میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
حکومتی لاتعلقی اور عوامی رویہ

حکومتی لاتعلقی اور عوامی رویہ

ویب ڈیسک
هفته, ۲ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

حمیداللہ بھٹی

اب تو خوشی کی کوئی خبر سُننے کوبھی کان ترس گئے ہیں۔ اچھا بھلا ترقی کرتا پاکستان خوشحالی کی طرف رواں دواں تھا مگر اب تو صنعت ہو یا زراعت سمیت ہرشعبہ تباہی کا شکارہے ۔مایوسی کی بات یہ کہ اصلاح احوال جن کی ذمہ داری ہے وہ ایک دوسرے کو خرابی کاذمہ دار ٹھہراکر خود پتلی گلی سے نکلنے اور آئندہ پھر حکومت میں آناچاہتے ہیں تاکہ بچ جانے والے ملکی اثاثوں پر ہاتھ صاف کر سکیں۔ دنیا میں کہیں ایسے سیاسی رہنما ئوں کا انتخاب نہیں ہوتا نہ ہی اِس طرح ملک چلائے جاتے ہیں۔ اقتدار میں آنے والے گروہ ذاتی مفاد پر قومی مفاد قربان کرنے کو چالاکی تصور کرتے ہیں یہی سوچ تباہی کاباعث ہے۔ آج تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ شہریوں کو ریلیف دینے سے حکومت گریزاں ہے جس کی وجہ عالمی مالیاتی اِداروں سے اجازت نہ ملنے کا بہانہ کیاجارہاہے۔ ایسے حالات میں جب آزادی و خود مختاری کے نعرے لگائے جاتے ہیں تو ہنسی آتی ہے چھہتر برس قبل انگریز حاکم اور ہندواکثریت کے چنگل سے ملنے والی آزادی آج عالمی اِداروں کے پاس گروی ہے مگر عوام عالمِ مدہوشی میں ہے۔ اگر تباہی کے ذمہ داران سیاسی رہنما ووٹ ہتھیاکر اقتدار میں آنے کوبے چین ہیں تو عوام بھی بخوشی لُٹنے پر آمادہ ہیں۔ 76 برس کی بے کار اور بے مقصدمسافت کے نتیجے میں پوری قوم تباہی کے ایسے دہانے پر کھڑی ہے جہاں سے امید کی ہلکی سی رمق تک نظر نہیں آتی۔
باعث تعجب یہ ہے کہ باربار اقتدار میں آنے والوں کے اندرون و بیرون اثاثوں میں تواضافہ ہوتاجارہاہے لیکن ملک اورعوام مسائل کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔ بڑی جماعتوں کے قائدین کی امریکہ ،یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں تک ہوشرباکاروبارکی داستانیں سُننے کو ملتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اپنے کاروبارکے فروغ میں ذہانت بروئے کارلانے والے اقتدار میں آکر ملکی مسائل حل کیوں نہیں کرتے؟ ظاہر ہے انھیں ملک وقوم سے کوئی سروکارنہیں۔ اسی لیے مملکت کو مسائل کی آگ میں جھونک کر پُرسکون ہیںاُنھیں اقتدار میں آنے کے لیے اِس ملک اور عوام کی ضرورت ہے اُن کے مفادات بیرونِ ملک ہیں۔ اسی لیے ملک و قوم سے مخلص نہیں۔ عوام کو مفلس رکھنے میںاِنھی کا ہاتھ ہیں جنھوں نے اربوں کھربوں کے اثاثے بنا کر ملک و قوم کو لاغر کردیاہے۔ اِن کو بے نقاب کرنے کے ساتھ بے رحم احتساب کرنے سے ہی لوٹی دولت واپس مل سکتی ہے۔ مگر اِس کے لیے اخلاص کی ضرورت ہے کچھ عرصے سے بیوروکریٹس میں بھی غیرملکی شہریت حاصل کرنے کارجحان ہے جس کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں اِس وقت چینی کی قیمت 180روپے فی کلو سے تجاوز کرگئی ہے جس کا ذمہ دار سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کو قرار دیا جارہا ہے جنھوں نے چینی برآمد کرنے کی اجازت دینے کا احمقانہ فیصلہ کیا یہ فیصلہ ملک میں قلت بلکہ چینی کے نرخ بلند ترین سطح پر پہنچانے کا باعث بنا سستی چینی بیچ کر اب برازیل سے مہنگی چینی درآمد کرنے کا منصوبہ ہے۔ ذرائع اِس واردات میں کروڑوں کے ہیرپھیر کی نشاندہی کرتے ہیں شاید اسی لیے رخصت ہونے سے قبل پی ڈی ایم ٹولہ نیب اختیارات محدود کر گیا ہے تاکہ پچاس کروڑ سے کم کی وارداتوں پرپوچھ تاچھ ہی نہ کر سکے۔ ہمارے غریب ملک کے امیر حکمران نہ صرف ایسی وارداتیں ڈالنے کے ماہر ہیں بلکہ قبل ازوقت قوانین کواِس اندازمیں تبدیل کر جاتے ہیں جن کی بدولت گرفتاری تو درکنا ر کسی اِدارے میں کچھ دریافت کرنے کی ہمت نہیں رہتی۔
اگست کا مہینہ پاکستان کے لیے انتہائی ہنگامہ خیز رہا ابھی تک ملک گیر سطح پر استعداد سے زیادہ بل آنے پرشہری سراپا احتجاج ہیں۔ شدید گرمی کے عالم میں بھی ہر طرف صدائے احتجاج بلندہے۔ ملک گیر احتجاج کی شدت کو دیکھ کر سیاسی و سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ مظاہرے جلدہی فسادات میں تبدیل ہو سکتے ہیں لیکن نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ بڑی بے نیازی سے فرماتے ہیں مسائل اتنے نہیں جتنے بڑھاکر پیش کیے جارہے ہیں جبکہ وزیرخزانہ شمشاداختر فرماتی ہیں صورتحال اندازوں سے زیادہ خراب ہے۔ شہریوں کوریلیف دینے سے حکومت گریزاں ہے اورایسا کرنا بس کی بات نہ ہونے کا بتا کر وقت گزارہ جارہا ہے۔ حالانکہ اِس حوالے سے حکومت کو آئی ایم ایف سے بات کرنے کا مکمل اختیارہے۔ پھربھی تین دن تک متعلقہ اِدارے غوروغوض کے بعد سفارشات مرتب کر نے کے یہ کہنے کی ہمت کر سکے ہیں کہ آئی ایم ایف نے اگرسفارشات کی منظوری دے دی توہی عوام کو کچھ ریلیف دے سکیں گے وگرنہ کوئی جیے یا مرے ہر صورت بل ادا کرنا ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ نگران وزیرِ اعظم کی سربراہی میں تین روزتک جو مشاورت ہوئی اُس میں واپڈا سمیت تقسیم کار کمپنیوں کے ہزاروں ملازمین کو بجلی کے مفت ملنے والے یونٹ ختم کرنے کی ہمت کیوں نہیں کی جا سکی؟کیا ایسا کرنے سے بھی آئی ایم ایف نے روک رکھا ہے؟ بات قدرے تلخ ہے مگر ہے سچ،یہ مراعات یافتہ طبقہ اتنا طاقتورہے کہ کسی حکومت میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ اِن کوحاصل مفت بجلی کی سہولت ختم کر سکے، اسی لیے تین دن منعقد ہونے والے اجلاس بے نتیجہ رہے اورآئی ایم ایف سے منظوری ملنے کی صورت میں چارسو یا اِس سے زائد بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین سے اقساط میں رقوم وصولی کافیصلہ کرنے پر اکتفا کیا گیا ۔ عجیب ریاست ہے جو اپنے شہریوں کو راحت دینے میں بھی آزاد نہیں اور عالمی اِداروں سے احکامات لے کر چلنے کی بات کرتی ہے۔ ابھی حال ہی میں آئی ایم ایف کی سربراہ کا بیان منظرِ عام پر آیا ہے کہ اُن کا اِدارہ عوام کو بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں ریلیف دینے سے منع نہیں کرتا بلکہ امیرطبقات کو دی گئی مراعات واپس لینے اور ٹیکس کا دائرہ کاربڑھانے پر یقین رکھتا ہے۔ عوام کا مطالبہ بھی کم وبیش یہی ہے یواین او کے زیلی اِدارے یو این ڈی پی کی طرف سے یہ انکشاف سامنے آچکا پاکستان میں اشرافیہ کوسالانہ سترہ ارب ڈالرکی مراعات دی جاتی ہیں اِس کے باوجود حکومت کا سسکتی اور تڑپتی عوام کوترجیح نہ دینا اوراِس حوالے سے ہچکچانا سمجھ سے بالاترہے ۔
نگرانوں نے ملکی مفاد کی یہ نگرانی کی ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گراوٹ میں تیزی آگئی ہے جس سے نہ صرف ادائیگیوں کی صورتحال خراب تر ہوئی ہے بلکہ درآمدات کے اخراجات بڑھ گئے ہیںپاکستانی روپیہ دیوالیہ ہونے والے ملک سری لنکن کرنسی سے بھی نیچے جا چکاہے بظاہرحکومت کی رَٹ کہیں نظر نہیں آئی ملک پر مہنگائی ،بے روزگاری اور برامنی کاراج ہے پڑولیم مصنوعات کی قیمتوں میں باربار اضافہ مسائل کاحل نہیںلیکن مہنگائی اور بجلی کے بلوں سے ستائے عوام پر حکومت بے دریغ پٹرول بم گراتی جارہی ہے پٹرول کی قیمت میں حالیہ اضافے سے ملک میں پیداواری عمل سُست ہوسکتا ہے سٹاک مارکیٹ پہلے ہی کریش ہو چکی یہ سب ڈالر اور پڑولیم اور بجلی تقسیم کار کمپنیوں کو آزاد کرنے کا نتیجہ ہے۔ اب توکوئی اِدارہ حکومتی ہدایات اور احکامات کو خاطر میں نہیں لاتا ۔ یہ اِدارے اِس حد تک خود سر ہو گئے
ہیں کہ ہر معاملے میں اپنی مرضی کرنے لگے ہیں۔ پاکستان میں عوام کی ایسی بُری حالت تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی گئی، اب تو لوگ جینا مشکل اور مرنا آسان تصورکرتے ہیں۔ نوجوان نسل اپنے مستقبل سے اِس حدتک مایوس ہے کہ روزگار کے لیے بیرونِ ملک جاتے ہوئے موت کو گلے لگانے پر بھی آمادہ ہے۔ باربار اقتدار میں آنے کے باوجود بلاتفریق انصاف کی فراہمی اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کا طریقہ کار نہ بنانے والے دوبارہ ووٹ لیکر اقتدار میں آنے کے خواہشمند ہیںکیا عوام سے یہ چہرے پوشیدہ ہیں؟ہر گز نہیں بلکہ عوام بخوبی آگاہ ہیں پھر بھی ایسے آزمائے ہوئے چہروں کوووٹ دینے کا مطلب یہ ہے کہ عوام کو آزادی ،ملکی ترقی وخوشحالی اور مضبوطی کے بجائے مہنگائی ،بے روزگاری اور بدامنی عزیز ہے۔ اسی بناپرکہہ سکتے ہیں کہ مسائل حل کرنے سے حکومتیں تو لاتعلق رہتی ہی ہیں ایک وجہ عوامی رویہ بھی ہے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں