حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے
شیئر کریں
اشتیاق احمد خان
4دسمبر کو ہندوستان کے شہر امرتسر میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیاکانفرنس میں شرکت کے لیے مشیر خارجہ” سرتاج عزیز ” کی بیتابی دیدنی ہے ۔دفتر خارجہ کے بقرا ط اس کانفرنس کو افغانستان میں امن کی کنجی قرار دیتے نہیں تھکتے ،اس کانفرنس کی اہمیت جتانے کے لیے چالیس ممالک کی شرکت کی گردان سے باہر آنے کو تیار نہیں ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ افغانستان میں امن پاکستان میںامن کی ضمانت ہے لیکن اس کی قیمت کیا ہو اصل سوال یہ ہے؟ اس کانفرنس کے متوقع شریک ممالک میں سے کسی بھی ملک کی سرحد اس طرح افغانستان سے نہیں ملتی جس طرح اور جتنی سرحد پاکستان کی ملتی ہے، افغانستان میں بد امنی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک پاکستان ہے دیگر ممالک کے کل نقصانات بھی پاکستان کے نقصان کے 5فیصد سے بھی کم ہیںاس کانفرنس کی کامیابی یقینا پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے لیکن کسی بھی پروگرام کی کامیابی میں میزبان کا سنجیدہ اور مخلص رویہ انتہائی اہم ہوتا ہے اور بھارت کی اس کانفرنس کی کامیابی کے بارے میں سنجیدگی کا حال یہ ہے کہ وزرائے خارجہ کی اس کانفرنس میں بھارت کی وزیر خارجہ ” شری متی ششما سوراج ©©” شریک نہیں ہونگی کہ ان کے گردے اس کانفرنس کے آغاز سے بیس دن پہلے ہی ناکارہ ہو چکے ہیںیوں اس کانفرنس کی میزبانی کے فرائض وزارت خارجہ کے حکام ادا کرینگے۔39 ممالک جن میں سپر پاور بھی شامل ہیں کہ وزرائے خارجہ کی یوں عزت افزائی کی جائے گی کہ ایک بیوروکریٹ ان کے استقبال کے لیے موجود ہو گا ، شریک ممالک کے وزرائے خارجہ کی موجودگی میں بھارت کا سیکریٹری خارجہ کانفرنس کی صدارت کرے گا۔بھارت اس کانفرنس کے ذریعہ کئی فوائد سیمٹنا چاہتا ہے، وہ افغانستان میں اپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہتا ہے ، پاکستان کو تنہائی کا شکار کرنے کی کوشش کر سکتا ہے ، بھارت جانتا ہے کہ اگر اس کا افغانستان میں کردار کم ہو گا، اگر افغانستا ن میں اس کے غیر ضروری قونصل خانوں کی تعداد خصوصاً پاکستانی سرحدوں سے متصل علاقوں میں قونصل خانوں کے نام پر دہشت گردی کی تربیت اور دہشت گردوں کی پناہ گاہیں نہ رہی تو پاکستان کو تنہا کرنا تو کجا دباو¿ میںرکھنا بھی آسان نہ رہے گا۔اس وقت پاکستان کی سرحدوں کا 80 فیصد سے زائد حصہ دشمن یا اس کے پروردہ عناصر کی پہنچ میں ہے ۔بھارت افغانستان میں قیام امن کی کانفرنس کا کریڈٹ تو لینا چاہتا ہے لیکن افغانستان میں امن نہیں چاہتا۔ اس کانفرنس کی حقیقی کامیابی بھارت کی ناکامی اور کانفرنس کی ناکامی بھارت کی کامیابی ہو گی ۔
بھارت نے اس کھیل میں پہلا پتہ ششما سوراج جی کی عدم شرکت کی صورت میں پھینکا ہے اس سے قبل وہ اپنے مربی کے ساتھ ملکر افغانستان میں قیام امن کی ان کوششوں کو جن کافائدہ پاکستان کو پہنچ سکتا ہو،سبوتاژ کرنے کی کوششیں کرتا رہا ہے۔
کیا اس کانفرنس میں شریک ہونا اور ملکی وقار کی قیمت پرشریک ہونا ملک وقوم کے مفاد میں ہے ؟یکم جنوری 2016 تا30 نومبر 2016 بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول ،سیزفائز لائن اور بین الاقوامی سرحد پر شدید گولہ باری کے 300 سے زائد واقعات ہو چکے ہیں خصوصاً وسط جون سے کوئی دن نہیں جاتا کہ بھارت دن میں کئی کئی مرتبہ لائن آف کنڑول ،سیز فائر لائن اور بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی نہ کرتا ہو۔