چین میں ایغور مسلمانوں کا استحصال،کتنی حقیقت،کتنا فسانہ۔۔!
سیاسی زائچہ(راؤ محمد شاہد اقبال)
شیئر کریں
جیسے جیسے چین کا بین الاقوامی سطح پر معاشی و سیاسی اثرونفوذ بڑھتا جارہا ہے۔ویسے ویسے چین اور امریکا کے مابین برسوں سے جاری خاموش حریفانہ کشمکش کی پرتیں ایک ایک کر کے کھلتی جارہی ہیں۔ کل تک دونوں حریف ممالک کی سیاسی مسابقت ہزارہا سیاسی و سفارتی پردوں میں ملفوف ہوتی تھیں لیکن آج دونوں ممالک نے سیاسی و معاشی محاذ پر ایک دوسرے سے کھل کر نبرد آزما ہونے کا فیصلہ کرلیاہے۔ ماضی میں چین اور امریکا کی خاموش سفارتی جنگ کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ دونوں کے اتحادی اور دوست ممالک کے لیے بیک وقت امریکا و چین کی دوستی کا دم بھرنا سہل کام تھا مگر چین اور امریکا کے درمیان کھلی سیاسی و معاشی لڑائی کے آغاز نے دونوں ممالک کے اتحادی اور دوست ممالک کو بھی ایک فیصلہ کُن دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے کہ اَب انہیں بھی چین یا امریکا میں سے کسی ایک ملک کا بطور دوست یا پھر دشمن ملک کے انتخاب کرنا ہوگا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ چین اور امریکا کی سیاسی و معاشی لڑائی نے آہستہ آہستہ دنیا کے دیگر ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا ہے اور جو ممالک اِس دو ملکی تنازع کا سب سے زیادہ شکار ہورہے ہیں،اُن میں پاکستان کا نام سرِ فہرست ہے۔ کیونکہ پاکستان واحد ایسا ملک ہے جو بیک وقت چین اور امریکا دونوں کے لیے ہی انتہائی ضروری ہے۔یعنی امریکا کو خطے میں اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لیے افغانستان میں پاکستانی تعاون کی شدید ضرورت ہے جبکہ چین کو امریکا، اسرائیل اور بھارت کے دفاعی اتحاد کا مقابلہ کرنے کے لیے معاشی میدان میں سی پیک کی صورت میں پاکستان کے بحری اور بری راستوں کی چاہت ہے۔ اِس لیے امریکا ہو یا چین دونوں کی بھرپور کوشش ہے کہ کسی طرح پاکستان کو مکمل طور پر اپنے سیاسی کیمپ میں شامل کرلیا جائے۔ اپنی اِس خواہش کی تکمیل کے لیے امریکا کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ پاکستانی عوام کو چین سے متنفر کرنے کے لیے کچھ عرصہ سے مغربی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر ایسی خبریں خاص طور پر پھیلائی جارہی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ چین اپنے مسلم اکثریت والے صوبے سنکیانگ میں بسنے والے ایک کروڑ مسلمانوں کو زبردستی اپنے مذہبی خیالات بدلنے پر مجبور کر رہا ہے اور اپنے اِس مقصد کے حصول کے لیے چینی حکومت نے سنکیانگ میں کچھ ایسی سخت جیلیں بھی بنائی ہیں۔ جہاں نہ صرف چینی ایغور مسلمانوں کو زیر حراست رکھا جاتا ہے بلکہ اُنہیں بدترین تشدد کا نشانا بھی بنایا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ سنکیانگ جس کو انگریزی زبان میں Xingjiangلکھا جاتا ہے اور عربی میں شنجاک کہا جاتا ہے، چین کے شمال مغربی علاقے میں ایک دریا ہے جسے چین کی سرکاری دستاویزات میں خودمختار کہا جاتا ہے۔ چین کے کل تینتیس صوبوں میں سنکیانگ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے، اس کا علاقہ ڈیڑھ لاکھ مربع کلو میٹر سے زیادہ ہے۔سنکیانگ کی آبادی صرف دو کروڑ ہے، کبھی یہاں صرف ایغور مسلمان ہی بستے تھے مگر بتدریج پچھلے ستر سال میں چین کے دیگر علاقوں سے چینیوں کو لا کر یہاں آباد کیا گیا ہے، جس کے باعث اب سنکیانگ کی دو کرڑو آبادی میں مسلمان آدھے سے بھی کم رہ گئے ہیں یعنی بہ مشکل ایک کروڑ۔