میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
الیکشن کمیشن کی ساکھ اور حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست

الیکشن کمیشن کی ساکھ اور حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست

جرات ڈیسک
پیر, ۲ اکتوبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) نے گزشتہ دنوں اپنے اعلان کے مطابق حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست جاری کردی ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ حلقہ بندیوں پر تجاویز اور اعتراضات 28/ ستمبر سے 27 اکتوبر تک دائر کرائے کی مہلت دی گئی ہے، اور اعلان کیاگیاہے کہ اس دوران موصول ہونے والے اعتراضات پر 26 نومبر تک فیصلہ کردیا جائے گا اور پھر 30 نومبر کو حتمی حلقہ بندیوں کی فہرست جاری کی جائے گی۔الیکشن کمیشن نے اعلان کیاہے کہ نئی حلقہ بندیوں کے باوجود قومی و صوبائی اسمبلیوں کی سابقہ تعداد ہی برقرار رہے گی اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کی موجودہ نشستیں ہی یعنی قومی اسمبلی کی 266، پنجاب اسمبلی کی 297، سندھ اسمبلی کی130، بلوچستان اسمبلی کی 51 اور خیبرپختونخوا  اسمبلی کی 115 نشستیں برقرار رہیں گی۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق کسی بھی صوبے کی کل نشستوں کو ووٹروں کی مجموعی تعداد کے ساتھ تقسیم کرکے ہر حلقے میں کوشش کی گئی ہے کہ مساوی ووٹرز ہوں تاہم بلوچستان میں کئی نشستیں مختلف اضلاع پر بھی مشتمل ہیں۔قومی اسمبلی کی پنجاب میں ایک نشست کے لیے آبادی کی کم سے کم تعداد 9 لاکھ 5 ہزار 595، سندھ کے لیے 9 لاکھ 13 ہزار 52، خیبرپختونخوا کے لیے 9 لاکھ 7 ہزار 913، بلوچستان کے لیے 9 لاکھ 30 ہزار 900 جبکہ اسلام آباد کے لیے 7 لاکھ 87 ہزار 954 رکھی گئی ہے۔اسی طرح پنجاب اسمبلی میں جنرل نشست کے لیے 4 لاکھ 29 ہزار 929، سندھ کے لیے 4 لاکھ 28 ہزار 432، خیبرپختونخوا کے لیے 3 لاکھ 55 ہزار 270 جبکہ بلوچستان کے لیے 2 لاکھ 92 ہزار 47 رکھی گئی۔حلقہ بندی کی رپورٹ کے مطابق 2023 کی مردم شماری کے حتمی نتائج کی بنیاد پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے حصے پر کام کیا گیا ہے۔پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ صوبے یا علاقے کی آبادی کو جنرل نشستوں کی کل تعداد سے تقسیم کیا گیا ہے اور قومی اسمبلی کی فی نشست، اوسط آبادی یا کوٹہ حاصل کیا گیا ہے، اسی طرح ایک صوبے کی آبادی کو صوبائی اسمبلی کے لیے مختص کردہ جنرل نشستوں کی کل تعداد سے تقسیم کیا گیا ہے۔کمیشن نے کہا کہ نشستوں کی کل تعداد کا حساب لگاتے ہوئے 0.5 اور اس سے اوپر کے فریکشن کو عام طور پر ایک نشست کے طور پر لیا گیا ہے اور 0.5 سے نیچے کے فریکشن کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