پاکستان میں شہید ہونے والوں میں سرحدی سیکوریٹی فورس اور پاکستانی فوج کے جوان ہی نہیں،بے گناہ شہری، معصوم بچے اور خواتین بھی شامل ہیں ۔جینواءکنونشن کے مطابق کھلی جنگ میں بھی شہری آبادیوں کو نشانہ نہیں بنایا جا سکتا، ایسی کوئی بھی حرکت جنگی جرم ( War Crime © ) تصور کی جاتی ہے اور اس میں ملوث فوجی اور غیرفوجی عناصر کو متاثرہ ملک کے حوالے کرنا ضروری ہوتا ہے ۔بھارت نے کب کسی قانون کو مانا ہے جو وہ اس قانون کا احترام کرے گا وہ صرف ایک زبان سمجھتا ہے اور وہ ہے طاقت کی زبان ۔
بھارت میں اس وقت جو حکومت قائم ہے وہ منافق نہیں ہے اس نے سیکولرازم کے لبادے میں ہند وتوا نہیں کیے بلکہ یہ کہا جائے کہ بھارت کی موجودہ حکومت نے ہندو دھرم کی انتہائی قدیم سیاسی روایت چانکیہ سیاست سے انحراف کرتے ہوئے کھلم کھلا ہندو توا کی ہے۔ یوں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بھارت سے نیکی کی کوئی امید رکھنا حماقت کے سواءکچھ نہیں ۔
بھارت روز اول سے ہی کشمیر کی صورتحال کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیتا رہا ہے اور پاکستان پر دہشت گردی ایکسپورٹ کرنے کا الزام لگاتا رہا ہے لیکن برہان وانی شہید کی جرا¿ت اورسوشل میڈیا کے بھرپور استعمال نے بھارت کے اس پروپیگنڈہ کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے اور دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ تحریک آزادی کشمیریوں کی اپنی تحریک ہے اور کسی بھی قیمت پر کشمیری بھارت کے ساتھ رہنا نہیںچاہتے وہ جان تو دے سکتے ہیں لیکن پاکستان زندہ باد کا نعرہ اور سبز ہلالی پرچم نہیں چھوڑ سکتے۔ برہان وانی شہید،جس کا تعلق اخباری اور کاغذی نہیں عملی جہادی تنظیم حزب المجاہدین سے تھا، نے اپنی جوانی اور خوابوں کو داو¿ پر لگا کر کشمیر پر قبضہ برقرار رکھنے کی بھارتی خوابوں کو چکنا چور کر دیا ہے ۔اب بھارت نہیں کہہ سکتا کہ کشمیری اس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں ۔
یہ وقت ہے کہ سارک سربراہ کانفرنس کی منسوخی کا سفارتی سطح پر بدلہ لیا جائے اور ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا نہ صرف خود بائیکاٹ کیا جائے بلکہ دیگر ممالک پر بھی اس ضمن میں بھارت کے غیر سنجیدہ رویہ کو آشکار کر کے انہیں بھی بائیکاٹ پرآمادہ کیا جائے کانفرنس کے انعقاد کے بعد کامیاب نہ ہونابھارت کی کامیابی ہے اور انعقاد نہ ہونا بھارت کی ناکامی۔
حکومت پاکستان اگر یہ فیصلہ کر لے کہ اس کانفرنس میں شریک نہیں ہونا تو اس کانفرنس کا انعقاد ہی نہ ہو سکے گا جو بھارت کی بڑی سفارتی ناکامی ہو گی لیکن پیٹ کے پجاری حکمرانوں سے اس جرات رندانہ کی امید رکھنا کھلی آنکھوں خواب دیکھنا ہے ۔
گزشتہ سال دسمبر کے آخری دنوں میں بھارتی وزیر اعظم افغانستان کے دورے پر تھے اور کابل سے لاہور روانگی سے قبل پریس کانفرنس کے دوران الزام تراشیوں کا بھرپور حملہ کیا تھا اور لاہور میں آمد پر کہا تھا کہ میں حکومت پاکستان کا نہیں نواز شریف کا ذاتی مہمان ہوں اور نواز شریف کو سالگرہ اور نواسی کی شادی کی مبارکباد دینے آیا ہوں۔ مودی کے اس اعتراف کے بعد کہ وہ حکومت پاکستان کے نہیں نواز شریف کے ذاتی مہمان ہیں اور حکومتی سطح پر سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت سے انکار اور دیگر ممالک کو شرکت سے روکنے کے لیے دباو¿ ڈالنے کے بعد کیا جواز رہ جاتا ہے کہ بھارت میں ہونے والی کسی بھی کانفرنس اور کسی بھی تقریب میں شرکت کی جائے ماسوائے ذاتی دوستی نبھانے کے اور کیا ذاتی دوستی ملک اور قوم کے وقار سے زیادہ اہم ہے ۔
٭٭