میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکا ایٹمی اسلحہ کو مزید جدید بنانے کی راہ پر گامزن

امریکا ایٹمی اسلحہ کو مزید جدید بنانے کی راہ پر گامزن

منتظم
بدھ, ۲ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

رابرٹ ڈاج
دنیا بھر میں موجود ایٹمی اسلحہ اس کرہ ارض کے ماحول،انسانی صحت اور ہمارے وجود کے لیے ایک مستقل خطرہ ہیں۔اسی خطرے کو مد نظر رکھتے ہوئے امریکا ،روس اور دنیا کی دیگر تمام ایٹمی قوتوں نے 1968 میں ایٹمی اسلحہ میں معتدبہ کمی کرنے ،ایٹمی اسلحہ کو تلف کرنے اور بالآخر اس دنیا کو ایٹمی اسلحہ سے پاک کردینے کے ایک سمجھوتے پر دستخط کیے تھے، اس معاہدے کے تحت اس میں شریک ممالک نے یہ عہد کیاتھا کہ وہ اب ایٹمی اسلحہ کی تیاری روک دیں گے اور ان کی تعداد میں اضافہ نہیں ہونے دیاجائے گا۔پوری دنیا میں اس معاہدے کاخیر مقدم کیاگیاتھا اور یہ تصور کیاجارہا تھا کہ اس سمجھوتے کے بعد اب پوری دنیا میں اسلحہ کی دوڑ رک جائے گی اور جنگوں کی وجہ سے انسانی زندگیوں کو لاحق خطرات سے نجات مل جائے گی، لیکن
اے بساآرزو کے خاک شد
کے مصداق دنیا بھر کی ایٹمی طاقتوں کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد طے پانے والے اس معاہدے کی اس پر دستخط کرنے والے کسی بھی ملک نے نہ صرف پاسداری نہیں کی بلکہ اس کے چند ہی برسوں کے اندر نت نئے ایٹمی اسلحہ اور میزائلوں کے تجربات بھی شروع کردیے گئے۔
1968 میں بڑی ایٹمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کو آج 48 سال مکمل ہوگئے ہیں لیکن دنیا آج بھی اسی طرح ایٹمی اسلحہ کے ڈھیر پر کھڑی ہے جس طرح 48 سال قبل اس معاہدے کے وقت کھڑی تھی ۔بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ گزشتہ 48 سال کے دوران دنیا کے کئی اور ممالک بھی ایٹمی اسلحہ تیار اور ذخیرہ کرنے والے ممالک میں شامل ہوگئے ہیں۔ اس طرح بنی نوع انسان کو ایٹمی اسلحہ کے خطرات سے نہ صرف نجات ملنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی بلکہ دنیا آج پہلے کے مقابلے میں زیادہ خطرناک صورت حال سے دوچار ہے،یہاں تک کہ اب محدود ایٹمی جنگ کی باتیں بھی عام ہوگئی ہیں۔
امریکا میں رواں سال بلکہ رواں مہینے ہونے والے عام انتخابات کی مہم کے دوران بھی امریکی صدارت کے منصب کے دو بڑے امیدواروں میں سے کسی نے بھی دنیا کو ایٹمی اسلحہ کی وجہ سے لاحق خطرات کو موضوع بحث نہیں بنایا اور دونوں میں سے کسی بھی امیدوار نے دنیا کو جنگوں سے محفوظ کرنے کے لیے کسی لائحہ عمل کا اعلان نہیں کیا۔ اس کے برعکس دونوں امیدواروں کی تقریروں اور مباحثوں سے ظاہر ہوتاہے کہ انھیں نہ صرف یہ کہ جنگوں کی وجہ سے بنی نوع انسان اور خود امریکا کو پہنچنے والے متوقع نقصان کی کوئی فکر نہیں ہے بلکہ وہ برسراقتدار آنے کے بعد اس طرح کی جنگوں کے امکانات وخدشات میں اضافہ کرسکتے ہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ روس اور امریکا یوکرائن اور شام میں ایک دوسرے سے بالواسطہ طورپر برسرپیکار ہیں اگرچہ ابھی تک ان دونوں مناقشوں میں صورتحال اس حد تک کنٹرول میں رہی ہے کہ دونوں طاقتوں نے ایک دوسرے کو براہ راست للکارنے سے گریز کیا ہے لیکن یہ دونوں ایسے سلگتے ہوئے محاذ ہیں جہاں کسی بھی وقت ان میں سے کوئی بھی طاقت ذرا سے عدم تحمل کاشکار ہوکر ایٹمی اسلحہ آزمانے کی حماقت کرسکتاہے،اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ دونوں میں سے کسی بھی ملک کی جانب سے محدود پیمانے پرایٹمی اسلحہ کے استعمال سے کرہ ارض کے کم وبیش2ارب انسان موت کا شکار ہوجائیں گے اور دنیا کاوسیع وعریض علاقہ ہر طرح کے قدرتی نباتات اور حیوانات سے محروم ہوجائے گا۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت پوری دنیا کے تمام ممالک خواہ ان کے پاس ایٹمی اسلحہ ہو یا نہ ہو ہلاکت خیز جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں اور اس سے امریکا ،روس ، برطانیہ ، فرانس سمیت کسی بھی ملک کے باشندے محفوظ نہیں ہےں ۔امریکا روس اور دیگر ایٹمی طاقتوں کے رہنما بھی اس حقیقت سے ناواقف نہیں ہیںلیکن ایسا محسوس ہوتاہے کہ چھوٹے غیر ایٹمی ممالک کے مقابلے میں بڑے ایٹمی ممالک کے رہنما آج ایٹمی اسلحہ کے انبار جمع کرلینے کے باوجود شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں اور عدم تحفظ کا یہی احساس انھیں ایٹمی اسلحہ کی تباہ کاریوں کو احساس ہونے کے باوجود ان میں کمی کے لیے اقدامات کی راہ میں رکاوٹ بناہواہے۔
امریکا میں گزشتہ ہفتے بڑی ایٹمی طاقتوں کے رہنماﺅں کے اجلاس میں ایک دفعہ پھر ایٹمی اسلحہ میں کمی اور ایٹمی اسلحہ کی تیاری کی دوڑ کو مسدود کرنے کے سوال پر تبادلہ خیال کیا گیااور اس دوران یہ ضرورت ابھر کر سامنے آئی کہ 1968 کو ایٹمی اسلحہ میں تخفیف اور ان کو تلف کرنے کے حوالے سے ہونے والے معاہدے کی عدم تکمیل کے بعد اب اس حوالے سے ایٹمی ممالک کے درمیان ایک نئے اور قابل عمل معاہدے کی ضرورت ہے۔اس اجلاس میں شریک کم وبیش 128 ممالک کے رہنماﺅں نے اس بات پر اتفاق کیاہے کہ ایٹمی اسلحہ میں کمی اور ان کو تلف کرنا پوری دنیا کی اولین ضرورت ہے اور اس ضرورت کے اظہار کے ساتھ ہی ان ممالک نے اگلے سال یعنی امریکا کے صدارتی انتخابات کے بعد نئے صدر کے مسند نشین ہونے کے بعد اس مسئلے پر از سر نو گفت وشنید شروع کرنے پر اتفاق کیاہے ،لیکن اجلاس میں شریک امریکی نمائندے نے ایٹمی اسلحہ میں تخفیف یا اس کی تیاری روکنے کے اس خیال سے عدم اتفاق کیا حالانہ امریکا کے موجود ہ صدر بارک اوباماخود2009 میں ایٹمی اسلحہ کے ذخائر محدود کرنے کی ضرورت کا اظہار کرچکے ہیں۔
امریکا نے نہ صرف یہ کہ ایٹمی اسلحہ میں تخفیف کی تجویز سے ہی عدم اتفاق نہیں کیا بلکہ ایٹمی اسلحہ کی تیاری روکنے کے اس خیال کے برعکس ایٹمی اسلحہ کو مزید جدید اور تباہ کن بنانے اور نئے ایٹمی اسلحہ کی تیاری کے لیے اگلے 30 سال کے دوران ایٹمی اسلحہ کی تیاری اور انھیں جدیدتر بنانے پر ایک کھرب ڈالر خرچ کرنے کا اعلان بھی کردیاہے۔امریکا کے اس اعلان کے بعد خدشہ اس بات کا ہے کہ اب تمام ایٹمی طاقتیں اپنے ایٹمی اسلحہ کو زیادہ جدید اور مہلک بنانے کے پروگرام تیار کریں گے اور اس پر عملدرآمد کے لیے اربوں کھربو ں ڈالر خرچ کرنے سے گریز نہیں کریں گے اس سے یہ ظاہرہوتاہے کہ بڑی طاقتوں کو انسانوں کو ہلاکت سے محفوظ رکھنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور وہ صرف اپنی بالادستی قائم کرنے کی دوڑ میں مصروف ہیں اور اس دوڑ میں امریکا سب سے پیش پیش ہے۔
بڑی طاقتوں کایہ رویہ یقینا پوری دنیا کے انسانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ خود امریکا اور دوسرے ایٹمی ممالک کے عوام کے لیے بھی لمحہ فکریہ سے کم نہیں ۔ان کایہ رویہ انسانیت کے تحفظ اور ان کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنے کے ان کے دعووں کے قطعی برعکس ہے ،تاہم اب یہ کام خود ان ممالک کے عوام کا ہے کہ وہ پوری دنیا پر بالادستی کے حوالے سے اپنے رہنماﺅں کی جانب سے دکھائے گئے خوابوں کی چکاچوند کاشکار ہونے کے بجائے انسانیت کی بھلائی اور بقا کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوںکو سمجھنے کی کوشش کریں اوراپنے رہنماﺅں کو ٹیکسوں کی صورت میں ان کی ادا کردہ دولت کو انسان کی تباہی کے سامان تیار کرنے کی دوڑ میں شریک ہونے سے روکنے کی کوشش کریں،یقینا عوام کی طاقت ہی دنیا میں سب سے بڑی طاقت ہے اور اگر تمام ممالک کے ممالک انسانیت کے ناتے جنگ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تو یہ دنیا ایک دفعہ امن کاگہوارہ بن سکتی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں