ہتھیاروں کی خریداری میں بھارت پہلے نمبر پر
شیئر کریں
اسلحہ کی خرید اور فروخت میں بڑی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ دنیا میں سالانہ ڈیڑھ کھرب امریکی ڈالر دفاعی اخراجات کے لیے خرچ کیے جاتے ہیں، جس سے اگر ایک طرف اسلحے کی دوڑ مزید بڑھ رہی ہے تو دوسری جانب عالمی امن بھی خطرات سے دوچار ہے۔گزشتہ عشرے کے دوران اسلحے سازی کی 100 بڑی عالمی کمپنیوں کی پیداوار میں 1215فیصد اضافہ ہوا ہے۔اسلحہ کی فروخت میں مغربی اور خریداری میں ایشیائی ممالک پیش پیش ہیں۔
بھارت کے جنگی جنون اور توسیع پسندانہ عزائم نے اسے ہتھیار خریدنے والے ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر پہنچا دیا ہے۔عالمی تھنک ٹینک ا سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر سے خریدے گیے ہتھیاروں کی کل تعداد میں چودہ فیصد حصہ بھارت کا ہے۔ روس اور اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار بھارت ہے۔ اسلحے کی بھرمار سے ناصرف دنیا کے بیشتر خطوں کی سلامتی خطرے میں پڑ چکی ہے بلکہ بڑی طاقتوں نے دنیا میں اپنی مکمل اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے اسلحہ کا سہارا لے رکھا ہے۔
25سے 31اکتوبر تک دنیابھرمیں ہفتہ تخفیف اسلحہ منایا جاتا ہے ،تاہم تمام تر کوششوں کے باوجود نہ تو اسلحے کی پیداوار کو روکا جاسکا اور نہ ہی اس کی خرید و فروخت کو روکنے کے حوالے سے کوئی اقدامات کیے جاسکے۔ گزشتہ 4 برسوں (2012-16ء ) کے دوران عالمی سطح پر 57ممالک نے 155 ممالک کو اسلحہ فروخت کیا اور فروخت کرنے والے ممالک میں امریکا بدستور سرفہرست ہے جبکہ دوسری جانب خریداروں کی فہرست میں بھی بھارت پہلے نمبر پر رہا۔
ہفتہ تخفیف اسلحہ کے حوالے سے اعداد و شمارکے مطابق مذکورہ عرصے کے دوران 75 فیصد اسلحہ صرف 5ممالک امریکا، روس، چین، فرانس اور جرمنی نے فروخت کیا جن میں 35 فیصد حصہ امریکا کا رہا جبکہ 23 فیصد روس، 6.2 فیصد چین، 6 فیصد فرانس اور 5.2 فیصد حصہ جرمنی کا رہا۔ سویڈش ادارے سپری کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے 155 اسلحہ کے خریدار ممالک میں بھارت بدستور سرفہرست ہے جبکہ سعودی عرب دوسرے، متحدہ عرب امارات تیسرے، چین چوتھے اور الجیریا 5ویںنمبر پر رہا جبکہ خریداری کی فہرست میں پاکستان 9 ویں نمبر پر رہا۔ بھارت نے اس عرصے کے دوران 68 فیصد اسلحہ روس سے ‘14 فیصد امریکا اور 7.2 فیصد اسرائیل سے خریدا۔ پاکستان نے 68 فیصد اسلحہ چین، 16 فیصد امریکا اور 3.8فیصد اٹلی سے خریدا۔
ماہرین کے مطابق عالمی سطح پر دفاعی اخراجات بدستور بڑھتے جارہے ہیں اور دنیا کے دفاعی اخراجات ایک کھرب 686ارب ڈالر تک تجاوز کرگئے جس کا سب سے بڑا حصہ 611 ارب ڈالر امریکا کا ہے جبکہ 215.7 ارب ڈالر کے ساتھ چین دوسرے، 69.2ارب ڈالر کے ساتھ روس تیسرے، 63.7 ارب ڈالر کے ساتھ سعودی عرب چوتھے اور 55.9 ارب ڈالر کے ساتھ بھارت پانچویں نمبر پر ہے جبکہ 9 ارب ڈالر کے ساتھ پاکستان عالمی دفاعی اخراجات کی فہرست میں 23 ویں نمبر پر ہے۔ اس فہرست میں فرانس چھٹے، برطانیا 7 ویں، جاپان 8ویں، جرمنی 9ویں اورجنوبی کوریا دسویں نمبر پر ہے۔ امریکہ جو ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ بھی دنیا کا سرفہرست ملک ہے اسلحہ سازی میں بھی کسی حوالے سے کم نہیں جس کا اندازہ اس امر سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کی 10بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں میں سے 7 کا تعلق امریکا سے ہے جبکہ ایک کا برطانیہ، ایک کا اٹلی اور ایک یورپی یونین سے ہے۔
بھارت نے پچھلے 5 سالوں میں پاکستان اور چین کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ اسلحہ خریدا۔ 08۔2004 کے درمیان بھارت دوسرے نمبر پر تھا جبکہ پہلے نمبر پر چین تھا۔ تاہم 13۔2009 کے درمیان بھارت ہتھیاروں کی درآمد میں پہلے نمبر پر چلا گیا۔ 13۔2009 کے دوران بھارت نے 75 فیصد ہتھیار روس، سات فیصد امریکہ اور چھ فیصد ہتھیار اسرائیل سے خریدے ہیں۔ 2015ء میں اسلحہ کی خریداری پر 735 ملین ڈالر خرچ کیے اس طرح پاکستان زیادہ اسلحہ درآمد کرنے والے ممالک میں 10 ویں نمبر آ گیا۔
گذشتہ برسوں میں بھارت کی حیثیت روسی جنگی سامان کے سب سے بڑے خریدار کی رہی ہے۔ جومغربی ممالک کی اسلحہ ساز کمپنیوں کو بہت کھلتی رہی ہے اور وہ اسلحہ کی اتنی بڑی مارکیٹ کو اپنے حریف کے حوالے کیے رکھنے پر کڑھتے رہے ہیں اور اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالتے رہے ہیں کہ وہ اسے پھانسنے میں کوتاہی کیوں کر رہی ہیں۔ خود بھارت بھی مغربی اسلحہ تک رسائی کی دیرینہ خواہش کو پورا کرنے کی راہیں تلاش کرنے میں لگارہا اور اس میں اس نے خاطر خواہ کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اسی طرح خطے میں طاقت کا توازن بگڑا۔ بھارتی حکمران آئے دن پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں اور ہندوستان بڑے پیمانے پراسرائیل، روس، امریکہ، برطانیہ اور کئی دوسرے ملکوں سے ہتھیار خرید رہا ہے۔ بھارت اپنے حجم اور وسائل کے اعتبار سے خطے کا سب سے بڑا ملک ہے۔ بڑا ملک ہونا کوئی خرابی کی بات نہیں۔ بشرطیکہ وہ اپنے ہمسایوںکے لیے اندیشوں اور خدشات کا سر چشمہ نہ ہو۔ بد قسمتی سے بھارت اپنی توسیع پسندی پر مبنی پالیسی کی وجہ سے اپنے ہمسایہ ممالک کے لیے خطرے کی علامت بنا رہتا ہے۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت تو یہی ہے خطہ جنوبی ایشیاء کا کوئی ملک ایسا نہیں جو بھارت کے رویے سے کسی نہ کسی طرح نالاں نہ ہو۔ رہا پاکستان تو اس کے ساتھ تو اسکی تقسیم ہند کے وقت سے چپقلش چلی آرہی ہے۔ جسکی سب سے بڑی وجہ تنازعہ کشمیر ہے اور دونوں کی تین جنگیں ہو چکی ہیں۔جبکہ معرکہ کارگل بھی تقریباً جنگ کے قریب قریب کی بات تھی بلکہ اگر جانی ومالی نقصان کے حوالے سے دیکھا جائے تو جنگ سے کم نہیں تھا۔
روایتی ہتھیاروں میں بھارت کی برتری پاکستان کو مجبور کر دے گی کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایٹمی اسلحہ پر انحصار کرے اور جب کوئی ایسا موقع آئے کہ اسکی قومی سلامتی خطرے میں پڑجائے تو اس کے پاس سوائے اس کے کوئی اور چارہ نہ رہے کہ وہ اپنے بچاؤ کے لیے جوہری اسلحہ استعمال کرنے پر مجبور ہوجائے۔