قرآن کی بے حرمتی.....لاکھوں انڈونیشی سراپا احتجاج،گورنر جکارتہ کی گرفتاری کا مطالبہ
شیئر کریں
مسیحی گورنر کے خلاف جکارتہ کے علاوہ دیگر شہروں اور دوردراز گاﺅں سے بھی بڑی تعدادمیں مظاہرین دارالحکومت کے نیشنل مونومنٹ کے گرد جمعے کی نماز میں جمع ہوئے،”ہوک “ سے استعفے کے مطالبے کے لیے 8لاکھ کے قریب شرکا موجود تھے ،میڈیا
ابو محمد
انڈونیشی دارالحکومت جکارتہ میں لاکھوں مسلمانوں نے قرآنی آیات کی بے حرمتی کے خلاف احتجاج کیا اور گستاخِ قرآن گورنربسوکی تجاہجہ پرناماالمعروف (اہوک) کو پھانسی دینے کا مطالبہ کیا،بعض مظاہرین استعفیٰ ،گرفتاری و سزا کا بھی مطالبہ کررہے تھے۔ مظاہرین شہر کے مسیحی گورنر کے خلاف جکارتہ کے علاوہ دیگر شہروں اور دوردراز گاﺅں سے بھی بڑی تعدادمیں مظاہرین دارالحکومت کے نیشنل مونومنٹ کے گرد جمعے کی نماز میں جمع ہوئے جسکے بعد گورنر کیخلاف مظاہرہ کیا گیا۔عالمی میڈیا کے مطابق اس موقع پر4لاکھ سے زائد افراد قرآن اور اسلام کی توہین کے خلا ف یہاں جمع ہوئے جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق 8لاکھ سے زائد افراد ریلی میں موجود تھے۔شرکا نے اہوک کی جانب سے قرآن کی سورہ مائدہ آیت 51کا مذاق اڑانے پر اس کے خلاف گستاخی کے قانون کے تحت مقدمہ چلانے اور اسکو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔عوام کا اتنا بڑا جم غفیر اس سے قبل تب جمع ہوا تھا جب صدر سہارتو سے عوام نے استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔
پولیس کے اندازوں کے مطابق مظاہرین کی تعداد لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ تھی۔ملکی صدر جوکو ودودو نے گورنر کے خلاف احتجاج کو ’سیاسی اداکاروں‘ کی کارروائی قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق اس صورتحال کو ان کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہی اسباب کی وجہ سے مقامی پولیس نے غداری کے الزامات پر دس افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔پولیس نے بزور طاقت شرکا کو منتشر کرنے کی کوشش کی اورمظاہرین پر شیلنگ بھی کی اس دوران ایک بزرگ آنسو گیس کی شدت کے باعث چل بسے جبکہ درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے ۔
بسوکی المعروف” اہوک“ نے سورہ مائدہ کی 51ویں آیت کی توہین کرتے ہوئے اپنے مخالفین پر طنز کیا تھا جسکے بعد سے انڈونیشیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کا مطالبہ ہے کہ اسے قانونِ توہین کی رو سے گرفتار کرکے سزادی جائے ۔ریلی کا اہتمام دفاعِ اسلام فرنٹ (اسلامک ڈیفنڈر فرنٹ) کی جانب سے کیا گیا تھا ۔شرکا ”سپر پاور صرف اللہ“ اور ”اہوک کو پھانسی دو“ جیسے نعرے لگا رہے تھے ۔
مسلم اکثریتی ملک انڈونیشیا میں چینی اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے عیسائی گورنر اہوک منتخب گورنر نہیں ہیں بلکہ نومبر 2014میں انہیں اس وقت گورنر کا عہدہ دیا گیا جب گورنر جکارتہ جوکووی صدر بن گئے اور اپنے ڈپٹی کو گورنر کی نشست پرعنایت کردی۔
انڈونیشیا کی نیوز ایجنسی انتارا کی رپورٹوں کے مطابقمظاہرے کو روکنے کیلیے جمعے کو دارالحکومت جکارتہ میں پولیس کے 22ہزار اہلکار تعینات تھے جبکہ فوج نے بھی الرٹ تھی اور سرکاری دفاتر پر اضافی سیکورٹی کے طور پر فوج کو تعینات کردیا گیا تھا۔
گزشتہ ماہ منعقد ہونے والی اسی طرح کی ایک ریلی میں حالات بگڑ گئے تھے اور پولیس کے ساتھ تصادم کے نتیجے میں کم از کم ایک سو افراد زخمی ہو گئے تھے۔27ستمبر کو اہوک کی جانب سے توہین کے اس واقعے کے بعد 4 نومبر اور اس سے قبل 14اکتوبر کو بھی مظاہرے ہوئے تھے اور مسلسل مظاہروں میں شرکا کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ انڈونیشی مسلمان ایسے گورنر کو قبول نہیں کریں گے جو انکے مذہب اور قرآن کا مذاق اڑائے گا ، دلچسپ امر یہ ہے کہ اس ریلی میں چینی برادری کے افراد بھی شریک تھے جو چینی عیسائی برادری سے تعلق رکھنے والے گورنر کے خلاف ہیں ۔
جکارتہ کے گورنر بسوکی تجھاجہ پرناما کا ری الیکشن کے لیے آئندہ برس فروری میں دو مسلمان امیدواروں کے ساتھ مقابلہ ہے لہٰذا بعض تجزیہ کار اور خود صدرانڈونیشیا جوکو وی المعروف دودوکا کہنا ہے کہ حکومت کو کمزور کرنے کی کوششیں جاری ہیں تاکہ وہ 2019 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں دوسری مدت کے لیے صدر نہ بن سکیں۔ یہ امر اہم ہے کہ جکارتہ کے گورنر 50سالہ بسوکی تجھاجہ پرناما ملکی صدر کےقریبی ساتھی ہیں۔
آبادی کے لحاظ سے انڈونیشیا سب سے بڑا مسلمان ملک ہے لیکن وہاں چھ مختلف مذاہب کے ماننے والے بسے ہوئے ہیں۔
جکارتہ کے گورنر بسوکی تجھاجہ پرناما کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے سیاسی مخالف کی جانب سے سیاسی مہم کے دوران قرآنی آیات کے استعمال پر متنازع بیان دیا تھا۔ وہ اس سلسلے میں معافی مانگ چکے ہیں تاہم ان کا خیال ہے کہ ان سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوئی۔
قبل ازیں 22نومبر کو انڈونیشین پولیس کے سربراہ نے خبردار کیاتھا کہ جکارتہ کے مسیحی گورنر کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ملکی پارلیمان پر حملہ کر سکتے ہیں۔
گزشتہ ماہ کی 4 تاریخ کو جکارتہ میں ایک لاکھ سے زیادہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس اور پانی کی تیز دھار کا استعمال کیا تھا۔ جس میں سینکڑوں مظاہرین زخمی ہوگئے تھے۔
دارالحکومت جکارتہ کے گورنر باسوکی پورناما، جن کو آہوک کے نام سے زیادہ جانا جاتا ہے، اپنے سیاسی کارکنوں کے لیے ایک ترقی پسند، جمہوری اور متنوع انڈونیشیا کی علامت ہیں، تاہم ملک کے اسلام پسند ان کے خلاف ہیں۔
انڈونیشیا میں مقامی میڈیا کے مطابق پولیس سربراہ ٹیٹو کارناویان اور آرمی چیف گیٹوٹ نرمانتیو نے کہا ہے، ”بعض گروپوں کے پاس ملکی پارلیمان میں داخل ہونے اور اِس پر قبضہ کرنے کے خفیہ طریقے موجود ہیں۔ اگر حکومت کا تختہ الٹنے کی تیاری کی جا رہی ہے تو یہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔“ تاہم کارنویان نے اِن گروپوں کی شناخت کے حوالے سے کوئی وضاحت نہیں کی۔ انڈونیشی قانون کے مطابق توہین مذہب کا ارتکاب کرنےکا جرم ثابت ہونے پر کم از کم پانچ برس کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔
برلن میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ’واچ انڈونیشیا‘ سے وابستہ ایلکس فلور کا کہنا تھا، ”گورنر اور صدر جوکووی میں مکمل ہم آہنگی ہے۔ وہ صدر کی پالیسیوں پر عمل کر رہے ہیں“
چند ہفتوں قبل ان کا دارالحکومت کے اس اہم ترین عہدے کے لیے منتخب ہو جانا بہت آسان دکھائی دے رہا تھا، تاہم اب صورت حال تبدیل ہو چکی ہے۔
دریں اثنا موجودہ سیاسی افراتفری کے نتیجے میں جکارتہ حکومت نے ایسی گیارہ ویب سائٹس پر پابندی عائد کر دی ہے جو حکومتی موقف کے مطابق مذہبی بے چینی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی و سماجی انتشار پھیلانے کی مرتکب ہو رہی تھیں۔