میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
رام پُنیانی اور پاکستانی وزیر

رام پُنیانی اور پاکستانی وزیر

منتظم
بدھ, ۲ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

iqbal-dewan-copy

محمد اقبال دیوان
رام پنیانی کا تعلق بھارت سے ہے۔ پیشے کے لحاظ سے اولاً ڈاکٹر اور ثانیاً بایو میڈیکل انجینئر ہیں، پرچار کے حساب سے البتہ تاریخ کے ذرا وکھرے طالب علم ہیں۔ تاریخ کا تو کئی اور لوگ بھی مطالعہ کرتے ہیں مگر وہ اپنے اس مطالعے کو کھینچ کھانچ کر غلط فہمیاں دور کر نے میں استعمال کرتے ہیں۔ایسی گنجلک اور متعصب غلط فہمیاں جو کوئی مسلمان یا عیسائی بیان کرے تو سارا بھارت اس پر تھو تھو کرے۔رام پنیانی صاحب کو اندرا گاندھی ایوارڈ برائے قومی یک جہتی بھی مل چکا ہے۔وہ بین المذاہب ہم آہنگی کے بڑے داعی ہیں۔
پاکستانی وزیر کا تذکرہ ہم نے یہاں پتھر کے اس غیر مستند باٹ کے طور پر کیا ہے جو ریڑھی والے اور چھابڑی والے وزن برابر کرنے کے لیے دوسرے پلڑے میں ڈال دیتے ہیں۔ اس سے سودے کا وزن اور غریب تاجر کا ایمان دونوں ہی سلامت رہتے ہیں۔اب ایمان کی فکر صرف اسی سطح پر پائی جاتی ہے۔
تاریخ کے بارے میں مختلف باتیں کہی جاتی ہیں۔ چرچل کہتے تھے کہ تاریخ فاتحین لکھتے ہیں۔پنیانی صاحب البتہ بھارت کی اکثریت کو، جولیس سیزر کے دوست رومی فلاسفر سیسرو کے قول کی روشنی میں یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر آپ اس حقیقت کا کھوج نہیں لگائیں کہ ماضی میں کیا کچھ ہوا تو اس کا امکان ہے کہ آپ ساری عمر ذہنی طور پر ایک نادان بچہ ہی رہیں۔
تاریخ کا آپ جائزہ لیں تو یہ بڑی حد تک آراء(Opinions) پر مبنی حقائق کا بیان ہوتی ہے۔ ان حقائق کی اپنی ذہنی کیفیت اور مفاد کے حساب سے زاویہ نگاری (Angling)کی جاتی ہے۔ سو فیصد حقائق جیسے دو جمع دو برابر چار ،صرف سائنس کے چند مضامین بالخصوص ریاضی میں ابتدائی سطح پر بیان ہوتے ہیں بعد میں فارمولے لگا کر ان سے بھی بہت کھلواڑ کی جاتی ہے۔دنیا کی کوئی تاریخ Absolute Truth نہیں۔
اسلام آباد میں دو نومبر والے دھرنے کے الیکٹرونک میڈیا کے اپنے دکھائے ہوئے مناظر کو بھی اگر بعد کا مورخ بیان کرے گا تو اس کے تین زوایے ہوں گے اور ہر زاویہ اپنی جگہ پر درست ہوگا۔وہ اگر حکومت کے حامی گھرانوں کا چشم و چراغ ہے تو کہے گا کہ ایک آئینی طور پر منتخب حکومت کو احتجاج اور جلاﺅ گھیراﺅ کے ذریعے ختم کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔وہ اگر پی ٹی آئی کے کیمپ کا ہے تو پرویز ر شید کو قربانی کے بکرے کی بجائے قربانی کا گدھا کہے گا کیوں کہ نون لیگ کے ہاں گدھے کی قربانی جائز ہے۔ جب ہی تو ان کے وزیر تجارت خرم دستگیر نے اسی سال سات جنوری کو بھری اسمبلی میں بیان دیا تھا کہ ان کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی 199,860 گدھوں کی کھالیں باہر ملک بھیجیں۔ان کا گوشت کہاں گیا؟
