سندھ میں نیابلدیاتی نظام مسترد، ایم کیوایم پیپلزپارٹی حکومت کیخلاف میدان میں آگئی
شیئر کریں
آج ہم سب یہاں ریاست کے تمام اداروں سے یہ سوال کرنے آئے ہیں کہ کیا سندھ کے شہری علاقوں کو تباہ کرنے کی کوئی قومی اتفاق رائے پائی جاتی ہے کیا مہاجروں کو دیوار سے لگانے کا کوئی ایسا ارادہ ہے کہ جس پے عملدرآمد کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے ایم کیو ایم پاکستان کے مرکز بہادر آبادسے متصل پارک میں میڈیا نمائندگان سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہاکہ کیا 2008 میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو ملک کی یہی صورتحال تھی پیپلز پارٹی نے موجودہ بلدیاتی نظام بنا کر شہری سندھ کو مزید لاچار کردیا ہے جس تنظیم نے پاکستان کو دولخت کیا لگتاہے اس تنظیم کے ہاتھوں نظریہ پاکستان کو ختم کرنے کا کہہ دیا گیا ہے پاکستان پیپلز پارٹی کی کبھی بھی سندھ کے شہری علاقوں پر حکمرانی نہیں رہی سندھو دیش کے خواب کو تکمیل تک پہنچانے کی ذمہ داری پیپلز پارٹی نے لے رکھی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے دور میں کے آئی ایچ ڈی ، کے ایم ڈی سی اور دیگر ادارے جوکے ایم سی کے بجٹ سے بنائے گئے جو کچھ ادارے بلدیاتی حکومت کے پاس رہ گئے تھے وہ بھی چھین لئے گئے ہیںکراچی کے شہری کیسے اجازت دے سکتے ہیں کہ انکے خون پسینے کی کمائی سے بنے ادارے ایک نسل پرست حکومت کو دے دیں جو شہر اپنے خون پسینے کی کمائی سے پورے ملک کو پال رہا ہے اسکے ساتھ ایسے ہی زیادتی ہوتی رہے گی؟ کراچی کی عوام کے خون پسینے کی کمائی سے بنے ادارے کرپشن کے اژدھے کے سپرد کر دیئے گئے ہیں۔ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے مزید کہا کہ چیف جسٹس ان معاملات پر سو موٹو ایکشن کیوں نہیں لیتے آئین کا آرٹیکل 140 اے پر عملدرآمد کیوں نہیںکیا جارہاکیا عدالتوں کو صرف عمارتوں کو گرانے میں ہی دلچسپی ہے ہم نے ہر دروازہ کھٹکھٹا کر دیکھ لیاہمارے گھروں کو توڑ رہے ہیںآپ ہمیں بیروزگار کر رہے ہیںہمیں داخلوں سے محروم کر رہے ہیں۔سندھ ایک کثیر السانی صوبہ ہے یہاں پر یک لسانی حکومت کیوں نافذ ہے جعلی ڈومیسائل کے ذریعے سندھ کی سوا لاکھ نوکریاں صرف ایک لسانی اکائی کو دے دی گئیںکراچی حیدرآباد سکھر میرپور خاص کو عملا معطل کر دیا گیا ہے کراچی کی سڑکیں ہمارے خون سے رنگین ہوئی ہیںہم آئین و قانون کے تحت گزشتہ کئی عرصہ سے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن اب ہم سوچ رہے ہیں کہ اپنے گھروں سے نکل کر سڑکوںپر زندگی گزاریں اب کراچی کی سڑکیں فیصلہ کریں گی دیواریںبولیں گی اور جب روڈ پر فیصلہ ہوتا ہے تو پورے پاکستان پر اس کا اثر ہوتاہے اب ہماری جنگ سڑکوں پر ہوگی اور یہ جنگ پاکستان کی بقا کی جنگ ہے۔بلدیاتی اداروں کے ملازمین کا دباؤ بھی ایم کیو ایم پر بڑھ رہا ہے ملازمین اس بلدیاتی نظام کے خلاف از خود احتجاج کرنا چاہتے ہیںاور اگر یہ سلسلہ شروع ہوا تو آپ ایم کیو ایم کو اپنے ساتھ کھڑا پائینگے اب کراچی کے احتجاج کے آگے کوئی حکمران ٹہر نہیں سکے گا پیپلز پارٹی کی راہ میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ ہم ہیں۔11 دسمبر کو ایک آل پارٹیز کانفرنس بلوائیں گے۔پریس کانفرنس سے ڈپٹی کنوینر و سابق میئر کراچی وسیم اختر نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس صاحب 2017 سے ہماری پٹیشن آپکا انتظار کر رہی ہے اٹھارہویں ترمیم کے نام پر یہ سب زیادتیاںکراچی کی عوام کے ساتھ ہورہی ہیں جب تک تھرڈ ٹیئر آف گورنمنٹ مضبوط نہیں ہوگی اس وقت تک جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی چیف جسٹس کنویں کا گندہ پانی نکالنے کے بجائے اس عمل کو روکیں جو اس پانی کو گندہ کر رہا ہے۔