میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس، جوڈیشل کونسل کیخلاف درخواست پر سماعت

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس، جوڈیشل کونسل کیخلاف درخواست پر سماعت

ویب ڈیسک
پیر, ۲ دسمبر ۲۰۱۹

شیئر کریں

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسی کی سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی کیخلاف درخواست پر سماعت۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ صدر مملکت نے کسی کو مواد ا کٹھاکرنے کی ذمہ داری دینی ہے تو تحریری ہو۔ زبانی ہدایات کی قانون میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وزارت قانون کسی جج کے اثاثے کا جائزہ لینے کی مجاز نہیں۔ عدالتی استفسار پر منیر ملک بولے جوڈیشل کونسل آئینی اختیار کے تحت معلومات لے سکتی ہے لیکن چونکہ ریفرنس کی بنیاد غیر قانونی ہے لہذا غیر قانونی بنیاد پر کھڑی عمارت قانونی نہیں ہوتی۔سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسی کی صدارتی ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کانسل کے خلاف درخواست پر سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی فل کورٹ بینچ نے کی۔ دوران سماعت جسٹس فائز عیسی کے وکیل منیر ملک کا موقف تھا کہ ٹیکس حکام غیر متعلقہ یا غیر مجاز آفیسر کے گوشوارواں کی تفصیل نہیں دے سکتے۔ وزیراعظم بھی ٹیکس حکام سے کسی شخص کی ٹیکس معلومات نہیں مانگ سکتے۔ جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ وزیراعظم اس لئے معلومات نہیں لے سکتے کیونکہ قانونی تحفظ حاصل ہے۔ منیر ملک بولے صرف فوجداری ٹرائل کی صورت میں معلومات لی جا سکتی ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اگر سپریم جیوڈیشیل کونسل یہ معلومات ٹیکس حکام سے طلب کرے تو کیا یہی رکاوٹ ہو گی؟ جس پر منیر ملک کا کہنا تھا کہ جوڈیشیل کانسل آئینی اختیار کے تحت معلومات لے سکتی ہے لیکن چونکہ ریفرنس کی بنیاد غیر قانونی ہے لہذا غیر قانونی بنیاد پر کھڑی عمارت قانونی نہیں ہوتی۔جسٹس عمرعطابندیال نے دریافت کیا کہ آیا پھر شواہد کو نظر انداز کر دینا چاہئے۔ منیرملک بولے شواہد کو بالکل نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے واضح کیا کہ بھارت میں غیر قانونی طریقے سے حاصل کردہ شواہد کو بھی قابل قبول قرار دیا گیا ہے۔ منیر ملک کا کہنا تھا کہ صدر مملکت کو دیکھنا چاہئے کہ جج سے متعلق شواہد حکام نے قانونی طریقے سے اکھٹے کئے ہیں۔بینچ کے ایک اور رکن جسٹس مقبول باقر کا کہنا تھا کیا جو مواد اکٹھا کیا گیا اس پر صدر مملکت کا ایکشن لینا نہیں بنتا تھا؟ جس پر منیر ملک کا جواب تھا؛ یس مائی لارڈ! منیر ملک کا موقف تھا کہ کسی جج کے خلاف مواد مجاز اتھارٹی اکٹھا کر سکتی ہے۔ صدر مملکت اور کانسل شواہد اکٹھے کرنے کے مجاز ہیں جبکہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ شواہد اکٹھے کرنے کی مجاز اتھارٹی نہیں ہے۔ غیر قانونی انداز سے اکٹھے کیے گئے شواہد پر صدر مملکت کوئی رائے نہیں بنا سکتے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ صدر مملکت نے کسی کو مواد اکٹھاکرنے کی ذمہ داری دینی ہے تو تحریری ہو۔ زبانی ہدایات کی قانون میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وزارت قانون کسی جج کے اثاثے کا جائزہ لینے کا مجاز نہیں۔ کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کردی گئی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں