چین انٹارکٹکا کو بچا سکتا ہے
شیئر کریں
جان کیری
اس وقت جب چین اور امریکا میں گہرے اختلافات پائے جاتے ہیں‘ پھر بھی ایک ایسا عالمی چیلنج موجود ہے جس کے حل کے لیے ان اختلافات کے ختم ہونے کا انتظار نہیں کیا جا سکتا اور وہ ہے ماحولیاتی تبدیلی۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ امریکا اور چین ایک نئی سرد جنگ میں داخل ہو رہے ہیں، پھر بھی ہم باہمی مفادات کی خاطر تعاون کر سکتے ہیں۔ بیسویں صدی میں جب کشیدگی اپنے عروج پر تھی‘ امریکا اور سوویت یونین نے تخفیفِ اسلحہ پر مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا جو دونوں ممالک کے مفاد میں تھا۔ ایٹمی افزودگی کی طرح ماحولیاتی تبدیلی بھی ہمارے لیے ایک بڑ اچیلنج ہے اور ہم اس کے حل میں مصروف ہیں۔ ہمیں اسی مہینے اس بات وضاحت کرنے کا موقع ملا ہے کہ بڑی طاقتیں اپنی دشمنیاں الگ تھلگ رکھتی ہیں۔ ہماری زمین پر واقع بحر جنوب کے پانی کے مسئلے پر جیو پالیٹکس ختم ہونا چاہئے۔ بحر جنوب پورے براعظم انٹاکٹکا کا ا حاطہ کئے ہوئے ہے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد تخفیفِ اسلحہ کے پہلے معاہدے The Antarctic Treaty پر 1959ء میں اس وقت دستخط ہوئے تھے جب سرد جنگ پورے عروج پر تھی‘ جس کے نتیجے میں ہر طرح کی عسکری سرگرمیوں پر پابندی لگ گئی تھی اور علاقائی دعووں سے ہٹ کر پہلی مرتبہ نیوکلیئر فری ماحول کی گنجائش پیدا ہوئی تھی اور اس براعظم کو سائنس اور امن کے لیے وقف کردیا گیا۔ اب ہمیں دوبارہ موقع ملا ہے کہ اس عالمی مشترکہ میراث کو زمین سے سمندر تک توسیع دے دی جائے۔
ان تین نئے بحری پارکس کے قیام کی حمایت کر کے چین ماحولیاتی قیادت کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ بحر جنوب کے پانیوں سے لے کر مشرقی انٹارکٹکا کے جزیرہ نما اور بحیرہ ویڈل تک کسی قسم کی ماہی گیری یا صنعتی سرگرمی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس محفوظ شدہ سمندر کے چار لاکھ مربع کلو میٹر میں سے یہ ڈیڑھ لاکھ مربع کلومیٹر علاقہ ایسا ہوگا جہاں وائلڈ لائف کو گرم موسم، تیزابی پانی اور تاریخ کا سب سے بڑا ماحولیاتی تحفظ میسر ہوگا۔ بہت سی سٹڈیز سے معلوم ہوا ہے کہ بحری حیات کو محفوظ کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تمام سمندروں کے ایک بڑے علاقے کو محفوظ اور ممنوع قرار دے دیا جائے جن میں ماہی گیری اور کسی قسم کی صنعتی سرگرمی کی اجازت نہ ہو۔ جس سے ہمارے ایکو سسٹم کو بڑی مدد ملے گی۔ بحر جنوب نہ صرف یہ کہ زندگی سے بھرپور ہے بلکہ اس سے عالمی ماحولیات کو ریگولیٹ کرنے اور آکسیجن سے بھرپور سمندری پانی کو حرکت دینے میں بھی مدد ملے گی۔ اس پانی میں ایسے نیوٹرینٹس شامل ہوتے ہیں جو سمندری حیات کے لیے ضروری ہیں۔
انٹارکٹک ایکو سسٹم کی ایک فائونڈیشن جسے Krill کہتے ہیں‘ اس ایکو سسٹم کی خوراک کا بڑا ذریعہ ہے۔ اس کے لائف سائیکل کے ذریعے زمینی ماحول میں سے ہر سال 23 ملین ٹن کاربن ڈائی ا?کسائد گیس کو لاک اپ کرنے میں مدد ملتی ہے جو 35 ملین کاروں کی پیدا کردہ گرین ہائوس گیس کے برابر ہوتی ہے لیکن انٹارکٹکا اس کرہ? ارض پر سب سے زیادہ گرم ہونے والا خطہ ہے جو اپنے اندر اور اپنے ٹھنڈے پانیوں سے دور بھی خاص مضمرات کا حامل ہے۔ جنوری میں پہلی مرتبہ یہ رپورٹ ہوا ہے کہ گرمی کی پہلی لہر نے مشرقی انٹارکٹکا کے ساتویں براعظم کو ہٹ کیا ہے جہاں شیراس گلیشیر کے نیچے برف پگھلنے کا عمل دیکھا گیا ہے۔ حال ہی میں ریسرچرز نے یہ انکشاف کیا ہے کہ انٹارکٹکا کی برف کی تہہ کے 60فیصد حصے کے پگھلنے کاخطرہ ہے اور یہ ایسا نقصان ہے جس سے سمندری پانی کی سطح بلند ہو جائے گی اور ساحلی شہروں میں زبردست تباہی پھیلے گی اور بحر جنوب کے ایکو سسٹم کو بہت نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمارے پاس پہلے ہی ایسا بلیو پرنٹ ہے جس سے سمندری ایکو سسٹم کو پہنچنے والے نقصان میں کمی کی جا سکتی ہے۔ چار سال پہلے ایک کمیشن تشکیل دیا گیا ہے‘ جسے CCAMLR کہا جاتا ہے، یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو بحر جنوب کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس نے بحیرہ راس میں دنیا کا سب سے بڑا محفوظ علاقہ قائم کیا ہے۔ اس اقدام نے روس، امریکا اور چین سمیت سب اتحادیوں اور حریفوں کو مزید متحد کر دیا ہے تاکہ وہ یہ ثابت کر سکیں کہ دنیا کے دیگر حصوں میں کشیدگی کے باوجود انٹارکٹکا میں سائنس، امن اور تحفظِ بحری حیات کے معاملے میں ہم سب متحد ہیں۔
2016ء میں ہونے والے اس معاہدے میں مجھے بھی اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ مل کر کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ 2012ء میں چینی حکومت نے اپنے آئین میں Ecological Civilization کا تصور شامل کیا تھا جبکہ صدر ڑی جن پنگ کا کہنا ہے کہ معیشت اور ماحولیات کا براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ ہم ماحولیاتی تبدیلی پر پہلے ہی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کا اعلان کر چکے ہیں جب صدر براک اوباما اور صدر ڑی جن پنگ نے اعلان کیا تھا کہ ہم اپنے اپنے ممالک میں پیرس معاہدے کی روشنی میں گیسوں کے اخراج میں کمی لائیں گے۔ چین اپنے گھر اور بیرونی دنیا میں ماحولیاتی تبدیلی کا ایک بڑا علمبردار بن کر سامنے آیا ہے۔ اس مسئلے پر دنیا ایک بار پھر ہم دونوں ممالک کی طرف دیکھ رہی ہے۔
اب ہمارے پاس ایک موقع ہے کہ ایک قدم آگے بڑھیں اور ایک بڑے اقدام کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامیں جس سے سمندروں میں ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے عالمی عزائم کے حوالے سے شکوک ختم کرنے کا موقع ملے۔ اس کمیشن میں شامل حکومتیں انٹارکٹکا میں ایک نیا اور محفوظ علاقہ بنانے کافیصلہ کرنے کے لیے ملتی رہتی ہیں اور اس میں ہونے والی پیشرفت کا انحصار اس بات پر ہے کہ کیا چین ان 24 ممالک اور یورپی یونین کے ساتھ شامل ہونے کے لیے تیار ہے جو پہلے ہی اس کی منظوری دے چکے ہیں۔ کمیشن اتفاق رائے سے کام کرتا ہے اور تین نئے بحری پارکس کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ تمام رکن ممالک اس ممنوعہ علاقے میں ماہی گیری کی اجازت نہ دیں۔ اب یہ موقع نہیں ہے کہ عالمی ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے کیے گئے وعدوں پر سوالا ت اٹھائے جائیں یا کثیر قومی پلیٹ فارمز پر سائنس پر مبنی باہمی تعاون میں کمی کی جائے۔ چین کے پاس اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کی پوری استطاعت موجود ہے۔ اختلافات کے باوجود اس میں کامیابی تمام قوموں کی کامیابی ہو گی اور سب سے بڑھ کر یہ ہماری آنے والی نسلیں کی کامیابی ہوگی جو ماحولیاتی تبدیلی پر فتح یابی کے لیے ہمارے اوپر انحصار کر رہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