میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاناما پیپرز۔۔حقائق کیسے طشت از بام ہوئے۔دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی(قسط نمبر32 )

پاناما پیپرز۔۔حقائق کیسے طشت از بام ہوئے۔دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی(قسط نمبر32 )

منتظم
بدھ, ۲ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

پاناما انکشافات پر مالٹا کے وزیر اعظم، اسپین کے وزیرصنعت استعفیٰ دینے پر مجبور ہوگئے
برطانوی وزیراعظم کیمرون نے اپنے والد کے آف شور فنڈ سے مستفید ہونے کااعتراف کیا جس کے بعد ہزاروں مظاہرین لندن کی سڑکوں پر نکل آئے اور استعفے کامطالبہ شروع کردیا
تلخیص وترجمہ : ایچ اے نقوی
ہمارے برطانوی ساتھی نے اپنی تحقیق کے پہلے ہی مرحلے میں بلیر مور ہولڈنگز کا پتہ چلالیاتھا ،یہ ایک سرمایہ کاری فنڈتھا جوبرطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے والد ایان کیمرون نے 1982 میں پاناما میں قائم کی تھی۔ہمارے لیے یہ دوسرے بہت سے معاملات میں سے ایک تھا۔یقینا ًیہ ایک سنسنی خیز انکشاف تھا کیونکہ اس میں وزیراعظم کے والد ملوث تھے۔ اب ہمارے سامنے سوال یہ تھا کہ کیا کسی کے بیٹے کو باپ کے جرم کی سزا دی جاسکتی ہے، ظاہر ہے کہ اس کاجواب نفی میں تھا،لیکن ہم نے اس حوالے سے جس پہلوپر غور نہیں کیاتھا وہ پہلو یہ بھی تھا کہ ڈیوڈ کیمرون اپنے والد کے اس کاروبار سے جو ٹیکس بچانے کیلیے قائم کیاگیاتھا مستفید ہوتے رہے ہوں گے اس طرح وہ شریک جرم قرار دیے جاسکتے تھے۔
پاناما پیپرز کے انکشاف کے پہلے دن ڈیوڈکیمرون کے ترجمان نے اس فنڈ کے بارے میں یہ کہہ کر اس حوالے سے سوالات کاجواب دینے سے انکارکردیا کہ یہ نجی مسئلہ ہے۔ لیکن اس کے دوسرے ہی دن ڈیوڈ کیمرون نے ذاتی طورپر بیان دیا ،ابتدائی بیان انتہائی واضح معلوم ہورہاتھا۔ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے واضح طورپر اعلان کیا کہ ان کے کسی آف شور کمپنی میں کوئی شیئر نہیں ہیں، ان کا کسی آف شور کمپنی میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ وزیراعظم کے دفتر سے بھی اسی دن ایک تحریری بیان شائع کیاگیا جس میںیہ واضح کیاگیا کہ وزیر اعظم ،ان کی اہلیہ اور ان کے بچوں نے آف شور فنڈز سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔وزیراعظم کے اس میںکوئی شیئرز نہیں ہیں،اس انکشاف کے تیسرے دن وزیراعظم کیمرون کے پبلک ریلیشن اسپیشلسٹ نے اس حوالے سے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم کی زیر ملکیت کوئی آف شور فنڈز یا ٹرسٹس نہیں ہیں جس سے مستقبل میں وزیراعظم کی اہلیہ یا ان کے بچے استفادہ کرسکیں۔ بعد ازاں وزیر اعظم کیمرون نے ذاتی طورپر زمانہ حال اور مستقبل کے حوالے سے کسی بھی آف شور کمپنی سے کوئی فائدہ حاصل نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی۔وزیر اعظم کیمرون نے آئی ٹی وی نیوز پر انٹر ویو دیتے ہوئے بتایا کہ ہمارے پاس بلیرمور ٹرسٹ کے 5ہزار یونٹس تھے جو ہم نے جنوری 2010 میں فروخت کردیے تھے۔ وزیراعظم نے اپنے والد کے آف شور فنڈ سے مستفید ہونے کااعتراف کیا ۔ان کے اس اعتراف کے بعد ہزاروں مظاہرین لندن کی سڑکوں پر نکل آئے اوران سے استعفیٰ کامطالبہ شروع کردیا۔
ایک طرف لندن میں برطانوی شہری اپنے وزیر اعظم سے استعفیٰ کامطالبہ کررہے تھے اور ٹھیک اسی وقت مالٹا میں ہزاروں افراد اپنے وزیراعظم کے دفتر کے سامنے جمع ہوکر جوزف مسقط سے استعفیٰ کامطالبہ کررہے تھے۔مظاہرین جو بینر اٹھائے ہوئے تھے اس میں مطالبہ درج تھا کہ حکومت اقتدار چھوڑ دے، مالٹا میں بھی صورتحال آئس لینڈ جیسی ہی تھی، مالٹا کے وزیراعظم مسقط کے اتحادی اور قریبی ساتھی مالٹا کے توانائی اور صحت سے متعلق امور کے وزیر کونراڈ میزی، اور چیف آف اسٹاف کیتھ شیمبری نے مالٹا کے ٹیکس حکام سے اپنے اثاثے چھپائے تھے،انھوںنے اپنے اثاثے اور دولت چھپانے کیلیے پاناما کی کمپنیوں اور نیو زی لینڈ کے ٹرسٹس کاسہارا لیاتھا ان دونوں نے کمپنیوںاور ٹرسٹس کامالک ہونے کا اعتراف کیا۔تاہم انھوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ انھیںیہ معلوم نہیں تھا کہ مالٹا کے ٹیکس حکام کے سامنے یہ اثاثے ظاہر کرناضروری ہے۔28اپریل کو مالٹا کے وزیر اعظم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا اور انھیں وزیر بے محکمہ بنادیاگیا۔
اسپین میں وزیر صنعت جوز مینول سوریا آف شور کمپنیوں کی ملکیت کے بارے میں عوام کو مطمئن کرنے کی کئی دن کی کوششوں میںناکامی کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہونے پر مجبورہوئے۔ انھوں نے لوگوں کو یہاں تک باور کرانے کی کوشش کی کہ پاناما پیپرز میں جو نام سامنے آیا ہے وہ میں نہیں بلکہ میرا کوئی ہم نام ہے لیکن ان کا یہ حربہ بھی کارآمد ثابت نہیں ہوا۔
ڈنمارک میں ملک کے 3بڑے بینکوں نورڈی، ڈنسکے بینک اور جسکے بینک کے ڈائریکٹروں کو پارلیمانی کمیشن کے سامنے جوابدہی کیلیے طلب کیاگیا۔فن لینڈ کی سیاسی پارٹیوں کے متعدد ارکان اور ملک کی انتہائی بااثر یونین نے نورڈی بینک میں اپنے اکاﺅنٹ بند کرادیے، آسٹریا اور ہالینڈ کے سینئر بینکاروںکو اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینے پرمجبور ہوناپڑا۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے چلی شاخ کے سربراہ کا نام بھی پاناما پیپرز میں سامنے آچکاتھاجس سے ظاہرہوتاتھا کہ وہ کم ازکم5 آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں ۔اس لیے انھیںبھی اپنے گھر کی راہ لیناپڑی۔فیفا کی اخلاقیات کمیٹی کے بانی جوآن پیڈرو ڈامیانی پر پاناما پیپرز میں یہ الزام سامنے آیا کہ ان کے فیفا کے 3 ملزم قرار پانے والے عہدیداروں کے ساتھ کاروباری مراسم تھے جس پر انھوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا۔
پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنےکے چند گھنٹے بعد ہی چین میں پاناما پیپرز کی اصطلاح کو ہی سینسر کردیاگیا۔ایک وکیل کو ایک تصویر شیئر کرنے پر جس میں کمیونسٹ پارٹی کے 2سابق رہنماﺅں ژی جن پنگ اور ڈینگ ژیاﺅ پنگ اور جیانگ زرمن کو پاناما کینال کے قریب چہل قدمی کرتے دکھایاگیاتھا گرفتار کرلیاگیا۔
ہانگ کانگ میں پاناما پیپرز کے انکشاف کے چندگھنٹے کے اندر ہی منگ پاﺅ نامی اخبار کے ایگزیکٹو چیف ایڈیٹر کیونگ کوووک یوئنکو کو اخراجات میں کٹوتی کابہانہ کرکے برطرف کردیاگیا۔پاناما میں ہمارے ساتھیوں کو پاناما پیپرزکی اشاعت رکوانے کیلیے پرتشدد مداخلت کے خوف سے پاناما پیپرز کے حوالے سے انکشافات کو خفیہ مقام پر چھاپنا پڑا۔وینزویلا میں ہماری ایک ساتھی کو اس کی حکومت کے حامی اخبار الٹیمس نوٹیسیازکی انتظامیہ نے پاناما پروجیکٹ میں شریک ہونے کے الزام میںبرطرف کردیا۔
تیونس میں ہمارے ساتھی کے آن لائن میگزین ”انکفادہ“ میں صدر کے سابق مشیر کے آف شور تعلقات کے حوالے سے خبر دینے پر اس کی ویب سائٹ پر ہیکرز نے حملہ کردیا۔ایکواڈو ر کے صدر رافیل کورریا نے پاناما پیپرز کی تفتیش میں ملوث صحافیوں کے نام ٹوئٹ کردیے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں