خطے میں نئے اسلامی بلاک کے قیام کی کوشش؟.
.صحرا بہ صحرا (محمد انیس الرحمن)
شیئر کریں
ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے پاکستان اور ترکی کا سربراہی اجلاس جلد بلانے کا اعلان کیا ہے ان کے بیان کے مطابق یہ اجلاس اسلامی تہذیب کی تعمیر نو میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا،اس کے علاوہ مسلم امہ کی کے زوال کے اسباب پر بھی غور کیا جائے گا،اس حوالے سے اگر ہم مسلم دنیا کے مسائل پوری طرح ختم نہ کرسکے تو کم ضرور کرسکیں گے۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد کا کہنا تھا کہ نیویارک میں ان کی ترکی کے صدر طیب اردگان اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات میں اسلامی چینل کے اجراء سے متعلق بات چیت ہوئی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے متعدد بار بہت سے ملکوں کے ساتھ اس آئیڈیا کو شیئر کیا ہے، انہوں نے صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ وہ پاکستان اور ترکی کے ساتھ مل کر ایک اسلامی چینل لا رہے ہیں جس کی نشریات بیک وقت ملائیشیا، پاکستان اور ترکی سے ہوں گی۔
ہمارے ذرائع کے مطابق یہ تین رکنی نہیں بلکہ پانچ رکنی اجلاس ہے جسے کوالالمپور کانفرنس کا نام دیا گیا ہے اور یہ 18اور19دسمبر کو ہوگا۔اس میں تین ممالک کے علاوہ انڈونیشیا اور قطر بھی شامل ہیں اور ان دونوں ملکوں کے سربراہوں کی اس کانفرنس میں آمد کو بھی یقینی بنایا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسے پاکستانی صحافتی ذرائع نے صحیح انداز میں رپورٹ نہیں کیا۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو اس وقت پوری امت مسلمہ میں یہ پانچ اہم ممالک کسی نہ کسی طرح عالمی سطح پر اہم اقدامات کررہے ہیں ان میں ملائیشیا اور ترکی سرفہرست ہیں جبکہ پاکستان کو جان بوجھ کر داخلی معاملات میں الجھانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ وہ چین کے ساتھ سی پیک کے معاملے کے بعد کوئی دوسرا بڑا قدم نہ اٹھا سکے۔ اس سلسلے میں ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ پاکستان کے خلاف یہ گھناؤنی سازش گزشتہ پندرہ برسوں سے کی گئی تھی جس میں بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد امریکی اور برطانوی ساختہ ”میثاق جمہوریت“ تشکیل دیا گیا تھا تاکہ زرداری اور پھر نواز شریف کے ذریعے ملک کی معاشی اور عالمی سفارتی جڑیں کاٹی جاسکیں۔ نواز شریف اور زرداری کے اپنے انجام کو پہنچنے کے بعد اس سازش کا عَلم جمعیت علماء اسلام (ف)کے سربراہ فضل الرحمن نے اٹھا لیا جبکہ ملک میں موجود مغربی راتب خور لبرل جماعتیں اور مافیا ان کے احتجاج کے پشتی بان بن گئے لیکن اب یہ لا حاصل احتجاج بھی ساحل سے ٹکرانے والی لہر کی مانند منتشر ہوچکا ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے مسلم امہ کے جس نئے بلاک کا خواب دیکھا ہے اسے کامیاب بنانے کے لیے کیا اقدامات ضروری ہیں اور اسلام دشمن قوتیں کس طرح اسے ناکام بنانے کی کوشش کر سکتی ہیں۔