اِس لیے یہ کہنا کہ سنکیانگ ایک مسلم اکثریتی صوبہ ہے،بالکل لغواور حقائق کے منافی بات ہے۔جس کا ڈھنڈورا بلاوجہ ہی سوشل میڈیا میں پیٹا جارہا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ کا یہ دعویٰ کہ سنکیانگ کے حراستی مراکز میں دس لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو قید رکھا گیا ہے، بڑا مضحکہ خیز دعویٰ ہے، کیونکہ کوئی ملک، چاہے وہ کتنے بھی وسائل رکھتا ہو کسی علاقے کی اتنی بڑی تعداد کو ایک چاردیواری میں قید نہیں رکھ سکتا۔ یہ تو ممکن ہے کہ دس، بیس ہزار یا حتیٰ کہ لاکھ ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو کسی ایک یا دو،چار مختلف جگہوں پر زیر حراست رکھ لیا جائے،مگر دس لاکھ کی تعداد میں لوگوں کو ایک جگہ قید کر کے رکھنا کسی دیوانے کی بڑ کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس کے علاوہ مغربی ذرائع ابلاغ چینی حکومت پر یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ مسلم آبادی کے لیے بنائے گئے ان مراکز میں قید ہر فرد کی زندگی کے ہر پہلو کی نگرانی کی جاتی ہے اور ان حراستی مراکز میں زیر تربیت افراد کو بستر کے لیے ایک مقررہ جگہ فراہم کی جاتی ہے اور قطاریں بنانے اور مقررہ نشستوں پر بیٹھنے کا کہا جاتا ہے۔حالانکہ لوگوں کی نگرانی کے لیے بازاروں میں کیمرے لگانا، سونے کے لیے مخصوص جگہ دینا، کسی چیز کے حصول کے لیے قطاریں بنانا اورکسی کی بات سننے کے لیے مقرر ہ نشستوں پر بٹھانا ایک ایسا ظلمِ عظیم ہے جو اہلِ مغرب اپنے اپنے ملکوں میں اپنے عوام کے ساتھ صبح و شام کرتے ہیں اور اپنے شہریوں پر اِس طرح پابندیاں لگاتے ہوئے دلیل یہ دیتے ہیں کہ اِس طرح سے اُن کے عوام میں نظم وضبط پیدا ہوتا ہے اور اُنہیں اپنے شہریوں کا جان و مال محفوظ بنانے میں مدد ملتی ہے۔ لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ جب یہی سب کچھ چین میں کیا جاتاہے تو اِسے مغربی میڈیا اور سوشل میڈیا پر اِس طرح سے پیش کیا جاتاہے کہ جیسے چین اپنے ملک میں بسنے والے ایغور مسلمانوں کے ساتھ ظلم و ستم کا بازار گرم کررہاہو۔ اَب تک چین میں ایغور مسلمانوں کے حراستی مراکز کی جتنی بھی تصویریں منظر عام پر آئی ہیں ہیں۔اُن میں مسلمانوں کو یا تو ایک قطار میں کھڑا ہوادکھایا گیا ہے۔ یا کسی کمرے میں کرسیوں پر سرجھکائے کسی مقرر کی تقریر کو سنتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یا پھر ایغور مسلمانوں کے بچوں کو چینی زبان کی کتابیں پڑھتے ہوئے دکھایا گیا ہے مگر یہ تمام تصویریں اِس عنوان کے تحت پیش کی جارہی ہیں کہ دیکھیں جی!چین میں مسلمانوں کے ساتھ کتنا بڑا ظلم اور زیادتی ہورہی ہے۔
سوشل میڈیا پر ان تصاویر کو پاکستان میں منظم انداز میں پھیلایا جارہا ہے۔ تاکہ سادہ لوح پاکستانی عوام کے دلوں میں چین اور چینی عوام کے ساتھ سلسلہ دوستی میں دراڑ پیدا کی جاسکے۔ حالانکہ حقیقتِ احوال تو یہ ہے کہ چینی حکومت نے سنکیانگ صوبے کے پسماندہ لوگوں کو خواندہ،ہنرمند و پڑھا لکھا بنانے اور مقامی لوگوں کی ثقافت،مذہب اور زبان کے تحفظ و ترویج کے لیے سرکاری سرپرستی میں جدید سہولتوں سے لیس تربیتی مراکز قائم کیے ہیں۔ جس میں داخل ہونے کے لیے کسی کے ساتھ کوئی زور زبردستی نہیں کی جاتی۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ اِن مراکز میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کے داخلہ کو یقینی بنانے کے لیے حکومتِ چین کی طرف سے پرکشش مراعات اور ترغیبات ضرور پیش کی جاتی ہیں، جسے کسی بھی لحاظ سے غلط نہیں قرار دیا جاسکتا۔
٭٭٭٭٭٭٭