نوازشریف کی واپسی کی تیاریاں، ن لیگ رنگ جمانے میں ناکام
شیئر کریں
(رپورٹ: باسط علی)نوازشریف کی چار سال بعد وطن واپسی کے حوالے سے نون لیگ کی استقبالیہ تیاریوں میں تاحال کو ئی رنگ نہیں بھرا جا سکا۔ انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق نون لیگ کے اعلیٰ سطحی حلقوں میں یہ بات شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ اُنہیں عوامی سطح پر کوئی خاص پزیرائی نہیں مل رہی۔ شہبازشریف کے سولہ ماہ کے بدترین دورِ اقتدار کے بعد نوازشریف کو انتخابی مہم میں وطن واپس لانے کا فیصلہ مسلم لیگ نون کا سب سے بڑا جوا ثابت ہو سکتا ہے۔ کیونکہ نوازشریف کی وطن واپسی کو نون لیگ ایک ہیرو کی واپسی کا رنگ دینا چاہتی ہے مگر مخالفین کی جانب سے اُن کے تعاقب میں فرار کی پھبتی ہے۔ پھر اُن کی وطن واپسی پر سب سے بڑا سوال قانونی ہے۔ ان تمام خطرات کو مول لے کر نوازشریف کو وطن واپس لانے والوں نے یہ ضرور سوچ رکھا تھا کہ اس طرح شاید لاہور میں نوازشریف کے حوالے سے خوابیدہ جذبات کو جگایا جاسکے۔ اس ضمن میں گزشتہ روز مریم نواز نے اپنا پہلا جلسہ لاہور میں شاہدرہ کے مقام پر کیا ،مگر بدقسمتی سے اس جلسے میں مریم نواز جم کر خطاب نہ کرسکی اور جلدہی جلسے سے واپس روانہ ہو گئی۔ درحقیقت لاہور میں اس جلسے کی اہمیت اس لیے سب سے زیادہ تھی کیونکہ یہ نوازشریف کی واپسی کی استقبالیہ تیاریوں کا پہلا جلسہ تھا۔ پھر لاہور کی تمام تیاریوں کی ذمہ داری خود مریم نواز کے ذمہ ہے۔ اس جلسے کے ذریعے مبصرین کے نزدیک پہلا اور مضبوط تاثر قائم کرنا نون لیگ کی بڑی سیاسی مجبوری تھی۔ مگر انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق مریم نواز کے اس پہلے جلسے میں ہی وہی ہوا جس کا خطرہ پہلے دن سے محسوس کیا جا رہا تھا۔ حاضرین میں سے کچھ لوگوں نے نہ صرف عمران خان زندہ باد کے نعرے لگائے، بلکہ نواز شریف کے خلاف بھی نعرے لگا دیے۔ اس صورت حال کے باعث مریم نواز نے اپنے خطاب کو مختصر کیا اور فوراً ہی واپسی کی راہ لی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق نون لیگ کے لیے آئندہ دنوں میںیہ چیلنج مسلسل شدت اختیار کرتا چلا جائے گا۔ یہ بھی واضح رہے کہ لاہور میں نون لیگ قیادت کی سطح پر واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک طرف کھوکھر برادران ہیں اور دوسری طرف خواجہ سعد رفیق اور اُن کے حامیوں کا گروپ ہے۔ مریم نواز جو انکلز سے نجات پاکر نئے حامیوں کا ایک گروپ منظم کر رہی ہے، اُنہوں نے کھوکھر برادران کے سپرد لاہور کردیا ہے اور نوازشریف کی واپسی کی مرکزی ذمہ داریاں بھی اُن کے ہی حوالے کردی گئی ہیں۔ قیادت کی سطح پر پائے جانے والے یہ اختلافات عمران خان کی عوامی پزیرائی میں مسلم لیگ نون کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