آئین کی پاسداری کے نام پر انتخابات کی تاریخ آگے بڑھانے کے ڈھونگ کے ڈیڑھ ماہ بعد الیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ عام انتخابات موجودہ ووٹر لسٹوں پر ہوں گے۔ صوبائی اور قومی اسمبلیوں کی موجودہ نشستیں برقرار رہیں گی، الیکشن کمیشن نے30 نومبر کو حتمی حلقہ بندیوں کی فہرست جاری کرنے کااعلان کرتے ہوئے یہ ظاہر کیاہے کہ اس نے جادوئی انداز میں تمام کام مکمل کرکے نئی حلقہ بندیوں کی فہرست وعدے کے مطابق 27 ستمبر کو جاری کردی ہے، اس سے قبل بھی الیکشن کمیشن نے کچھ قوانین میں ردوبدل کی خبر جاری کی تھی جس میں سیاسی پارٹی کو بھاری فنڈ دینے والے کے کوائف مانگے گئے تھے۔ اس کے علاوہ پارٹیوں کو گوشوارے داخل کرانے کے حوالے سے ہدایات دی گئی تھیں لیکن تازہ اعلان اور سابقہ اعلان میں ایسا کوئی اعلان شامل نہیں تھا جس سے ایسا محسوس ہوسکے کہ انتخابات شفاف، منصفانہ اور آزادانہ ہوں گے اور کسی کے مطلوبہ نتائج کے لیے نہیں ہوں گے۔
اگرچہ الیکشن کیلئے پیش رفت شدید حبس میں تازہ ہوا کا جھونکا کہا جاسکتاہے لیکن الیکشن کمیشن کے جاری کردہ شیڈول سے ظاہرہوتاہے کہ الیکشن میں جان بوجھ کر تاخیر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے،پاکستان مسلم لیگ ن کو اس وقت جس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے،اگر چیف الیکشن کمشنر واقعی غیر جانبدار ہوکر سوچتے تو وہ الیکشن کو کم از کم ایک ماہ قبل بھی کراسکتے تھے اس کیلئے انھیں حلقہ بندیوں پر تجاویز اور اعتراضات وصول کرنے اور ان پر فیصلہ کرنے کی مدت میں صرف 20-20 دن حتمی فہرستوں کے اجرا کی تاریخ میں 2 دن کی کم کرنا پڑتی کیونکہ اعتراضات وصول کرنے کیلئے اور ان فیصلہ کرنے کیلئے اتنی طویل مدت کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں ہے،جسے واقعی حلقہ بندیوں پر اعتراض ہوگا وہ یہ اعتراض فہرست کے اجراکے دوسرے دن ہی جمع کراسکتاہے،اسی طرح اعتراضات کی سماعت کیلئے کسی لمبی چوڑی تیار ی کی ضرورت نہیں ہوتی اعتراض پر الیکشن کمیشن کے حکام اپنا موقف واضح کرکے ایک دن میں ہی اس کا فیصلہ کرسکتے ہیں لیکن یہ سب کچھ اس وقت ہوسکتاہے جب نیت صاف ہو اور انتخابات جلد ازجلد کراناہی مقصد ہو لیکن اگر مقصد ہی انتخابات میں تاخیر کرنا ہے تو اس کیلئے مزید حیلے بہانے گڑھے جاسکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن نے کراچی کے ضمنی بلدیاتی انتخابات کونسلروں اور چیئرمین اور وائس چیئرمین کے انتخابات کے لیے5نومبر کی تاریخ مقرر کی ہے اور مخصوص نشستوں کے اعلان کیلئے 2اکتوبر کادن مقرر کیا ہے۔اس سے الیکشن کمیشن کے سربراہ کی اہلیت اور ان کے عملے کی کارکردگی کا اندازہ لگایا جاسکتاہے اور یہ سوال پیدا ہونے فطری ہے کہ جس الیکشن کمیشن سے اب تک کراچی کا بلدیاتی انتخاب مکمل نہیں ہوسکا ہے وہ عام انتخابات کیونکر شفاف اور آزادانہ انتخاب کراسکے گا۔ میئر ڈپٹی میئر کے انتخاب کے موقع پر جو کچھ ہوا وہ بھی ساری دنیا نے دیکھا، لیکن الیکشن کمیشن کسی بھی بے ضابطگی سے لاعلم معلوم ہوتاہے۔ موجودہ الیکشن کمیشن کی جانبداری کا تاثر اس امر سے بھی ملتا ہے کہ نگراں حکمرانوں کی جانب سے ملک کی ایک سب سے مقبول پارٹی اور اس پارٹی یا لیڈر کا نام لے کر یہ کہا گیاکہ اس کے بغیر بھی انتخابات ہوسکتے ہیں اور الیکشن کمیشن نے نہ صرف یہ کہ اس کاکوئی نوٹس لینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی بلکہ اس حوالے سے کوئی وضاحت بھی نہیں کی۔ الیکشن کمیشن کو نگراں وزیراعظم سے یہ سوال کرنا چاہئے تھا کہ انھوں نے کس بنیاد پر یہ فیصلہ سنا دیا اور ان کو اس کااختیار کس نے دیا کہ وہ کسی پارٹی یا اس کے قائد اور بعض کارکنوں کو نااہل قرار دے سکیں۔ اگر عمران خان کسی وجہ سے نااہل ہو جائیں تو اور بات ہے ابھی ایساکچھ بھی نہیں ہوا، نگراں وزیراعظم نے فیصلہ سنا دیا یہ الیکشن کمیشن اور عدالتوں کی توہین ہے لیکن دو دن گزرنے کے باوجود کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ اس کا مطلب یہی نکالا جائے گا کہ وہی ہونے جارہا ہے جو نگراں وزیراعظم نے کہا ہے، تو پھر الیکشن کمیشن خود مختاری کی تہمت لے کر کیوں بیٹھا ہے۔ نگراں وزیراعظم نے اس تناظر میں یہ بات کہی ہے کہ عمران خان کی کامیابی روکنے کے لیے فوج پر نتائج میں ہیرا پھیری کرنے کا الزام لگایا جارہا ہے،یہ بات مضحکہ خیز ہے۔ اس پر بھی دونوں طرح الیکشن کمیشن کو نوٹس لینا چاہیے تھا کہ اس کے دائرہ اختیار میں فوج کیونکر مداخلت کرے گی۔ یہ ساری باتیں صرف نگراں حکومت کی نیتوں پر شبہات نہیں بڑھا رہیں بلکہ ان سے الیکشن کمیشن کی ساکھ پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ موجودہ صورت حال میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کا یہ کہنا بالکل درست معلوم ہوتاہے کہ صاف اور شفاف انتخابات دراصل الیکشن کمیشن کا امتحان ہیں اور اب تک الیکشن کمیشن اس حوالے سے کوئی اچھی شہرت نہیں رکھتا۔
نئی حلقہ بندی پر انتخابات کا مطالبہ تو مسلم لیگ ن کی جانب سے انتخابات کے انعقادمیں تاخیری حربے کے طورپر تھا جس کا مقصد انتخابات کو آگے بڑھانا تھا مگر عوامی سوچ اور امنگ نہ تو نئی حلقہ بندی کی تھی اور نہ ہی لیول پلیئنگ فیلڈ کی، ملک کے تمام ووٹرز انتخابات سے قبل انتخابی اصلاحات کے متمنی تھے جس میں آئین پاکستان کی رو سے امیدواروں کی اہلیت، قابلیت و صلاحیت کا معیار مقرر کرنا تھا ضروری تھا کہ متوقع امیدوار آئین کی شق 62 اور 63 پر پورا اُترتا ہو یہ اصلاحات اس لیے بھی ضروری تھیں کہ کوئی ایسا شخص انتخابات میں حصہ نہ لے سکے جو کسی قسم کی کرپشن یا کرپشن کے الزام، کسی قسم کی چوری یا رشوت خوری میں ملوث ہو، وہ نیب ایف آئی اے یا دیگر سرکاری ایجنسیوں کو مطلوب نہ ہو اس پر کسی قسم کی کوئی ایف آئی آر درج نہ ہوئی ہو مذہب اور ملک دشمن لوگوں سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو وغیرہ مگر ان اصلاحات کے بنا صرف نئی حلقہ بندی کے مطابق ملک بھر میں عام انتخابات کا اعلان وہ اقدام ہے جس سے نئی منتخب حکومت کا تاثر تو دنیا کو دیا جاسکے گا مگر ان انتخابات کے نتیجے میں ملک کی معاشرت، معیشت اور ثقافت میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی ممکن نہیں اس لا حاصل عمل سے ملک کی اکثریت کو خط غربت کی لکیر سے اوپرلانا اور ملک میں 5 فی صد جاگیردار،اور سرمایہ دار طبقے کا ظلم جبر اور ان کی لوٹ کھسوٹ سے بے کس عوام کو رہائی دلانا ممکن نہیں اور نہ ہی ملک کو ایک بڑا معاشی حب بنانے کے دعوے کوہی پورا کیا جا سکتا ہے اس لیے کہ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی سابقہ اشرافیہ اور چوروں کی صف بندی اور ان کے نئے عوامی نعروں پر کام شروع ہو چکا ہے۔مجوزہ انتخابات گویا پرانی حویلی اور بوسیدہ عمارت پر نئی ملمع سازی سے زیادہ کچھ نہیں مجوزہ انتخابات ایک بار پھر ملک میں اربوں کے اخراجات اس کی معاشی گراوٹ اور بد حالی میں اضافہ کا باعث ہوں گے،اورملک میں چور اور میں چور کا نعرہ سن کر بھاگ نکلنے والے ایک بار پھر مسلط ہو کر اپنا اپنا حصہ حاصل کر لیں گے۔ ملک بھر میں بھانت بھانت کی چھوٹی بڑی سیکڑوں جماعتوں کی موجودگی جن کا کوئی سیاسی کردار نہیں ان کے بارے میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے ان میں کچھ ایسی بھی ہیں جن کے لیڈر اور کارکنوں کی تعداد ان کی تاسیس تا حال واحد سے جمع میں نہیں پہنچی اور بہت سی ایسی بھی ہیں جن کے خاندان میں سے کوئی ایک بھی ان کے کاز اور مقاصد میں ان کے ساتھ نہیں کچھ ایسی بھی ہیں جن میں کارکن کم اور لیڈر زیادہ ہوتے ہیں اور کچھ ایسی بھی ہیں جو الیکشن سے پہلے مختلف جماعتوں سے مستعار لیے ہوئے با اثر افراد پر مشتمل ہوتیں ہیں، اس طرح کی سیاسی جماعتوں کے انبوہ میں ووٹرز کا ذہن بٹ جاتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ شعوری ووٹ جو ملک کو اچھے حکمران دے سکے ممکن نہیں رہتا ان جماعتوں میں کچھ ایسی بھی ہیں جو ملک اور قوم کی بے حد مخلص مگر اشرافیہ کو نا پسند ہیں ان کی امانت و دیانت پر کبھی کوئی انگشت نمائی نہیں کرتا مگر بوقت انتخاب ہر ووٹر کے ہاتھوں میں پکڑی مہر صداقت منافقت کا روپ دھار کر انہیں اس شہادت حق کے فریضہ سے یہ کہہ کر روک دیتی ہے کہ یہ تمہارے کام کے لوگ نہیں یہ  ان کو ووٹ دے کر تم اپنی مستقبل کی خرابی کے خود ذمے دار ہوگے کیونکہیہ لوگ مخلص تو ہیں مگر یہ تمہارے مسائل حل کرنے کے قابل نہیں یہ لوگ قرون اولی کی تاریخ کا مکمل ادراک تو رکھتے ہیں مگر انہیں آج کی جدید دنیا کے تقاضوں میں ڈھالنے کی صلاحیت سے نا بلد ہیں ان میں آج کے دور کا کوئی محقق، سائنسدان، معیشت و قانون دان، آئی ٹی شعبے کا ماہر، سودی نظام کا متبادل فراہم کرنے والے دماغ، صحت و ابلاغ کے ماہر ڈاکٹر اور فلاسفر، ملکی دفاع اور دفاعی ٹیکنالوجی کے ماہرین حتیٰ کہ نچلی سطح پر امن و عامہ برقرار رکھنے کے اداروں اور ملک کی اشرافیہ اور بیورو کریٹ میں ان کی گنتی نہ ہونے کے برابر ہے یہ بھلا ملک کس طرح چلا سکتے ہیں اس شیطانی سوچ کے ذہن میں آتے ہی بیلٹ پیپر پر موجود نشان گڈ مڈ ہونے لگ جاتے ہیں اور پھر یہی لوگ کبھی تیر اور تلوار پر مہر لگا کر اپنے آپ کو مجروح اور کبھی شیر کو کچھار سے نکال کر میدان میں لے آتے ہیں۔ اس سے زیادہ ہماری کم بختی اور کیا ہوگی 5 سال جن سابقہ حکمرانوں کے کرتوت پر ہم انہیں لعن طعن اور بد دعائیں دیتے ہیں ایک جھوٹے نعرے اور ان کے جھوٹے وعدوں کا اعتبار کر کے اگلے 5سال کے لیے انہیں پھر اپنا حکمران منتخب کر لیتے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں