سفر یاد۔۔۔ قسط22
شیئر کریں
شاہد اے خان
گلزارکا ایسے وقت پرملنا کسی مسیحا اورخضر سے ملنے سے زیادہ بہتر محسوس ہوا۔ ورنہ ہم تو اس خیال سے ہولے جا رہے تھے کہ جمعہ یعنی چھٹی کا دن کیسے گزرے گا۔کیمپ میں تو ایک گھنٹہ گزارنا بھی مشکل ہوتا، پھر کھانے کا مسئلہ الگ رہتا۔گلزار ہم کو لیکر اپنی دکان کی جانب چل دیاہم نے پوچھا کیا آج بھی دکان کھولو گے، آج تو چھٹی ہے،گلزار بولا بھائی ہمارے لیے کیسی چھٹی ؟کہاں کی چھٹی ؟جمعے کی نماز کے بعد دکان کھول لیتے ہیں۔ یہاں کام کرنے اور کمانے کے لیے آئے ہیں بھائی اس لیے جمعے کو بھی آدھے دن دکان کھولتے ہیں۔ ہم نے پوچھا اتنے عرصے سے یہاں ہو ،تمہارے تو کافی پاکستانی دوست احباب ہوں گے۔گلزا ر نے مسکراتے ہوئے کہا بھائی یہاں سب مطلب کے یار ہیں ، یہاں سلام دعا بہت لوگوں سے ہوتی ہے دوستی کسی سے نہیں ہوتی۔ ہم نے گلزار کی بات سے اتفاق کیاکیونکہ ہماری گلزار سے جمعہ جمعہ آٹھ دن کی دوستی میں ہماری یہ غرض شامل تھی کہ ہم تنہائی کے عذاب سے گزر رہے تھے اورہمیں کوئی ہمدم و غم خوار درکار تھا،کوئی ایسا جو اپنا سا لگے، کوئی ایسا جس سے اپنی زبان میں بات ہوسکے۔ویسے پردیس میں”کام چلاﺅ“ قسم کی دوستیاں بہت تیزی سے پروان چڑھتی ہیں۔ سب ہی اپنے گھروں سے دور ہوتے ہیں سب ہی اپنے خاندانوں کے بہتر مستقبل کے لیے اپنے حال کو مشکل میں ڈالے ہوئے ہوتے ہیں۔ایسے میں کام کاج سے واپس آکر سب کا ساتھ مل بیٹھنا ، گپ شپ لگانا ، ایک دوسرے سے اپنے مسائل بیان کرنا ، کسی کاگھر سے خط آیا ہو تو اس بارے میں بات کرنا ، گھر والوں سے فون پر بات ہوئی ہو تو ان کی فرمائشیں ، کسی جاننے والے یا رشتے دار کی دکھ بیماری کی خبر ، کوئی مر گیا تو اس کا پرسہ اور جنازے میں شریک نہ ہونے کا غم ، کسی بھانجے بھتیجے کی شادی میں شرکت نہ کرسکنے کی خلش ،پردیسی کہتے ہیں اکثر جب پاکستان سے کالیں آتی ہیں تو کال سننے سے پہلے ڈر سا جاتے ہیں، محتاط سا ہو جاتے ہیں، دل میں یہ سوچتے ہیں خدا خیر کرے، کوئی مسئلہ تو نہیں ہوگیا۔ کیوں کہ 75فیصد فون کالز ایسی ہی ہوتی ہیں جن میں یا تو پیسوں کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے اور یا پھر فلاں کے ساتھ یہ مسئلہ ہوگیا، ان کو فون کر لو۔ یا فلاں کے گھر فوتگی ہوگئی ہے ان کے گھر فون کر لو۔الغرض یہ سب باتیں ایک دوسرے سے شیئر کی جاتی ہیں۔کیمپوں یا ڈیروں میں جمعرات کی رات کو تاش کی بازی جمتی ہے ، کچھ لوڈو یا کیرم لیکر بیٹھ جاتے ہیں ، ایسی محفلوں میں صرف اپنے کیمپ کے ہی نہیں دوسرے کیمپوں سے بھی لوگ شریک ہوتے ہیں ،چائے چلتی ہے ،گپ شپ ہوتی ہے اور پھر تین بجے کے قریب لوگ اٹھنا شروع ہوجاتے ہیں ، جمعے کی نماز کی تیاری بھی کرنی ہوتی ہے اس لیے سونابھی ضروری ہوتا ہے۔بعض دفعہ یہ محفلیں لمبی چلتی ہیں لیکن فجر کی اذان کے ساتھ ہی محفل لپیٹ دی جاتی ہے۔ لوگ اپنے اپنے کمروں ،گھروں یا کیمپوں کی راہ لیتے ہیں۔
گلزار نے کہا بھائی کچھ دیر بیٹھیں میں تھوڑا سا کام نمٹا لوں اس کے بعد آپ کو لیکر نکلتا ہوں کچھ دیگر پاکستانیوں سے آپ کو ملواتا ہوں ، آپ کو اچھا لگے گا،اندھا کیا چاہے دو آنکھیں، ہم خوش ہو گئے۔ کچھ دیر کے بعد ایک گاڑی دکان کے باہر آکر رکی ، گلزار نے گاڑی دیکھی تو کہا وسیم آگیا ، گلزار نے ہم سے اٹھنے کے لیے کہا۔ ہم باہر آئے ،گلزار نے دکان بند کی اور ہمیں لے کر گاڑی میں بیٹھ گیا،گاڑی میں پہلے سے ڈرائیور کے ساتھ دو لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ گلزار نے ہمارا تعارف کروایا، پھر ان سب کا تعارف ہم سے کروایا۔گاڑی وسیم وٹو چلا رہا تھا ، دیگر دو افراد کے نام رانا شاکراور شمشاد چوہدری تھے۔ان کا زور نام سے ز یاد ہ وٹو، رانا اور چوہدری پر تھا،تینوں کم پڑھے لکھے تھے اور جنادریہ کے آپ پاس رہتے تھے جہاں ایک صاحب کا بقالہ تھا دوسرے کی لانڈری تھی، وسیم کسی کمپنی میں کام کرتا تھا، گاڑی اس کو کمپنی کی طرف سے ملی ہوئی تھی۔گلزار اور ان تینوں کی گپ شپ ہونے لگی ہم خاموشی سے بیٹھے باہر کے مناظر دیکھنے لگے۔ نہ کوئی درخت نہ سبزہ، چھٹی کا دن ہونے کے باوجود سڑکو ں پر کسی قسم کی چہل پہل نہیں تھی۔جلد ہی ہم آبادی سے باہر نکل آئے یہاں لق و دق میدان تھا لیکن شائد کسی نئی آبادی کی پلاٹنگ شروع ہو رہی تھی اس لیے سڑکیں موجود تھیں۔کچھ دور سڑک پر کچھ گاڑیاں اور لوگ کھڑے نظر آئے۔ ہماری گاڑی بھی وہاں پہنچ کر رک گئی۔ہم سب گاڑی سے باہر نکلے۔شمشاد نے ڈکی سے کرکٹ بیٹ نکالا، باقی لوگوں کے پاس بھی بیٹ نظر آرہے تھے کچھ شلوار قمیض میں تھے کچھ نے جاگنگ سوٹ پہن رکھا تھا۔ کچھ دیر میںمیچ شروع ہوا،سڑک کو پچ بنالیا گیا تھا، دوستانہ میچ تھا دونوں جانب آٹھ آٹھ کھلاڑی تھے ، کچھ لو گ کھیل میں شریک نہیں تھے وہ ہماری طرح میچ دیکھنے بیٹھ گئے۔ سورج آگ برسا رہا تھا ، شدید گرمی تھی لیکن کرکٹ کا جنون سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ ہمارا گرمی سے برا حال تھا ، کوئی سایہ دار جگہ بھی نہ تھی کہ اس کے نیچے ہی بیٹھ جاتے ، باقی لوگ شائد اس صورتحال کے عادی تھے اور تیاری کے ساتھ آئے تھے، ہمارے پاس تو پانی کی بوتل تک نہ تھی۔۔۔ جاری ہے
٭٭