تازہ مثال امریکی سفارتکار ایلس ویلز کے سی پیک کے حوالے سے اندیشہ ہائے دور دراز ہیں، ان کا کہنا ہے کہ چین سے حاصل کردہ قرضے مستقبل میں پاکستان کے لیے مشکل پیدا کرسکتے ہیں امریکا کے اس موقف کو پاکستان نے نہ صرف مسترد کردیا ہے بلکہ اسلام آباد میں موجود چینی سفیر نے بھی امریکا کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا پاکستان اور چین کے درمیان اس منصوبے کے حوالے سے محتاط رہے۔ اس ایک بات سے اندازالگایا جاسکتا ہے کہ جس وقت پاکستان، ملائیشیا، ترکی، انڈونیشیا اور قطر کے درمیان مضبوط عملی تعلق استوار ہوگا تو امریکا اور اس کے گماشتے کس قسم کی ہرزہ سرائی پر اُتریں گے۔ سب سے پہلے جہاں تک اسلامی چینل شروع کرنے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں ہمیں اندازا ہے کہ اس کے خلاف سب سے زیادہ پروپیگنڈا مخصوص قسم کے مسلم عرب ملکوں میں ہی کیا جائے گا۔ عرب ملکوں کے نزدیک ترکی کی کیا حیثیت ہے اس کا اندازا وہی لگا سکتے ہیں جو عرب زبان جاننے کی وجہ سے مشرق وسطی کی ”غیر آزاد صحافت“ سے مکمل آگاہی رکھتے ہیں۔میڈیا جس کا تعلق ایمانداری سے من وعن خبر کو رپورٹ کرنا ہوتا ہے مشرق وسطیٰ میں ایسا نہیں ہے بلکہ وہاں مختلف قسم کے اخباری چینل اور اخبارات اپنی اپنی حکومتوں کی ڈگڈگی بجاتے ہیں۔ اس لیے سعودی عرب اور اس کے ہمرکاب دیگر اہم عرب ملکوں سے اس بات کی توقع رکھنا کہ وہاں کی انتظامیہ اسلامی چینل کے اس نظریے کو آسانی سے ہضم کر لے گی بہت مشکل ہے۔ قطر سے نشر ہونے والا عربی چینل الجزیرہ ہی ان عرب ملکوں کو ہضم نہیں ہوتا بلکہ سعودی عرب سمیت بہت سے ملکوں میں اس کی نشریات پر پابندی ہے۔ عراق، شام، مقبوضہ فلسطین اور یمن کے حوالے سے ان عرب ملکوں نے جو موقف اختیار کیا ہوا ہے وہ انہی ملکوں کے عوام کی اکثریت سے مطابقت نہیں رکھتا، سعودی عرب میں جس قسم کی معاشرتی تبدیلیاں لائی جارہی ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زیادہ دیر تک جزیرہ العرب کے مسلمان اسے برداشت نہیں کرسکیں گے۔ ان عرب حکومتوں کی اولین ترجیح ہر قیمت پر اپنے اقتدار کا تحفظ ہے چاہے اس کی کیسی ہی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب سمیت بہت سے اہم ملکوں نے اسرائیل کے ساتھ روابط پیدا کرلیے ہیں تاکہ امریکا، اسرائیل اور یورپ کو اس بات کا یقین دلایا جاسکے کہ یہ حکومتیں قائم ہیں تو اسرائیل ”اسلامی انتہا پسندی“سے محفوظ ہے لیکن یہ ان حکمرانوں کی بے وقوفی ہے انہیں نہیں معلوم وہ جس مغرب اور عالمی دجالی صہیونیت کو خوش کرنے کے لیے اپنے معاشروں میں نائٹ کلب،ناچ گانوں کی مخلوط محفلیں اور اپنے مسلمان معاشروں کو مغرب کے بے دین معاشرے سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ اس میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے اور نہ دجالی صہیونی مغرب ان سے راضی ہوگا ان کی نظریں ان مسلمان ملکوں کے وسائل پر ہیں جس پر قبضہ جماکر ہی عالمی صہیونی دجالی ریاست اسرائیل کی بالادستی قائم کی جاسکے گی اسی مقصد کی خاطر تمام مشرق وسطیٰ میں جنگوں کی آگ بھڑکائی گئی ہے۔ ایسی صورتحال میں ان ملکوں کی نظر میں موجودہ ترکی اور قطر کا وجود کھٹکتا ہے ا س لئے یہ کہنا کہ و ہ آنے والے وقت میں ”اسلامی چینل“کا حصہ بنیں گے یا اس کا خیر مقدم کریں گے ناممکن ہے۔ بلکہ اس بات کا پوری طرح احتمال ہے کہ اگر اس چینل نے اپنی نشریات کا آغاز کردیا تو سب سے پہلے یہی عرب ملک اس کی نشریات پر اپنے ہاں پابندی لگا دیں گے۔
کوالالمپور کانفرنس کے شرکا ء کو چاہیے کہ وہ اس چینل کو عربی اور انگریزی میں بیک وقت شروع کریں تاکہ عرب عوام کے ساتھ ساتھ غیر عرب مسلم عوام بھی اسے آسانی کے ساتھ سمجھ سکیں۔اس کے علاوہ ان پانچوں ملکوں سے چار غیر عرب ملک ہیں وہ اسی چینل کے ذریعے اپنے اپنے ملکوں کی علاقائی زبان میں بھی پروگرام نشر کریں۔
اس کے علاوہ ماضی میں جس طرح جو بحری راستوں پر کنڑول رکھتا تھا عالمی تجارت اس کے ہاتھ میں ہوتی تھی ایک مرتبہ پھر سے تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے عالمی آزاد تجارت کے لئے زمین سے زیادہ ایک مرتبہ پھر بحری راستوں پر انحصار بڑھ رہا ہے۔ کوالالمپور کانفرنس کے پانچ رکنی ممالک کا آپس میں زمینی اتصال نہیں ہے جبکہ ان کے پاس تزویراتی اہمیت کی بندرگاہیں موجود ہیں ان میں ملائیشیا، پاکستان اور ترکی بحری قوت کے حوالے سے بھی مضبوط ملک تصور کیے جاتے ہیں۔ ترکی اپنا طیارہ بردار بحری جہاز بھی سمندر میں اُتار رہا ہے۔اس لیے سب سے پہلے ان پانچ رکنی ممالک کے درمیان بحری قوت کے شعبے میں قریبی روابط انتہائی ضروری ہیں،ان ملکوں کے درمیان بحری قوت کے حوالے سے مضبوط اتحاد ان ملکوں کی تجارت کے ضمن میں میں سود مند ثابت ہوگا کیونکہ امریکا چین کے جنوبی سمندروں میں اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے، بحیرہ عرب میں اس کا سب سے بڑا اتحادی بھارت بیٹھا ہے جسے امریکا کی طرح پاکستان کی گوادر کی بندرگاہ ہضم نہیں ہورہی۔ ترکی اور چین بحیرہ احمر کے سمندر سے متصل افریقی ملکوں میں بھاری سرمایہ کاری کرکے وہاں کی بندرگاہوں تک رسائی حاصل کرچکے ہیں۔بحیرہ احمر سے بحیرہ عرب میں داخل ہونے کے لیے چین اور ترکی کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہے چین افریقا اور یورپ تک اپنے سامان کو پہنچانے کے لیے گوادر تک کا راستا سی پیک کے ذریعے عبور کرے گا نہ صرف چین بلکہ مستقبل قریب میں ملائشیا اور انڈونیشیا جیسے ملک بھی اپنی تجارت کو چین کے زمینی راستے کے ذریعے سنکیانگ تک لاکر اسے بھی سی پیک کے ذریعے گوادر تک پہنچائیں گے جہاں سے اگلی منزل یعنی افریقا، یورپ اور بحیرہ روم سے بحیرہ اسود کے گرد موجود ملکوں تک پھیلانا آسان ہوگا۔ لیکن یہ سارا منصوبہ اسی وقت کامیاب ہوسکے گا جب ان پانچ ملکوں کی بحریہ کے درمیان مضبوط بحری روابط قائم ہونگیں۔
ایشیا میں بڑا بلاک چین اور روس کا بن چکا ہے، اس کے بعد ایشیا میں دوسرا بڑا بلاک ان پانچ ملکوں کے درمیان تشکیل دیکر چین اور روس کی چھتری تلے عالمی تجارت میں بڑا حصہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں ان پانچوں ملکوں کے درمیان ویزے کی پابندی ختم ہونی چاہئے تاکہ ان ملکوں کے تاجر اور سرمایہ کار آسانی کے ساتھ ایک دوسرے کے ملکوں میں آجا سکیں۔اس تمام منصوبے کا جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچنا اس لیے ضروری ہے کہ مشرق وسطیٰ بہت جلد ایک بڑی جنگ کی لپیٹ میں آنے جارہا ہے۔اس سلسلے میں ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ شام میں جو حالات عالمی صہیونی دجالیت نے پیدا کیے ہیں اس کا ایک بڑا مقصد شمالی شام، شمالی عراق، شمالی ایران اور جنوبی ترکی میں ایک الگ لادین کرد ریاست کا قیام ہے۔ امریکا اور اسرائیل اس ریاست کے ذریعے بحیرہ اسود کے گرد ملکوں پر اپنا ہولڈ قائم کرنے کی کوشش کریں گے جو کسی طور بھی روس کو منظور نہیں کیونکہ اسرائیل کو تزویراتی جغرافیے کے ضمن میں خطرہ لاحق ہے کہ جب تک کردستان کی ریاست کے ذریعے وہ روس کو پیچھے ہٹنے پر مجبور نہیں کردیتا وہ مشرق وسطیٰ میں یعنی نیل سے لیکر فرات تک ”عظیم تر اسرائیل“ کی صہیونی دجالی سرحدیں وسیع نہیں کرسکے گا، چین اور روس کو یہ اس لیے منظور نہیں ہوگا کیونکہ ایک طرف مشرق وسطیٰ کے تیل کے راستے پر اسرائیل اور امریکا بیٹھ جائیں گے تو دوسری جانب ان کی عالمی تجارت آدھی دنیا سے کٹ جائے گی اگر لادین کردستان کی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل آگے بڑھ کر انتہا پسندی کے خطرے کا نعرہ لگاکرعرب ملکوں پر قبضہ جماتا ہے تو اسے روس کے دورمار میزائلوں کا سامنا کرنا پڑے گا جو یقینا اسرائیل کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی مقصد کے تحت امریکا نے چند برس قبل پہلے پولینڈ پھر جارجیا میں میزائل شیلڈ نامی اینٹی میزائل سسٹم نصب کرنے کی کوشش کی تھی جسے روس نے براہ راست مداخلت کرکے ناکام بنا دیا تھا۔ سوچنے کی بات ہے کہ آخران ملکوں میں یہ امریکی اینٹی میزائل سسٹم کیوں نصب کرنے کی کوشش کی جارہی تھی، اس کا ایک ہی جواب ہے کہ میزائل روس سے داغے جانے تھے اور نشانا اسرائیل تھا اگر نشانا صرف امریکا ہوتا تو یورپ میں ایسا سسٹم نصب کیا جاتالیکن وہاں یہ بہت پہلے سے موجود ہے اور روس کی جانب سے اس سلسلے میں کبھی رکاوٹ کھڑی نہیں کی گئی۔
خطے میں ایک نئے اسلامی بلاک کی تشکیل اور اس سلسلے میں ڈاکٹر مہاتیر محمد کی جانب سے قدم اٹھانا انتہائی اہم ہے یہ وہ کام ہیں جو بہت پہلے ہونے چاہئے تھے لیکن ابھی کچھ نہیں بگڑا اس منصوبے کو تیزی کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچاکر اسے روبہ عمل کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ مضبوط معاشی صورتحال ہی کسی قوم یا ملک کو بحرانوں سے نمٹنے کی طاقت عطا کرتی ہے۔ آنے والا وقت سوچنے کا کم اور عمل پیرا ہونے کا زیادہ ہے۔ امریکا میں موجود دجالی صہیونی لابی اس بات سے بے خبر نہیں کہ اگر یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ گیا اور سی پیک نے اپنا کام شروع کردیا تو امریکا کے لیے چین کے جنوبی سمندر اور بحیرہ عرب میں اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا۔