میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
خوف سے نجات کیسے؟

خوف سے نجات کیسے؟

ویب ڈیسک
هفته, ۲ دسمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

سمیع اللہ ملک
نہ کوئی دنیاکی حقیقتوں کوجانتاہے اورنہ ہی اپنے اردگردبکھرتی قوموں اورتباہ ہوتی ہوئی قوتوں کودیکھتاہے۔عذاب کے فیصلوں اوراللہ کی جانب سے نصرت کے مظاہروں کودیکھنے کیلئے کسی تاریخ کی کتاب کھولنے یاعادوثمودکی بستیوں کامطالعہ کرنے کی ضرورت نہیں۔یہ ابھی کل کی باتیں ہیں۔ میرے اللہ کافرمان ہے کہ جب ہم کسی قوم پرکوئی آفت نازل کرتے ہیں تووہ اس کی مادی توجیہات کرنے لگ جاتاہے۔کوئی سوچ سکتاتھاکہ دنیاکی ایک ایٹمی سپرطاقت جس کے پاس اس ساری دنیاکوکئی مرتبہ تباہ کرنے کاسامان موجودہو، جس کی تسخیرخلاؤں تک ہو،جودنیامیں پچاس سے زیادہ کیمونسٹ تحریکوں کی برملامددکرتاہو،بے خانماں،بے سروساماں افغان مجاہدوں نے صرف اپنے رب کے بتائے ہوئے حکم جہادکے ذریعے اس کے چھ ٹکڑے کردیئے۔اس کے بعددنیاکی واحدسپرپاوراورافغانستان کوڈیڑھ منٹ میں خاکستر کرنے کادعوی کرنے والوں کودوحہ میں ساری دنیاکے سامنے ان مجاہدوں کی شرائط پرصلح نامہ پردستخط کرکے انخلا کی بھیک مانگناپڑی ہو۔
کسی ایک محاذپرشکست کے بعدقومیں متحدہوجایاکرتیں ہیں،انتقام کیلئے،اپنے آپ کومزیدطا قتورکرنے کیلئے،لیکن جو مسلمان قوم جہاد سے منہ موڑلے توقدرت اس قوم کیلئے زوال ورسوائی کافیصلہ صادرکردیتی ہے۔ان کونفرت،تعصب،بھوک،افلاس اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہونے کامزاچکھادیاجاتاہے۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امریکا 1901 سے چین،فلپائن،کوریا ،ویت نام،جنوبی امریکادنیا کے دیگر39 ممالک سے ذلیل ورسواہوکرنکلاہے لیکن وہ طاقت کے پجاری جن کادل ہی نہیں مانتاکہ اس کائنا ت پر ایک اورحکمران طاقت ہے جس کایہ وعدہ ہے کہ اگرتم مجھ پریقین کروتوتم قلیل بھی ہوگے توزیادہ طاقت پرغالب آؤگے۔یہ لوگ پھربھی توجیہات کرتے ہیں لیکن آخرمیں انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ قدرت نے ہرانسان کے سینے میں ایک چھوٹا ساایٹم بم دل کی شکل میں نصب کررکھاہے۔یہ چھوٹاسالوتھڑاپہاڑوں سے ٹکراجانے کی ہمت رکھتاہے اگراس میں صرف ایک رب کاخوف موجودہو،ساراباطل اس سے لرزاں اورخوفزدہ رہتاہے،لیکن اگراس میں دنیاکاخوف بٹھالیں توہردن رسوائی کی موت آپ کی منتظررہتی ہے۔ جو مسلمان قوم جہادسے منہ موڑتی ہے توہردن رسوائی کی موت اس کی منتظررہتی ہے۔ہم ایک جوہری قوت ہوتے ہوئے بھی لوگوں سے اپنے امن کی بھیک مانگ رہے ہیں اور دوسری طرف دنیاکی تمام جوہری طاقتیں افغان طالبان سے مذاکرات کیلئے راستہ ڈھونڈتی رہی جنہوں نے صرف جہادکاسہارالیکراپنے وجودکومنوایا۔
دہشت گردی،شرپسندی اورتخریب کاری پرقابو پانے کے دعوے بھی عجیب ہیں،ہرروزمیڈیاپران دہشتگردوں،شرپسندوں اورتخریب کاروں کوکچل دینے کے تبصرے اورتجزئیے سنتا ہوں توحیرت میں گم ہوجاتاہوں۔اس دنیاکے نقشے میں کوئی اقتدارکی کرسی پر بیٹھاہواشخص کسی ایک ملک کی بھی نشاندہی کرسکتاہے جوفخرکے ساتھ یہ دعویٰ کرسکتاہوکہ وہ دہشتگردی پر قابوپانے کی اہلیت رکھتاہے۔امریکاسے برطانیہ،پورایورپ،عراق سے لیکر سری لنکاتک،بھارت سے لیکرافغانستان تک،سب حکومتیں بے بس ہیں،مجبورہیں،لاچارہیں لیکن کوئی اس بے بسی اورکمزوری کوقبول نہیں کررہابلکہ ایسے ہی تجزیوں اورتبصروں پرعملدرآمد کی بناپراس دلدل میں پھنستے جارہے ہیں لیکن ضربِ عضب اورردالفسادآپریشنزنے اپنی جانوں کی قربانیوں سے سرکرکے دکھادیا۔کوئی یہ ماننے کیلئے تیارنہیں کہ مقلب القلوب صرف ایک ذات پروردگارہے جودلوں کوبدلتا ہے،ان کو محبت سے بھر دیتاہے لیکن امریکااوربھارت نے تونفرت سیکھی ہے لیکن دنیاکی تاریخ شاہدہے کہ جس قوم میں یہ بلا نازل ہوئی وہ اپنی پوری صلاحیت کے باوجوداس سے نہیں لڑسکی۔
امریکااورمغربی ممالک(جن کے گھٹنوں کوچھوکرہمارے حکمران دن رات بھیک مانگ رہے ہیں،جوجدیدٹیکنالوجی رکھنے کا دعوی کرتے ہیں جہاں ہزاروں افراداپنی اس ٹیکنالوجی کی بدولت دہشتگردوں کی بوسونگھتے رہتے ہیں جہاں کوئی شہری اپنے پڑوسی میں کسی لمبی داڑھی والے کودیکھ لیں توفوراپولیس کوآگاہ کرتے ہیں،باہرسے آنے والوں کوگھنٹوں ائیر پورٹ پر سیکورٹی کے نام پر ذلیل کیاجاتاہے،کیاوہاں یہ سب ختم ہوگیا؟یاان کے شہران خطروں سے محفوظ ہوگئے ہیں؟یاان کاخوف کم ہوگیا؟ہرگزنہیں،ہم توایک آتش فشاں کے دہانے پربیٹھے ہوئے ہیں۔ کیادنیاکے کسی خطے میں ایساہواہے؟ویت نام،لاؤس،فلسطین ،سری لنکا،چلی،نکاراگوا،کمبوڈیا،کہاں کسی نے میڈیاپرایسی دوکانداری چمکائی ہے؟لیکن شایدیہ خودکوبہت طاقتوراور دانشور سمجھتے ہیں۔درپردہ ہمارے کچھ سیاسی لیڈراوردشمن تویہی چاہتے ہیں کہ بلوچستان اورفاٹامیں جاری آپریشن ناکام ہوں،عوام کاخون اوربہے اور گھرانے ماتم کدہ بن جائیں اورلوگ اس آگ میں جھلس جائیں اورپھرمجبورہوکرسرجھکاکران کی ہر بات، ہر مطالبہ مان لیں،جوہری اثاثوں اورکشمیرسے دستبرداری اوربھارت کی غلامی اختیارکرلیں لیکن وقت نے یہ ثابت کیاہے کہ ایسانہ کبھی پہلے ہواتھااورنہ ہی آئندہ ہوگا۔
ہمارے خطے میں حالات تیزی سے بدل رہے جوآئندہ دنیامیں ایک بہترین معاشی انقلاب کی نویدثابت ہوں گے جس کوامریکا اپنے حق میں تباہی سمجھ کرانڈیاکواستعمال کررہاہے۔ یہ بات طے ہے کہ مستقبل میں جس ملک کے پاس زیادہ تجارتی ومعاشی منڈیاں میسرہوں گی وہی سپرطاقت کاحق دارٹھہرے گا۔چین کے سی پیک اورون روڈون بیلٹ پراجیکٹس نے امریکاسمیت بھارت و اسرائیل میں خطرات کی گھنٹیاں بجادی ہیں اورسب سے زیادہ انڈیاخودکوغیرمحفوظ سمجھ کردوطرفہ فوائدسمیٹنے کیلئے کوشاں ہے۔اس نے اپنے آقاامریکاکو خوش کرنے کیلئے لداخ سے گلگت بلتستان پرلشکرکشی کرکے سی پیک روٹ پرقبضہ کرنے کا خواب دیکھاتھاجس کااس کوخاطرخواہ جواب ایساملاکہ خودبھارتی وزیردفاع کواپنی پارلیمنٹ میں لداخ کے36ہزارمربع کلومیٹر پرچین کے قبضہ پراپنی سبکی کوتسلیم کرناپڑا۔جس کے بعدبیک ڈورچینل پریواے ای نے سرحدوں پرسیزفائرکرواکے پاک وہند کے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی لیکن اب بھی ہمارے پالیسی سازاوردفاعی اداروں کوایسی مربوط پالیسی بنانے کی ضرورت ہے کہ آئندہ اگربھارت نے اس مشکل سے نکلنے کیلئے پاکستان کے سا تھ محاذ کھولنے کی کوئی کوشش کی توہماری اسٹریٹجی کیاہوگی؟دفاعی تجزیہ نگاروں کے نزدیک اس دفعہ زمینی حقائق توپاکستانی افواج کے حق میں ہیں۔
اہل نظرپچھلے کئی ماہ سے خبردارکرتے چلے آرہے ہیں۔ربِ کریم کے سامنے اپنی عاجزی،بے بسی کی دعائیں اورجہادسے منہ موڑنے
پراستغفارکی ضرورت ہے۔جن کے دلوں میں امریکاکاخوف اورہاتھوں میں کشکول ہے ان کے تکبرٹوٹنے اورٹائی ٹینک کے ڈوبنے کاوقت آن پہنچاہے اوراس حال میں چوہے سب سے پہلے جہازچھوڑتے ہیں لیکن اب تو شاید ان چوہوں کامقدربھی ہمیشہ کیلئے غرق ہونا ٹھہرگیاہے۔کیاخوابوں کی تعبیرکاوقت آن پہنچاہے؟
جب تک نہ جلے دیپ شہیدوں کے لہوسے
سنتے ہیں کہ جنت میں چراغاں نہیں ہوتا


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں