عدالتی فیصلے میں فوج کو گھسیٹنا افسوسناک ہے ، آئی ایس پی آر
شیئر کریں
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ عدالتی فیصلے میں فوج کو گھسیٹنا افسوسناک ہے ، تمام مسلمانوں کا حضورپاک سے محبت کا رشتہ ہے ، حضور سے محبت پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا، اسلام ہمیں امن، درگزر اور محبت کا درس دیتا ہے ۔ ہمیں اسلامی تعلیمات اور قانون کو نہیں چھوڑنا چاہیے ۔ آسیہ بی بی کا کیس گزشتہ 10 سال سے عدالتوں میں چل رہا ہے ، اس کا فیصلہ بھی قانونی معاملہ ہے ، بہترہوگا آسیہ بی بی کے معاملے میں قانونی عمل کومکمل ہونے دیا جائے ، سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف مذہبی جماعتوں نے دھرنا دیا، ملک میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھی جائے اور چاہتے ہیں کہ صورتحال پرامن طریقے سے حل ہوجائے ۔
ان خیالات کا اظہار ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفورنے سرکاری ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ ا نہوں نے کہا کہ گزشتہ چند روز سے ملک میں امن و امان کی صورتحال بنی ہوئی ہے جس میں ہماری مذہبی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے آسیہ مسیح کے کیس کے اوپر فیصلہ کے رد عمل میں احتجاجاً ملک میں دھرنے دیے ہوئے ہیں ۔ جہاں تک ان کے احساسات کی بات ہے تو پاکستان بھر کے مسلما نوں کی حضور سے محبت کا رشتہ ہے ایک نبو ت کا رشتہ ہے کوئی بھی مسلمان اور بالخصوص پاکستان کا جو مسلمان ہے وہ حضور سے محبت پر کبھی بھی کمپرومائز نہیں کر سکتا ۔ جس کے بھی جذبات حضور کی ناموس کے ریفرنس سے مجروح ہوئے ، تکلیف پہنچی ہے تو اس میں تو کوئی شک ہی نہیں ، جو ہمارے حضور کی شان میں گستاخی کرے گا وہ ہمیں مسلمان ہونے کے ناطے بہت محسوس ہو گا۔
ا نہوں نے کہا کہ جہاں تک آسیہ مسیح کیس کا تعلق ہے یہ دس سالوں سے عدالتوں میں چلا، پہلے ان کو سزا ہوئی ، قید میں رہی ، پھر حال ہی میں سپریم کورٹ نے اس کا فیصلہ دیا ہے تو یہ ایک لیگل پراسیس ہے ، اس لیگل پراسیس میں ایک پٹیشن دائر ہوئی ہے جو سپریم کورٹ نے سماعت کے لیے منظور کر لی ہے اور چند دنوں میں اس کی تاریخ آ جانی ہے ۔ میری تمام دینی جماعتوں سے درخواست ہو گی کہ ان کے احتجاج کی وجہ سے بھی شائد ایسا ہوا ہو لیکن قانونی شق تھی جو پٹیشن چلی گئی اب اس پٹیشن کا لیگل پراسیس چلنے دیں، اس میں دیکھیں کہ عدالت اس کو کیسے سنتی ہے اور کیا فیصلہ کرتی ہے اور اس کو عدالت میں مکمل ہونے دیں جب یہ پراسیس مکمل ہوتا ہے اور پھر کیا فیصلہ ہوتا ہے تو اس کے مطابق پاکستان کے تمام مسلمان آگے کا راستہ چن سکتے ہیں لیکن اس وقت ایک لیگل پراسیس پورا نہیں ہوا تو میری ایک پاکستانی اور مسلمان کی حیثیت سے ان کو یہ تجویز ہو گی کہ اس کیس کی حد تک اس کو عدالت میں آگے چلنے دیں پھر دیکھیں عدالت آگے کیا فیصلہ کرتی ہے، اس کیس کے اوپر میرا یہ نقطہ نظر ہے ۔
افواج پاکستان چاہیں گی کہ امن عامہ کی صورتحال خراب کیے بغیرمعاملہ حل ہو عدالت میں قانون کے مطابق آگے چلیں اور اس کے بعد اس پر فیصلہ ہو ۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک فوج اور افسران کے خلاف بیانات کی بات ہے، ایک آئین ہے، قانون ہے، اس میں کچھ حد بندیاں دی گئی ہیں اس کا احترام کرنا چاہیے ۔ میں اپنی بہت ساری پریس کانفرنسز میں یہ بات کہہ چکا ہوں کہ بدقسمتی سے فوج کو ہر معاملہ میں گھسیٹنے کی کوشش کی جاتی ہے ،اس کیس کی مثال لیں یہ ایک عدالتی کیس ہے ،پہلے کچھ فیصلہ آیا، اس کے بعد فیصلہ آیا، اب بھی عدالت نے فیصلہ دیا ہے، اس کیس کے ساتھ تو فوج کا کوئی تعلق نہیں، یہ ایک لیگل پراسیس چل رہا ہے لیکن اس کے دوران افواج پاکستان کے خلاف بات چیت کرنا بہت افسوسناک عمل ہے ۔
افواج پاکستان نے پچھلی دو دہائیوں میں ملک کے اندر سب کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف ایک ایسی جنگ لڑی ہے جس کو ہم جیتنے کے قریب ہیں ۔ جب میں کہتا ہوں کہ ہم جیتنے کے قریب ہیں تو ہر جنگ کا ایک ہدف ہوتا ہے اور ہمارا ہدف دائمی امن ہے، ہم نے امن تو قائم کر لیا ہے اور استحکا م کی طرف جا رہے ہیں لیکن ابھی کام کرنا باقی ہے اور اس موقع پر فوج کی توجہ باقی مسئلوں کے طرف جائے گی تو میری پاکستانیوں سے اپیل یہ ہے کہ ہماری توجہ کو دائیں بائیں نہ کریں، خواہ وہ سیاست ہے یا اس قسم کے مسئلے ہیں، ہم بہت برداشت کر رہے ہیں ۔ میں نے پہلے بھی بڑی دفعہ کہا ہے کہ افواج پاکستان اس وقت جو کا م کر رہی ہیں، اپنے خلاف بات کو ہم برداشت کیے جا رہے ہیں لیکن پھر ایک آئین ہے ، قانون ہے اس کے تحت ایکشن بھی ہو سکتے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ملک جن حالات میں چل رہا ہے اس سے ہم نکلیں اور ترقی کی طرف جائیں اور امن کی طرف جائیں ہم سب متحد ہوں گے تو آگے چلیں گے ،اس میں بھی افواج پاکستان اپنی برداشت کا مظاہرہ کر تے ہوئے چل رہی ہیں، اس کیس سے تعلق کے بغیر بھی ہماری یہ خواہش ہو گی کہ اس سے اجتناب کیا جائے اور وہ قدم ا ٹھانے پہ مجبور نہ کیا جائے جس کی آئین اور قانون ہمیں اجازت دیتا ہے، ہم اس ملک کی فوج ہیں ، اس ملک سے ہمیں پیار ہے ، اس کی عوام ہمیں پیار کرتی ہے ، عوام اور فوج نے مل کر ملک میں امن قائم کیا ، دشمن قوتوں کی نذر اس امن کو نہ ہونے دیں ۔ انہوں نے کہا کہ امن و امان کی ایک صورتحال بنی ہوئی ہے ،اس میں مذاکرات کے لیے حکومت کا ایک وفد گیا اور اس میں آئی ایس آئی کے افسر حکومت کے وفد کا حصہ ہیں کیونکہ آئی ایس آئی وزیراعظم کا انٹیلی جنس کا انسٹرومنٹ ہے آخری مرتبہ بھی جب مذاکرات ہوئے تھے تو آئی ایس آئی کا جو افسر ہوتا ہے وہ حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے مذا کرات کرتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ فی لحال حکومت کی سطح پر بات چیت چل رہی ہے، حکومت ان سے بات چیت کرنا چاہتی ہے اور کی ہے اور کیسے آگے جائے گی ۔ اس کے بعد حکومت کے اپنے ٹیئرز آپ ایپلیکیشن ہیں ، پولیس ہے ، سول آرمڈ فورسز میں رینجرز آئے گی اور پھر افواج پاکستان کو طلب کیا گیا تو پھر آرمی چیف اپنا مشورہ دیں گے یا جو بھی وزیر اعظم کا حکم ہو گا اس کے مطابق امن و امان کی صورتحال کو ٹھیک کرنے کے لیے ایپلیکیشن ہو سکتی ہے لیکن ہماری خواہش یہی ہے کہ ایک لیگل پراسیس ہے اس کو پورا ہونے دیں، دوسرا افواج پاکستان اس وقت جس کام میں مصروف ہیں اس کام سے ان کی توجہ دائیں بائیں نہ ہونے دیں اور اس اسٹیج پر نہ لے کر جائیں جہاں پر آئین اور قانون کی بالا دستی کے لیے جو کام کرنے چاہیں وہ کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے دوران ایک آدھی بات اوپر نیچے دونوں طرف سے ہوئی ہے تو ان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ مذاکرات کا مقصد ایک بہتر صورتحال کی طرف جانا ہے ۔
حکومتی وفد کے ساتھ ان کے مذاکرات اگر ہوں تو دونوں کو ایک دوسرے کی بات سننی چاہیے اور اس اسٹیج پر نہ آئے کہ افواج پاکستان کی ذمہ داری میں آ جائے وہ اسٹیج نہیں آنی چاہیے، یہ ہمارا ملک ہے اس میں کسی قسم کی شرانگیزی یا اشتعال پسندی نہیں ہونی چاہیے ۔ جب ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں تو اسلام تو سکھاتا ہی ہمیں امن ہے ، اسلام تو سکھاتا ہی ہمیں درگزر ہے اور اسلام تو سکھاتا ہی ہمیں پیار ہے ۔ اگر ہم اس نبی کی ذات کے ماننے والے ہیں جنہوں نے صرف امن کا سبق دیا تو ساری دنیاکیا دیکھ رہی ہو گی ۔ ہمیں قانون کا ہاتھ بھی نہیں چھوڑنا چاہیے ، ہمیں اسلام کی تعلیمات کو بھی نہیں چھوڑنا ہاہیے ، ہمیں حضور کی ناموس کے اوپر کسی قسم کی بات کو بھی نظرانداز اور برداشت بھی نہیں کرنا چاہیے لیکن ہر چیز کا ایک طریقہ ہوتا ہے اس کے مطابق چلنا چاہیے ۔ افواج پاکستان کے پاس جب یہ کیس آئے گا تو ہم اس کے مطابق اس کے اوپر فیصلہ کریں گے ۔