میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
فضول یات

فضول یات

ویب ڈیسک
پیر, ۲ نومبر ۲۰۲۰

شیئر کریں

دوستو،لاہور میں جب ہم بسلسلہ روزگار رہائش پذیر تھے تو وہاں ایک جملہ اکثر کانوں میں ’’رس‘‘ گھولتا تھا۔۔ وہ جملہ تھا۔۔ بے فضول نہ بولا کر۔۔ حالانکہ فضول تو فضول ہی ہوتا ہے، بے لگانے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہوتی، مگر یہ لاہوری بولی کا حسن تھا۔۔جسے سن کر ہم بھی محظوظ ہواکرتے تھے۔۔ آج چونکہ اتوار کا دن ہے ،اس لیے ہم نے بھی سوچا کیوں نہ آپ لوگوں کو اپنی روایتی اوٹ پٹانگ اور فضول باتوں سے مستفید فرمائیں، ہمارا دعویٰ ہے کہ آپ ان باتوں کو پڑھ کر مسکرائے بنا نہیں رہ پائیں گے۔۔ تو پھر شروع کرتے ہیں اپنی فضولیات تاکہ آپ کے خوشگوار دن کا آغاز ہوسکے۔۔
کہتے ہیں کہ جس کا جو کام ہوتا ہے ویسے ہی مشورے بھی دیتا ہے۔۔ایک دفعہ ایک کیمسٹ، مکینک، الیکٹریشن اور پروگرامر ایک گاڑی میں اکٹھے سفر کر رہے تھے۔ سفر کے دوران گاڑی خراب ہو گئی۔ کیمسٹ کہنے لگا کہ ضرور ہم نے گاڑی میں غلط ایندھن ڈلوایا ہو گا۔ مکینک کہنے لگا کہ اس کے انجن یا گیئر خراب ہو گیا ہو گا۔ الیکٹریشن کہنے لگا کہ تم دونوں غلط ہو۔ ضرور اس کی بیٹری خراب ہو گئی ہو گی۔ پروگرامر کہنے لگا کہ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں تحمل مزاجی سے کام لینا چاہیے۔ گاڑی کی تمام ونڈوز (کھڑکیوں) کو بند کرنا چاہیے۔ گاڑی کا انجن بند کرنا چاہیے اور گاڑی کو دوبارہ اسٹارٹ کرنا چاہیے۔۔اسی طرح ایک دن ایک آدمی ایک اسٹور میں کچھ خریدنے کے لیے گیا۔۔ بچوں کے کھلونوں کے سیکشن میں اسے تانبے کا بنا ہوا ایک چوہے کا مجسمہ نظر آیا۔۔ اسے وہ بہت دلچسپ لگا، وہ مجسمہ خرید کر جب اسٹور سے باہر نکلا تو کچھ چوہے بھی اس کے پیچھے لگ گئے۔۔اس نے ان چوہوں کو نظر انداز کیا اور گھر کی طرف چل پڑا، تھوڑی دور چل کر اس نے اپنے پیچھے دیکھا تو چوہوں کی تعداد بڑھ چکی تھی۔۔ یہ دیکھ کر وہ دریا کے پل کی طرف چل پڑا اور پل پر پہنچ کر اس نے وہ مجسمہ دریا میں پھینک دیا۔۔ تمام چوہوں نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دریا میں چھلانگ لگا دی۔۔وہ آدمی دوڑتا ہوا سٹور میں واپس آیا،ا سٹور والے نے اسے دیکھتے ہی کہا کہ پیسے واپس نہیں ملیں گے۔۔ اس آدمی نے اسٹور کے مالک سے کہا کہ میں پیسے لینے نہیں آیا۔۔ بس یہ پوچھنا تھا کہ کیا آپ کے پاس کسی سیاستدان کی شکل کا مجسمہ بھی مل سکتا ہے۔۔
ہمارے ایک دوست پنڈی سے کراچی آئے،کہنے لگے۔۔ ٹرین میں رات بھر نیند نہیں آئی ، اوپر کی برتھ ملی تھی اور گرمی بھی بہت تھی۔۔ہم نے کہا۔۔تو ایکسچینج کرلینا تھاکسی سے؟؟ وہ بڑی معصومیت سے کہنے لگے۔ کس سے کرتا،نیچے کی برتھ تو خالی تھی۔۔۔ ویسے گرمی کا موازنہ کیا جائے تو کراچی کے مقابلے میں لاہور میں بہت زیادہ گرمی پڑتی ہے، وہاں ایک چینل میں کام کرنے والے ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ ، لاہور کی گرمی میں رنگ اتنا کالا ہوگیا ہے کہ جس صابن سے نہاؤ ،پانچ منٹ بعد وہ صابن بھی کندھے پہ تولیہ ڈال کے نہانے چلا جاتا ہے !۔۔ انہی دوست کا قول ہے کہ ۔۔اگر کوئی آفس میں دیر تک کام کرے تو سمجھ جائیں،گھر میں لڑاکا ہے یا آفس میں پٹاخہ۔۔ ہمارے ایک دوست وزن میں کافی بھاری ہیں، ہم نے ایک بار غلطی سے انہیں سبزچائے پینے کا مشورہ دے ڈالا۔۔ کہنے لگے، سبز چائے سے صرف اسی صورت میں وزن کم ہوتا ہے کہ جب آپ خود اسے کاشت کرنے کے لیے پہاڑوں پر چڑھ جائیں۔۔ویسے ہمارے کچھ دوست ایسے بھی ہیں جنہیں شوگرتو نہیں لیکن چائے وہ پھیکی ہی پیتے ہیں، کولڈڈرنکس پر تو ٹوٹ پڑتے ہیں، ویسے شوگر فری مٹھائی سے ہمیں بغیر رخصتی والا نکاح یاد آجاتا ہے۔