کس کو خبر ہے میر سمندر پار کی
جبھی تو باہو شاہ نے کہا تھا کہ
سیاست داناں دے ٹڈ سمندروں ڈونگے (گہرے)
کون ٹّڈاں جی جانے ہُّو
تیسرا زاویہ عوام کا ہوگا جو تاریخ کے طالب علموں کی نگاہ میں اہل کوفہ کی مانند اقتدار والوں کے ساتھ مصلحت کی خاک اور تلاش عافیت کا ہوگا۔
ڈاکٹر رام پنیانی کا مطالعہ ایک طرح سے مفتوحین کا رویہ ہے لیکن اس میں انہوں نے ایک نئی زمین نکالی ہے۔ وہ فاتحین کے بارے میں پائے جانے والے متعصبانہ نقطہءنگاہ پر تحقیق کی تلوار سونت کر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اس دوران وہ اپنا لب و لہجہ دھیما رکھتے ہیں۔گاہے بہ گاہے وہ اپنے سامعین کے اذہان میں برسوں سے ٹھونسے ہوئے اسباق و نظریات پر بچوں کے سے مزاح کا پھوار بھرا چھڑکا ﺅ بھی کیے جاتے ہیں۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ ہندوتوا کے رنگ میں رنگے بھارت واسیوں کے نزدیک مغلوں میں اکبر اچھا بادشاہ تھا۔ دین اسلام سے ہٹ کر وہ رواداری کو بہت فروغ دیتا تھا۔ اس سے بہت پہلے آنے والا محمود غزنوی اور بہت بعد میں بادشاہت کا منصب سنبھالنے والا اورنگ زیب بہت برا تھا۔ وہ مندر ڈھاتے ،ہندووں کا مال لوٹتے تھے اور انہیں زبردستی مسلمان بناتے تھے۔ یہ تاریخ کے وہ اسباق ہیں جو ہندوستان میں ہر طالب علم اور ہر استاد نے اپنے ذہن میں سمو رکھے ہیں۔
سب سے پہلے ڈاکٹر رام پنیانی نے سلطان محمود غزنوی کو بطور موضوع بحث منتخب کیا۔ یمین الدولہ ابوالقاسم بن سبکتگین نے غزنی سے اپنی سلطنت کے پھیلاﺅ کے لیے فتوحات کا آغاز کیا۔سن 1001 میں اس نے سب سے پہلے راجہ جے پال کو پشاور میں شکست دی۔ اس کا بیٹا آنند پال جو لاہور کا حکمراں بنا اس کو سات سال بعد ہرایا اور سن 1025 میں اس نے سومنات فتح کیا۔
غزنی جہاں سے سلطان محمود غزنوی (وہ پہلا بادشاہ تھا جس نے اپنے نام میں ترکی کا لقب سلطان شامل کیا) نے اپنی فتوحات کا آغاز کیا،وہاں سے سومنات تک کا اس زمانے کا زمینی سفر پانچ ہزار کلو میٹر بنتا ہے۔ تب تک موٹر ویز اور بائی پاس نہیں بنے تھے۔ ملتان تک جو وہاں پہلے ہی اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ چکا تھا یہ فاصلہ لگ بھگ تین ہزار کلو میٹر کے قریب ہے۔اسے ہم مکمل طور پرنہ تو مسلمان علاقہ کہہ سکتے ہیں نہ کاملاً ہندو علاقہ۔ یہاں ملی جلی آبادی تھی۔گوگل اب یہ فاصلہ کل 1,416 کلو میٹر بتاتا ہے مگر ہم اس نقطے کو اس لیے نظر انداز کرسکتے ہیں کہ ایک ہزار سال میں کئی نئی شاہراہیں تعمیر ہوئی ہیں ، مثلاً مشہور جی ٹی روڈ جو شیر شاہ سوری نے کابل سے کلکتہ تک بنائی وہ کل 2500 کلومیٹر طویل ہے۔اس لیے ڈاکٹر رام کا بیان کردہ فاصلہ لگتا ہے پرانے نقشوں پر محیط اور مبالغہ آمیز نہ سہی پھر بھی تحقیق کی کسوٹی پر کمزور لگتا ہے۔
غزنی سے کچھ ہی فاصلے پر بامیان کا وہ مشہور تاریخی مقام ہے۔جہاں دنیا کے قدیم ترین دیو ہیکل گوتم بدھ کے مجسمے نسب تھے ۔ملتان تک آنے کے لیے اسے بامیان سے ہوکر آنا پڑا تھا ۔یہ دومجسمے آپ کو یاد ہوگا کہ طالبان نے اپنے دور حکومت میں مارچ 2001 میں ڈائنامیٹ سے اڑا دیے تھے۔ دنیا بھر سے (بالخصوص جاپان سے )ان کی تعمیر اور انتظام کے لیے جو امداد آرہی تھی اس سے طالبان اس لیے ناراض تھے کہ ان دنوں وہاں قحط سالی تھی۔ جس کے بارے میں مہذب دنیا لاتعلق ہوئی بیٹھی تھی۔ بت شکن محمود غزنوی نے بامیان کے ان مجسموں کو ہاتھ تک نہیں لگایا گو یہ محض ڈھائی سو کلو میٹر کے فاصلے پر موجود تھے۔اسی طرح طالبان حق جو افغانستان میں پانچ سال1996 سے 2001 وہ بھی بلا وجہ کے بت شکن نہ تھے بس یوں ہی دنیا کو Shock Treatment دینا چاہتے تھے ۔سوئے ضمیروں کو لات مار کر جگانا چاہتے تھے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ دنیا میں آج کل Shock Economy ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ کبھی ایبولا وائرس آتا ہے تو کبھی ایڈز کی باتیں ہوتی ہیں۔ یہ دوا سازوں کی محبوب صنف معاشیات ہے۔ ہمارے دوست انکم ٹیکس والے میجر اخلاق کہا کرتے تھے جہاز کے کپتان کا دم طوفان کی خبر سے نکالا کرو۔
ڈاکٹر رام پنیانی نے حاضرین سے مل کر حساب لگایا تو ہندوستان میں اوسطاً فی کلو میٹر چھوٹے بڑے پانچ مندر مل جاتے ہیں۔ یوں یہ تعداد سومنات تک پہنچ کر فاصلے کے پرانے تخمینے تک دس ہزار تک جاپہنچتی ہے۔ملتان سے غزنی کا موجودہ فاصلہ موجودہ سڑکوں کی وجہ سے کل ساڑھے چھ سو کلو میٹر کا ہے۔باقی ملتان سے ویراول گجرات کا فاصلہ ہزار کلومیٹر سے اوپر کا ہے۔
ہم اگر ان مندوروں کی تعداد کم کرکے ایک ہزار بھی کردیں تو سومنات تک کے زمینی راستے میں محمود غزنوی نے ان میں سے کسی سے کوئی لوٹ مار نہیں کی۔وہ یقینا کسی لڑاکا جہاز یا اپاچی ہیلی کاپٹروں کی مدد سے گجرات کے قصبے ویراول نہیں پہنچا تھا جہاں سومنات کا مندر واقع ہے۔یہ وہ پہلا وار ہے جو وہ ہندوستان بھر میں محمود غزنوی پر پائے جانے والے تعصب پر بہت دھیمے سے کرتے ہیں۔
اب بات آگے بڑھتی ہے وہ کہتے ہیں کہ وہاں سومنات میں سونے کے بیس ہزار دینار تھے۔ یہ گجرات میں عربوں کے بحری قافلوں سے چرائے گئے تھے۔ سلطان محمود کو اس کی اطلاع تھی۔ اس کی فوج میں 35 فی صد ہندو شامل تھے۔اس فوج کے بارہ دستوں میں سے پانچ کے کمانڈر ہندو جرنیلوں کے نام سوندھی،تلک،ہرجان،رانڈھ اور ہند تھے۔ ان جرنیلوں نے اس کی معاونت ملتان میں بھی وہاں کے مسلمان حاکم عبدالفتح داﺅد کے خلاف اسی دل بستگی سے کی تھی جس طرح انہوں نے سومنات پر باقی مسلمان فوج کے ساتھ کی تھی۔ملتان کی اس جنگ میں جب عبدالفتح داﺅد نے جامع مسجد میں پناہ لی تو محمود کی فوج نے اسے بھی تاراج کردیا تھا۔
یہاں وہ کشمیر کے ایک راجہ ہرش دیو کا بھی حوالہ دیتے ہیں جن کا ایک محکمہ دیوت پتن نائیک کا کام ہی یہ تھا کہ جس عبادت گاہ میں بھی سونے اور جواہر سے مزین دیوتا اور خزائن ہوں انہیں مسمار کرکے دولت کو سرکاری خزانے میں جمع کرادیا جائے۔ ابتدائے تاریخ سے عبادت گاہوں میں اس طرح کے ذخائر جمع ہوتے رہے اور انہیں لوٹا جاتا رہا یہ کوئی نئی بات نہیں،روم اور بابل کے شہنشاہوں نے فلسطین میں دو مرتبہ ہیکل سلیمانی کو لوٹا جہاں اس طرح کے خزانوں کے ڈھیر تھے۔پچھلے دنوں بھی ممبئی میں ایک مشہور مندر ہے جس کا نام ہے سدھی ونائیک مندر۔ یہاں ان کے خوش قسمتی کے ہاتھی کے منھ اور انسانی دھڑ والے دیوتا گنیش(گنپتی باپا) کی پوجا ہوتی ہے۔اس مندرکو سالانہ عطیات کی صورت میں 2.2 ملین ڈالر ملتے ہیں جو بھارت کے 15 کروڑ روپے بنتے ہیں۔اس کے کاروبار سے جمع شدہ رقم کی مالیت اربوں روپے ہے۔اس کے انتظامی امور پر جب ٹھاکرے کی شیو سینا نے قبضے کا سوچا تو بہت دنگا فساد مچا ۔اسی طرح ان کی ریاست آندھرا پردیش کے ایک مندر تروپاتھی بالا جی کی سالانہ آمدنی محض جمع شدہ پونجی سے حاصل ہونے والے سود کے حساب سے دو سو کروڑ روپے ہے۔اس کے قریب ایک گاﺅں میں صرف مقامی خواتین رہتی ہیں جو مندر کے لیے کھانے پینے کی اشیا اور پھولوں کا انتظام کرتی ہیں اور اپنی پوترتا (پاکیزگی) کے اہتمام میں ہمہ وقت حالت برہنگی میں رہتی ہیں۔ اس گاﺅں میں کسی غیر مقامی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں۔
ہندوستان میں اورنگ زیب کو بدترین متعصب حکمران سمجھا جاتا ہے۔اسی اورنگ زیب کی اپنے ایک ماتحت مسلمان حکمران گولکنڈہ کے تانا شاہ سے خراج کی رقم کی ادائیگی پر جھگڑا ہوگیا۔وہ تین سال سے مختلف حیلے بہانوں سے خراج پیش نہیں کررہا تھا۔اس نے یہ جاننے کے لیے کہ تانا شاہ اپنی دولت کہاں چھپائے بیٹھا ہے جاسوس بھیجے اور جب اسے بتایا گیا کہ یہ ساری دولت محل سے متصل مسجد قطب شاہی میں چھپائی گئی ہے۔دولت کے حصول کے لیے مسجد کی اینٹ سے اینٹ پاکباز اورنگ زیب کے حکم پر بجادی گئی۔
ہم اب بہت کچھ پڑھنے اور دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اہل مال و منال، صاحبان حسن و جمال ، کوچہءطاقت و اقتدار کے باسیوں کی اکثریت، اخلاقیات اور حسن عمل و کردارسے اتنی ہی پرے ہوتی ہے جتنی مریخ کا سیارہ ہماری زمین سے پرے خلاﺅں میں چکر لگا رہا ہے۔
یاد رکھیں خلفائے راشدین کے بعد جتنے بھی مسلمان حکمراں مسند اقتدار پر فائز ہوئے وہ اتنے ہی اچھے یا برے تھے جتنے مامون رشید ، محمد تغلق ، نادر شاہ درانی، شہاب الدین غوری، رنجیت سنگھ، اسٹالن ، نہرو، ایوب خان ، جمال عبدالنا صر، چرچل ، گولڈا مئیر، چھوٹے بڑے جارج بش، کلنٹن،واجپائی، سرکوزی، برسکونی ، اوباما اور پیوٹن دکھائی دیتے ہیں۔
لہٰذا بقول قتیل شفائی مرحوم
یارو کسی دشمن سے کبھی پیار نہ مانگو
اپنے ہی گلے کے لیے تلوار نہ مانگو


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں