ساتھ ایک پیج پرکھڑی ہے تو پھر کشمیریوں کی تحریک آزادی میں حصہ لینے اور رفاہی و فلاحی خدمات سرانجام دینے پرجماعۃالدعوۃ اور ایف آئی ایف کو نشانہ بنا کر بھارت و امریکا کو خوش کرنے کی کوششیں کیوں جارہی ہیں؟۔ وزیر داخلہ احسن اقبال کا یہ کہنا کہ فلاح انسانیت اور جماعۃالدعوۃ کیخلاف کاروائی امریکی دبائو پر نہیں کی جارہی ‘ درست نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے جس طرح مودی سرکار سے یکطرفہ دوستی نبھانے اوربھارت نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے والی حرکتیں کی ہیں ماضی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ایسے موقع پرجب قوم کو امریکی وبھارتی جارحیت کیخلاف متحد کرنے کی ضرورت ہے حکومت نے متنازعہ اقدامات اٹھانے کا عمل شروع کر دیا ہے جس کی تمام مکاتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی طرف سے مذمت کی جارہی ہے۔
جماعۃالدعوۃ کے ترجمان یحییٰ مجاہد نے کہا ہے کہ اگر حکومت بھارتی و امریکی دبائو پر ان کی جماعت کیخلاف کوئی کاروائی کرتی ہے تو وہ عدالتوں میں جائیں گے اور بھرپور قانونی جنگ لڑیں گے۔ میں سمجھتاہوں کہ عدالتوں میں جانا ان کا قانونی حق ہے اور ماضی کی طرح اب بھی اللہ تعالیٰ انہیں ان شاء اللہ ضرور سرخرو کرے گا لیکن نواز حکومت جو پہلے ہی ختم نبوت قانون میں ترمیم اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کی کمر میں خنجر گھونپنے کی وجہ سے عوامی سطح پر زیر عتاب ہے نا صرف یہ کہ اس کی اپنی سیاست کا بیڑہ غرق ہو گا بلکہ اس سے ملکی سلامتی و استحکام کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عسکری قیادت کی طرح سیاسی لیڈرشپ بھی بالغ نظری کا ثبوت دے اور اس بات کا خیال دل سے نکال دے کہ امریکا کو راضی کرنے سے ہی وہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھ سکیں گے۔ دنیا کے حالات اب تبدیل ہو چکے اور نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں اب اسے ہی اقتدار ملے گا جو اس ملک کے لیے سوچے گااور اس حوالہ سے کردار ادا کرنے کی کوشش کرے گا۔