ہمارے پیارے دوست نے ہمیں ای میل کی،جس میں لکھا ہے۔۔حاجی صاحب کے بڑے بیٹے کا بیان ہے کہ میرا یقین تو جمہوریت سے 1988 ہی میں اٹھ گیا تھا۔کہنے لگا کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایک جمعرات کو میں اور میرے باقی تینوں بہن بھائی، امی ابو کے ساتھ مل کر رات کا کھانا کھا رہے تھے کہ ابا جان نے ہم سب سے پوچھا: بچو، کل تمہارے چچا کے گھر چلیں یا ماموں کے گھر۔ ہم سب بہن بھائیوں نے بہت شور مچاکر چچا کے گھر جانے کا کہا، ماسوائے امی کے جن کی رائے تھی کہ ماموں کے گھر جایا جائے۔ بات اکثریت کے مطالبے کی تھی اور رائے شماری سے طے پا گیا تھا کہ چچا کے گھر جانا ہے۔ امی کا موقف ہار گیا تھا۔ ابا جان نے بھی ہماری رائے کے احترام میں چچا کے گھر جانے کا فیصلہ سنا دیا۔ ہم سب بہن بھائی چچا کے گھر جانے کی خوشی دل میں دبائے جا سوئے۔ جمعہ کے دن صبح اٹھے تو امی کی ہنسی ہی نہیں تھم رہی تھی۔ ہنسی بمشکل دبائے انھوں نے ہمیں کہا کہ سب جلدی سے کپڑے بدلو، ہم لوگ تمہارے ماموں کے گھر جا رہے ہیں۔میں نے ابا جان کی طرف دیکھا جو خاموش اور توجہ سے اخبار پڑھنے کی ایکٹنگ فرما رہے تھے۔ میں غریب کا بال منہ تکتا رہ گیا۔ بس جی، میں نے تو اسی دن سے جان لیا ہے کہ جمہوریت، اکثریت کی رائے کا احترم اور ووٹ کو عزت دو وغیرہ تو ایک سے ایک ڈھکوسلہ ہے۔ اصل فیصلے تو بند کمروں میں اس وقت ہوتے ہیں جب غریب عوام مزے سے نیند میں ڈوبی ہوتی ہے۔ ۔۔
باباجی فرماتے ہیں ، شادی سے پہلے کانوں کا علاج ضرور کرانا چاہیئے کیونکہ زوجین کے ایک کامن جملہ بہت سننے کو ملتا ہے، ـتینوں سن دا نئی؟؟باباجی کا ہی کہنا ہے کہ ، اگر شادی شدہ مردحضرات کو کوئی لڑکی فیس بک پر بہت زیادہ لفٹ کرارہی ہے تو خیال رکھیئے وہ آپ کی ذاتی بیگم بھی ہوسکتی ہے جو خفیہ اکاؤنٹ سے پہلے آپ کومزیدالو بنائے گئی پھر آپ کا بینڈ بھی بجائے گی۔۔ہمارے پیارے دوست کا دعویٰ ہے کہ ، کچھ لڑکیوں کے موبائل فونز میں ان کے بوائے فرینڈز کا نمبر ’’ایزی لوڈ والا‘‘ کے نام سے محفوظ ہوتا ہے۔۔پیارے دوست کا ہی فرمان عالی شان ہے کہ، کچھ لوگ اتنی شدید کنوارے ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی میں صرف ایک ہی ’’بندی‘‘ آتی ہے اور وہ ہے ’’پابندی‘‘۔۔باباجی نے موسم سرما کے حوالے سے دیسی ٹوٹکا عنایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ۔۔بادام کھانے کے علاوہ ڈانٹ کھانے سے بھی عقل بڑھتی ہے۔۔وہ مزید فرماتے ہیں کہ۔۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے گھر رحمت کے فرشتے نازل ہوں تو آپ گھر سے نکل جائیں۔۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نام ہمیشہ زندہ رہے تو وہاں پر بھی اچھے اخلاق سے گفتگو کرو جہاں پر کسی کو چپیڑیں مارنے کا دل کرتا ہے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔ چلغوزے کی قیمت پوچھ کر حکومت کو مہنگائی پر دس باتیں سنا کر مونگ پھلی خریدنے کا موسم آگیا ہے۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں