میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
علامہ اقبال کشمیر کی آزادی کے آرزو مند تھے!

علامہ اقبال کشمیر کی آزادی کے آرزو مند تھے!

ویب ڈیسک
هفته, ۲ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری

علامہ اقبال کی شاعری کشمیر کی آزادی اور پاکستان کے ساتھ مستحکم رشتہ کی ضمانت ہے۔اقبال کشمیر کے عظیم سپوت تھے جنہوں نے روح آزادی کو بیدار کیا۔ حکیم الامت علامہ اقبال کو کشمیر کے ساتھ بے پناہ جذباتی اورروحانی وابستگی تھی۔اس وابستگی کا اظہار علامہ اقبال نے اپنے کلام ،خطوط اورخطبات میں جا بجا کیاہے۔ علامہ اقبال کے بزرگوں کا تعلق خطہ کشمیر سے تھا جس پر علامہ اقبال کو بہت ناز تھاجس کا اظہار انہوں نے ایک موقع اس طرح کیا کہ ان کی شیریانوں میں دوڑنے والا خون کشمیر کے شفق فام چناروں کی طرح سرخ ہے۔
بریگیڈیئر ریٹائرڈ وحید الزماں طارق کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال کی شاعری اور ان کے نظریات کو سمجھنے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر وحیدالزمان طارق ایک عظیم اور قابل مثال علمی ادبی شخصیت ہیں۔ ڈاکٹر اور فوجی افسر ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال کی شخصیت اور شاعری پر بہت کام کیا ہے۔ حضرت علامہ اقبال کی شاعری کا زیادہ تر حصہ چو نکہ فارسی میں ہے لہٰذا اسے صحیح طور پر سمجھنے اور اس پر کام کرنے کے لئے وحیدالزمان طارق نے فارسی میں بھی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔وحیدالزمان طارق ماہر اقبالیات بھی ہیں جو نظریات وافکار اقبال کے پھیلاؤ کے لئے اندرون اور بیرون ملک لیکچرز دیتے ہیں ۔
ممتاز دانشور بریگیڈئیر(ر) وحید الزمان طارق علامہ اقبال کی کشمیر سے محبت اور کشمیر کی تاریخی حیثیت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قیام پاکستان سے قبل 1931ء میںسری نگر میں ایک پٹھان عبدالقیوم کی مہاراجہ ہری سنگھ کے ظلم کے خلاف تقریر پرحالات خراب ہوگئے اور لوگوں پر گولی چلا دی گئی اور سری نگر فسادات کی لپیٹ میں آگیا۔ کشمیر امن کمیٹی قائم ہوئی اور ہندوستان کے مسلمانوں نے کشمیر کے تحفظ کیلئے کمیٹی قائم کی جس میں علامہ اقبال شامل تھے اور آپ کو اس کا کچھ عرصہ بعد سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ علامہ اقبال کشمیر کے معاملات میں 1896ء سے دلچسپی لے رہے تھے اور1896ء میں وہ انجمن کشمیر مسلماناں میں اپنے عزیز مولوی الف دین کی قیادت میں شامل ہوئے اور اس کے نائب صدر بھی مقرر ہوئے۔ ایک آدھ موقع پر ان کے کشمیر میں داخلہ پر پابندی لگی اور پھر انہیں جانے کی آزادی ملی۔ پیام مشرق (مطبوعہ 1923ئ) میں آپ کی نظم کشمیر اور ساقی نامہ اور جاوید نامہ میں جو 1932ء میں شائع ہوئی، کشمیر پر آپ نے طویل نظمیں لکھیں اور تاریخی تناظر میں وہاں کے حالات کا جائزہ لیا۔
علامہ اقبال اس وقت دیگر کشمیری زعما محمد الدین فوق، چراغ حسن حسرت اور سرتیج بہادر سپرو سے رابطے میں تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو آپ سے ملنے1938ء کے اوائل میں جب لاہور میں جاوید منزل آئے تو انہوں نے بھی اپنی مشترکہ کشمیر برہمن خاندانوں سے تعلق کا اپنی بایو گرافی میں حوالہ دیااور علامہ اقبال اپنی زندگی کے آخر تک کشمیر کے معاملات میں مذاکرات کرتے رہے۔ آپ نے فارسی کے علاوہ اپنی اردو شاعری میں بھی کشمیر کا ذکر یوں کیا
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر
سینہء افلاک سے اٹھتی ہے آہ سوز ناک
مرد حق ہوتا ہے جب مرعوب سلطان و امیر
کہہ رہا ہے داستاں بیدردی ایام کی
کوہ کے دامن میں وہ غم خانہء دہقان پیر
آہ! یہ قوم نجیب و چرب دست و تر دماغ
ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر؟
اس کے علاوہ علامہ اقبال نے اپنے ایک فارسی شعر میں آنے والے واقعات کی طرف یوں اشارہ کیا ہے
باش تابینی کہ بے آواز صور
ملّتِ بر خیزداز خاکِ قبور
ترجمہ : تھوڑی دیر ٹھہرو اور دیکھنا کہ ایک قوم اپنی قبروں سے کفن جھاڑتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوگی۔
ماہر اقبالیات وحید الزمان طارق کشمیر کی تاریخی حیثیت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جموں و کشمیراور اس سے ملحقہ علاقے مغل بادشاہ اکبر کے عہد میں ہندوستان میں شامل ہوئے۔ مغلوں نے اس کے انتظامی معاملات کو سلجھایا اورکامیابی سے وہاں پر حکومت کی۔اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں جب دوبارہ جزیہ عاید کیا گیا تو کشمیر کے پنڈتوں نے اس کے خلاف مزاحمت کی لیکن عمومی طورپر پنڈت بھی فارسی کی طرف مائل ہوئے۔ نہروکا اپنا خاندان بھی فارسی دانی کے باعث مغلوں کے آخری دور میں دہلی میں اعلیٰ عہدوں پر فائر ہوا۔
احمد شاہ ابدالی نے مغلوں کی زوال پذیر بادشاہت کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس خطہ جنت نظیر کو اپنی نوزائدہ افغان مملکت میں شامل کر لیا۔ کشمیر کی تاریخ کے مؤرخین اس دور کو استبداد پر مبنی تاریک دور سے تعبیر کرتے ہیں۔ پنجاب میں خالصہ حکومت 1802ء میں قائم ہوئی۔ رنجیت سنگھ کو انگریزوں نے سندھ اور ستلج کے مشرق میں اپنی سطلنت کو توسیع دینے سے منع کر دیا لیکن وہ شمال اور مشرق میں اپنی سلطنت کو توسیع دے سکتے تھے۔وہ لوگ پہلے جموں اور پھر کشمیر پر قابض ہونے کے بعد گلگت اور مزید شمالی علاقوں پر اپنی سلطنت کو توسیع دینے میں کامیاب ہوگئے۔ لداخ کا علاقہ بدھ مت کے پیروکاروں کی سرزمین تھی اور یہ علاقہ تبت کا حصہ تھاجو ان دنوں چین سے الگ ہو کر دلائی لامہ کی بدھ دینی حکومت کا حصہ تھا۔ سکھ فوجیں لداخ پر بھی قابض ہوگئیں اور اسے مہارانی جنداں کور کی جاگیر قرار دے دیا گیا۔ تبت اور بعد میں چین کی حکومت اس زبردستی کے قبضے پر چیں بجبیں تھی۔
1841ء میں رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد سکھ سلطنت اندرونی سازشوں کا شکار ہوگئی اور انگریزوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اسے اندرونی طورپر کمزور کر دیا۔ گلاب سنگھ ڈوگرا جو کہ سکھ عہد کا جرنیل تھا ، اس کی غداری کے صلے میں انگریزوں نے1946 ء میں کشمیر، جموں اور پونچھ کو پچھتر لاکھ نانک شاہی سکوں کے عوضں جو انگریزوں کی کرنسی کے مطابق پچاس لاکھ روپے تھے، میں فروخت کر دیا۔ فارسی میں لکھے گئے بیع نامہ امرتسر کی روسے مہاراجہ گلاب سنگھ کی عملداری گلگت، وادی کشمیر، جموں ، ملحقہ ریاستیں اور پونچھ تک تسلیم کر لی گئی لیکن شمال اور شمال مغرب میں سرحدوں کا تعین نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے چین کی نگاہیں اس علاقے پر مزکور رہیں۔ مغرب اور جنوب کی حد بندی تو کر دی گئی مگر شمال اور مشرق کی سرحدوں کو جوںکا توں چھوڑ دیا گیا اور گلاب سنگھ کو اپنی سلطنت کومزید وسعت دینے کی اجازت دے دی گئی۔ انگریز اس ریاست کی سیکورٹی کے ذمہ دار تھے۔ مشرق کی جانب تبت تھا جو بعد میں چین کا حصہ بن گیا اور شمال میں سنکیانگ کا مشرقی ترکستان تھا جس کے مسلمان حکمران یکے بعد دیگرے چین کی عملداری میں آتے گئے۔ انگریزوں نے شمال میںمک مرین لائن کے ذریعے سرحد کا تعین کسی حد تک کر دیا اور 1886ء میں ہنزہ پر قبضہ کر لیا جس کی باجگزار ارد گرد کی ریاستیں یاسین، گوپس، اشکومان، ناگر وغیرہ تھیں۔ چین اس سرحد کو تسلیم نہیں کرتا تھا۔ تبت کے ساتھ کا علاقہ لداخ میں شامل تھا اور یہاں کوئی بھی واضح سرحد نہیں تھی۔ چین خود خانہ جنگی اور انقلاب سے گزر رہا تھا۔ 1949ء میں وہاں پر کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی تو وحدت ملی کی صورت نکلی اور چین نے تبت پر قابض ہو کر اپنے کھوئے ہوئے علاقوں پر دوبارہ کنٹرول کرنا شروع کیا۔قیام پاکستان کے بعد چین کی فوجیں ہنزہ تک مارچ کرتی رہیں۔یہ علاقہ 1886ء تک چین کی عملداری میں تھا لیکن جب انگریز وہاں پر قابض ہوئے تو میر آف ہنزہ بھاگ کر چین چلے گئے اور انگریزوں نے ان کے بھائی کو میر آف ہنزہ بنا دیا۔ حکومت پاکستان نے نہ صرف کمیونسٹ چین کو تسلیم کیا بلکہ اس کے دوستانہ تعلقات استوار کر لئے۔ شمال میں سرحد کا تعین کر کے 1962ء سے پہلے معاہدے کو حتمی شکل دے دی جبکہ کشمیر پر بھارت کی قابض حکومت نے چالاکی دکھائی اور تبت اور لداخ کے درمیان کوئی حد بندی نہ ہو سکی۔ ویسے بھی تبت پر چین کے قبضے کے بعد بھارت نے دلائی لامہ کو اپنے ملک میں سیاسی پناہ دی اور وہ دھرمسالہ سے تبت کی جلاوطن حکومت قائم کر کے وہیں آ بسے۔
ڈاکٹر وحید الزمان طارق کے بقول جموں و کشمیر پر ڈوگرہ استبدادایک صدی تک مسلط رہا۔ مہاراجہ گلاب سنگھ کے بیٹوں گیان سنگھ اوردھیان سنگھ نے اپنی حکومت جاری رکھی۔ گیان سنگھ اور اس کی اولاد کا قبضہ سری نگر اور جموں کے علاوہ بلتستان اور گلگت پر تھاجبکہ دھیان سنگھ اور اسکی اولاد پونچھ کے علاقوں پر سرینگر کی حکومت کے ماتحت باختیارحکومت کرتی رہی۔ پونچھ میں سدوزئی (سدھن)پٹھان اور راجپوت لوگ ( راجے) آباد تھے یہ لوگ جنگ جو اور بہادر تھے۔ ان سے مقامی حکمرانوں کے تعلقات مناسب حد تک بہتر رہے جبکہ سری نگر کی عملداری میں مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے رہے۔
1923ء میں کشمیر کا ڈوگرہ راجہ پرتاب سنگھ سورگباش ہوا تو وہ بے اولاد تھا۔ اس کے وزیر اعظم امر سنگھ نے چالاکی سے اپنے بیٹے ہری سنگھ کو اس کا لے پالک بیٹا بنایا ہوا تھا جسے 1923ء میں باقاعدہ طورپر جموں و کشمیر کا مہاراجہ بنا دیا گیا۔ پونچھ کے حکمرانوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا اور خود کو کشمیر کا جائز حکمران قرار دے دیا۔ ہری سنگھ نے انہیں قابو کر کے سری نگر میں قید کر لیا اور پونچھ ، راجوڑی، میر پور اور ملحقہ علاقوں پر بھی اپنا روایتی استبدادی نظام قائم کر لیا جس کے خلاف وہاں لوگوں میں سخت پریشانی کی لہر پھیل گئی۔ وہاں کے جنگ جو جوان اس وقت دوسری جنگ عظیم میں انگریز فوج میں انگریز فوج میں شامل ہو کر مختلف محازوں پر لڑائی میں مصروف تھے جب وہ واپس آئے تو انہوں نے اس نئے اور ناموس استبدادی نظام کے خلاف ہتھیار اٹھا لئے اور ان علاقوں میں آزادی کی لہر پاکستان کے بننے سے پہلے ہی شروع ہوگئی۔ 1935ء میں انگریزوں نے گلگت کے علاقہ کو 65 سالہ لیز پر لے لیا اور اسے اپنی ایجنسی قرار دے دیا جہاں سے وہ ہنزہ اور دیگر ریاستوں پر کنٹرول حاصل کر سکتے تھے۔ انگریز اس جانب سے روسیوں کی ممکنہ پیش قدمی کو روکنا چاہتے تھے۔
ماہر اقبالیات نے بتایا کہ پاکستان بنا تو مہاراجہ ہری سنگھ نے پاکستان اور بھارت کے ساتھ سٹینڈ سٹل یعنی صورتحال کو جوں کا توں برقرار رکھنے کا معاہدہ کیا اور اپنا مواصلاتی نظام حکومت پاکستان کے سپرد کر دیا اور 14 اگست 1947ء کو سری نگر کے جنرل پوسٹ آفس پر پاکستان کا پرچم لہرادیا گیا۔ جموں کے ریلوے اسٹیشن پر پاکستانی پرچم لہرایا گیا اور چراغاں ہوا جس سے یہ خبر پھیل گئی کہ کشمیر پاکستان میں شامل ہوگیا ہے۔ یہ حالات ہندوؤں کیلئے ناقابل قبول تھے۔ دوسری جانب شیخ عبداللہ اور بخشی غلام محمد بھی پنڈت نہرو سے ساز باز کر رہے تھے۔اس دوران لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے کہنے پر ریڈ کلف نے گوداسپور کا مسلم اکثریتی ضلع بھارت میں شامل کر کے پٹھانکوٹ اور کٹھوعہ کے راستے سے جموں سے بھارتی پنجاب کو گزرگاہ فراہم کر دی۔ ہندو بڑی تعداد میں جموں کے علاقے میں داخل ہوئے اور مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ حالات قابو سے باہر ہوئے تو ہری سنگھ نے مہاراجہ پٹیالہ کی تین فوجی بٹالین اپنی سیکورٹی کیلئے بلوالیں۔
ان دنوں پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبہ کے وزیر اعلیٰ خان عبدالقیوم خان کشمیری النسل تھے اور انہوں نے اس صوبہ کو ریفرنڈم کے ذریعہ پاکستان کا حصہ بنوایا تھا۔انہوں نے پٹھان قبائلیوں کو اکٹھا کر کے بتایا کہ وہ سکھ افواج جنہوں نے پنجاب میں مسلمانوں کا قتل عام کیا ہے اب وہ کشمیر میں آگئی ہے اور مظفر آباد آپ کے قصبہ گڑھی حبیب اللہ سے آٹھ میل ہے ہو سکتا ہے وہ وہاں تک نہ رکیں اور صوبہ سرحد میں آ گھسیں اور آپ کی بہنوں بیٹیوں کو اٹھا کر لے جائیں۔ غصے کے مارے قبائلی کشمیر میں داخل ہوگئے۔ پونچھ اور ملحقہ علاقوں میں پہلے سے مسلح جدوجہد جاری تھی۔ گلگت کے لوگوں کے دباؤ میں انگریز افسروں کے ساتھ مل کر صوبیدار میجر بابر نے مہاراجہ کی طرف سے مقرر کردہ گورنر بریگیڈیر گھنسارا سنگھ کو قابو کر کے یکم نومبر1947ء کو گلگت ایجنسی کے قیام سے لے کر گلگت لیز ایگریمنٹ 1935 تک اس علاقہ کی انتظام ایک انگریز پولیٹیکل ایجنٹ کی ذمہ داری تھی جو اس علاقہ سے متصل ممالک چین اور روس پر نظر رکھتے تھے۔ اس معاہدہ کے تحت برٹش انڈیا کی حکومت نے گلگت ایجنسی میں براہ راست اپنی سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ قائم کی جسے گلگت سکاؤٹس کے کمانڈنٹ کی اعانت حاصل تھی۔ تقسیم ہند کے منصوبہ کے تحت برطانوی حکومت نے گلگت لیز ایگریمنٹ ختم کر دیا اور گلگت ایجنسی مہاراجہ کے حوالے ہوگئی تو مہاراجہ نے پہلے کرنل بلدیو سنگھ پٹھانیہ کو گلگت کا گورنر مقرر کیا پھر اسکی جگہ بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو گلگت بلتستان کا گورنر مقرر کر دیا۔ گلگت کے لوگوں کے دباؤ میں انگریز افسر میجر ویلم بروان کمانڈنٹ گلگت سکاؤٹس کے ساتھ مل کر صوبیدار میجر بابر نے مہاراجہ کی طرف سے مقرر کردہ گورنر بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو قابو کر کے یکم نومبر1947ء کو گلگت کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ یکم نومبر1947ء کو ڈوگرہ حکومت سے آزادی گلگت بلتستان کا اعلان کیا گیا۔ شاہ رئیس خان کو آزاد جمہوریہ گلگت بلتستان کا صدر مقرر کیا گیا۔ بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو قیدیوں کے تبادلے میں ہندوستان کے حوالے کیا گیا۔ گلگت بلتستان میں قائم ہونے والی آزاد حکومت صرف 16 دن تک برقرار رہی پھر حکومت پاکستان نے اس علاقہ کو معاہدہ کراچی 28 اپریل 1949 کے تحت پاکستان کے زیر انتظام کر لیا اور تاحال یہ علاقہ پاکستان کے زیر انتظام ہے۔ ایک برس کے دوران بلتستان کے لوگوں نے سخت مزاحمت کے بعد پاکستان میں شمولیت اختیار کر لی۔
خان عبدالقیوم خان کی قیادت میں قبائلی بارہ مولہ پر قبضے کے بعد سرینگر کے قریب پہنچے تو مہاراجہ جموں کی طرف فرار ہوگیا اور سری نگر پر بھارتی فوج جہازوں کے ذریعے اتاری گئی جس کے ایک دن بعد مہاراجہ سے بھارت کے الحاق کے کاغذ پر دستخط کروا کر اسے ریاست بدر کر کے اس کے بیٹے کرن سنگھ کو صدر ریاست قرار دیا گیا اور شیخ عبداللہ کو وزیر اعظم بنانے کے بعد نہرو نے اعلان کیا کہ کشمیر کا فیصلہ وہاں کے عوام کریں گے اوربھارت اقوام متحدہ میںچلا گیا جس کے اجلاس میں شرکت کرنے شیخ عبداللہ نیویارک پہنچا ۔ وہ اپنی کتاب آتش چنار میں لکھتا ہے کہ وہاں پر وہ مجرموں کی طرح کھڑے تھے اور کوئی بھی ان کی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔ کشمیر پر قراردادیں پاس ہوئی جنگ بندی ہوئی خط متارکہ جنگ پر فوجیں رکھی گئیں بھارتی ٹال مٹول کرتے رہے اور معاملہ لٹکتا رہا۔ پھر 1965ء میں ایوب خان نے آپریشن جبرالٹر کے نام پر کشمیر میں مداخلت کی جب بھارت وہاں پر ہزیمت سے دوچار ہوا تو لاہور اور سیالکوٹ پر حملہ آور ہو کر انہوںنے پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا۔ 1971ء کی جنگ ، اس کے بعد وادی لیپا کی لڑائی اور پھر کارگل کی جنگ،وہ حقائق ہیں جنگ کی تفصیل بہت طویل ہو جائے گی مگر کشمیر کا مسئلہ نہ جنگ اور نہ ہی مذاکرات سے حل ہوا ہے۔ 1969ء میں چین لداخ کا علاقہ جسے وہ تبت کا حصہ سمجھتا تھا اور بھارت کے ساتھ اس کا کوئی سرحدی معاہدہ بھی نہیں تھا، بھارت سے واگزار کروانے کیلئے فوجی کارروائی پر مجبور ہوا۔ بھارت کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا اور چین نے چودہ ہزار مربع میل کے اقصائے چین کے علاقہ پر قبضہ کر لیا۔ ا س چین بھارت لڑائی نے پاکستان کیلئے اہم موقع فراہم کیا مگر امریکہ اور برطانیہ نے پاکستان کو یقین دلوایا کہ اگر وہ کشمیر میں مداخلت نہ کرے تو جنگ کے بعد وہ اس معاملے میںبھارت کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات کے ذریعے اس کو حل کروانے میں مدد دیں گے۔
پاکستان نے چین بھارت جنگ میں بیرونی دباؤپر مسلسل خاموشی اختیار کئے رکھی۔ یہ غالباً پاکستان کیلئے حصول کشمیر کا سنہری موقع تھا جو ضائع کر دیا گیا۔ جنگ کے بعد نہرو نے شیخ عبداللہ کو پاکستان بھیجا ۔ میر واعظ بھی پاکستان تشریف لائے۔ بات چیت جاری تھی کہ 27 مئی 1964ء کونہرو کی وفات ہوگئی اور یہ مذاکرات ختم ہوگئے۔ لال بہادر شاستری کا رویہ جارحانہ تھا اور حالات 1965ء کی جنگ پر منتج ہوئے۔ پھر تاشقند کا معاہدہ ہوا اور خط متارکہ جنگ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی جبکہ 1971ء کی جنگ کے بعد شملہ معاہدہ میں کارگل بھارت کو مل گیا اور پاکستان نے معروضی حالات کے تحت کشمیر سمیت تمام مسائل دوطرفہ مذاکرات سے نبٹانے کا اعلان کیا۔ اسی معاہدہ کی آخری شق میں کشمیر کا ذکربطور متنازعہ خطہ کے ہوا اور اس کے آخری حل تک مذاکرات کے ذریعہ اسے حل کرنے کا عہد کیا گیا۔ بھارت کا خیال ہے کہ اس معاہدہ میں کچھ زبانی عہد و قرا ر بھی ہواتھا اور خط متارکہ کو کنٹرول لائن کا نام دینے کا مقصد کشمیر کی انتظامی تقسیم تھی۔
انیس سونوے کی دہائی میں کشمیر ی وادی میںپھر اٹھ کھڑے ہوئے اور حالات دگرگوں ہوتے چلے گئے۔ اس دوران جموںصوبہ میںمسلمان قتل عام اور ہجرت کے باعث اقلیت میں تبدیل ہوکر رہ گئے اور ان کی اکثریت دو اضلاع ڈوڈہ اور راجوڑی تک محدود ہوگئی۔ وادی کشمیر خون میں ڈوب گئی ۔ پھر کارگل کی جنگ ہوئی اور اس کے نتیجہ میں پاکستان پر بین الاقوامی دباؤ پڑا ۔1998ء میں امریکہ نے بھی کشمیر پر اپنی پالیسی تبدیل کر لی ۔ چین اپنے تبتی علاقے کی بازیابی میں مصروف ہوگیا۔اب بیک ڈور ڈپلومیسی کا دور تھا جس میں بہت پیشرفت ہوئی ۔ کشمیر کی ریاست کی تقسیم اور وادی کے لوگوں کے کنٹرول لائن کے آرپار روابط اور باآسانی سفر کے علاوہ تجارت اور دیگر انتظامات کے علاوہ بات وادی کے مشترکہ کنٹرول تک کے امکانات تک جا پہنچی ۔ یوں محسوس ہورہا تھا کہ شاید پاکستان اور بھارت کسی حل تک پہنچ رہے ہیں۔ پروفیسر وحید الزمان طارق کہتے ہیں کہ اس دوران انہیں بھی سرکاری طورپر بھارت جانے کا موقع ملا پھر نیویارک میں مقیم مشہور کشمیری بزنس مین فاروق کاٹھیا سے رابطہ ہوا اور اس سلسلے میں اپنا مقدور بھر کردار ادا کیا۔ اس دوران میرا رابطہ کنٹرول لائن کے اس پار کشمیر کے اہل علم اقبال شناسوں سے بھی ہوا۔ اعتماد کی فضا کو قائم کرنے اور پرامن حل ڈھونڈنے کی کوششیں جاری رہیں۔ من موہن سنگھ اور باجپائی کی حکومتیں بھی اس مسئلہ کے باعزت حل کے سلسلہ میں پس پردہ رابطوں کے حق میں تھیں۔ اسی دوران بھارت میں مودی کی ہندوتوا پر مبنی شدت پسند حکومت قائم ہوئی ۔ اس حکومت نے آج سے چار برس قبل کشمیر پر قبضہ مکمل کر کے آرٹیکل 370کا خاتمہ کر کے کشمیر کا آئین کالعدم قرار دے کر وہاں بھارتیوں کو آبادکاری کی اجازت دے کر اس کے تشخص کو پامال کر دیا۔ آج دنیا خاموش ہے اور کشمیری مایوس۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں