میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
انوارالحق کاکڑ کی غیرجانبداری پر اٹھتی انگلیاں 

انوارالحق کاکڑ کی غیرجانبداری پر اٹھتی انگلیاں 

جرات ڈیسک
هفته, ۲ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے گزشتہ روز صاف صاف کہہ دیا ہے کہ بجلی کے بلز کا معاملہ آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر دیکھ رہے ہیں، یہ بل تو دینا ہوں گے، جومعاہدے ہوچکے ہیں وہ ہرصورت پورے کریں گے۔اسلام آباد میں سینئر صحافیوں سے گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ، مہنگائی اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہ پہیہ جام ہڑتال کی جائے۔انہوں نے کہا کہ ہم جھوٹے وعدے کریں گے اور نہ اپنی ذمہ داریوں سے ہٹیں گے، میں نے اپنے وزرا کو کرنے والے کاموں کا ٹارگٹ دے دیا ہے، جو کام نہیں کرسکتے ان کا بتائیں گے کہ وہ کیوں نہیں کرسکتے۔ انوارالحق کاکڑ نے گزشتہ روز جو کچھ کہا ان کی جانب سے بجلی کے بلوں کے مسئلے پہلا اجلاس طلب کئے جانے کے وقت ہی ہم نے بتادیاتھا کہ نگراں وزیراعظم کی جانب سے اجلاس کی طلبی طفل تسلی کے سوا کچھ نہیں کیونکہ وہ بلوں میں کمی کرنے کے مجاذ ہی نہیں ہیں، جہاں تک ان کے اس فرمان کا تعلق ہے کہ مہنگائی ایسا مسئلہ نہیں جس پر ہڑتال کی جائے تو اس سے ان بورژوا سوچ کی بو آتی ہے اور یہ معلوم ہوتاہے کہ ایک عشرے سے زیادہ سیاست میں گزارنے کے باوجود عوام سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ موافق حالات ہونے کے باوجود ق لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب نہیں ہوسکے تھے ظاہر جس شخص کو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ لوگوں کو اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کیلئے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں اور مہنگائی سے ان کی زندگی کس طرح ااجیرن کردیتی ہے اس کا قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشست پر تو کجا بلدیاتی نشست پر بھی جیتنا ناممکن ہے اور وہ سیاسی داؤ پیچ کے ذریعے عوام کے ووٹ لئے ہی کسی منصب پر پہنچ سکتاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نگراں حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اب تک جو فیصلے کئے ہیں، ان کے ذریعے یہ ثابت کردیاہے کہ موجودہ نگراں حکومت سابق شہباز حکومت کا تسلسل ہے،نگراں وزیر اعظم نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے یہ بات واضح کردی تھی کہ نگراں حکومت شہباز حکومت کی پالیسیوں پر عملدرآمد جاری رکھے گی اور آئی ایم ایف کی تمام شرائط پر بلاچوں وچرا عملدرآمد کرتی رہے لیکن  افسوسناک بات یہ ہے کہ نگراں حکومت نے صرف آئی ایم ایف کی شرائط پر ہی نہیں بلکہ سیاسی سطح پر بھی شہباز حکومت کی پالیسیوں خاص طورپر عمران خان کی تحریک انصاف کو دیوار سے لگانے اور ان کے حامیوں کو دیوار میں چنوانے کی پالیسی پر بھی سختی سے عمل جاری رکھا ہے جس کا ثبوت گزشتہ دنوں بجلی کے بلوں پر احتجاج کرنے والے تحریک انصاف کے کارکنوں کی گرفتاری کے فیصلے سے ملتاہے،بجلی کے بلوں پر احتجاج کے دوران پورا ملک سڑکوں پر نکل آیاہے لیکن جو سلوک تحریک انصاف کے کارکنوں کے ساتھ کیا جارہاہے وہ کسی اور کے ساتھ نہیں کیا گیاجس سے نگراں حکومت کی غیرجانبداری کا بھانڈا پھوٹ گیاہے اور یہ محسوس ہونے لگاہے کہ نگراں حکومت کو شہباز حکومت کے ادھورے ایجنڈے کو پورا کرنے کیلئے اقتدار سونپا گیاہے اور اس ایجنڈے کا بنیادی نکتہ عمران خان کو سیاست سے باہر کردینے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔موجودہ نگراں حکومت کی اب تک کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے  امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کو بھی یہ مطالبہ کرنا پڑا ہے کہ عام انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار رہے۔سراج الحق نے سکھر ہائی کورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے مطابق 90 دن میں صاف و شفاف انتخابات کراکے اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کیاجائے، عدلیہ، الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار رہے۔
دوسری جانب عمران خان پر سابق شہباز حکومت کے بنائے ہوئے مقدمات کی وجہ سے عمران خان ابھی تک پابند سلاسل ہیں، اگرچہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی ڈویژن بنچ نے تحریک انصاف کے چیئرمین کو توشہ خانہ کیس میں ملنے والی سزا معطلی کے ساتھ ہی انھیں رہاکرنے کا حکم دے دیاتھا اور ضمانت کی رقم جماکرانے کے بعد ان کی آزادی کی روبکار بھی جاری کردی گئی تھی، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم ہونے والی ایک خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں عمران خان کو بدستور اٹک جیل میں قید رکھنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں بدھ کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ بادی النظر میں جس طرح چیئرمین تحریک انصاف پر مقدمات کی لائن لگی ہوئی ہے، اس حساب سے تو وہ اگلے 3 سال میں بھی جیل سے باہر نہیں آسکیں گے، لیکن ان کی جماعت کی قیادت اور ان کے جان نثاروں کو بلند حوصلے کی داد دینا پڑے گی کہ ایک طرف وہ ”اداروں“ کا مقابلہ کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ نگران حکومت کے زیراعتاب آئے ہیں، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے سابقہ حکومت خاص طور پر ن لیگ نے تحریک انصاف کو نشانہ بنا رکھا تھا، اور اپنے آخری دنوں میں تو انہوں نے مخالف سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کی انتہا کر دی تھی۔اسی لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ نگران حکومت اور پی ڈی ایم حکومت میں کوئی فرق نظر نہیں آرہاحالانکہ ”نگرانوں“ کو ہرگز ”سیاسی“ نہیں ہونا چاہیے، اسے کسی خاص جماعت کے لیے بغض نہیں رکھنا چاہیے، اسے صرف فری اینڈ فیئر الیکشن کی طرف توجہ دینی چاہیے، کیئرٹیکرز کا مقصد یہ نہیں ہونا چاہیے کہ تحریک انصاف کے کارکنوں، رہنماؤں اور قیادت پر کس طرح ظلم ڈھانے ہیں۔ اور نہ ہی اس چیز میں دلچسپی ہونی چاہیے کہ چیئرمین تحریک انصاف کو کس کس مقدمے میں ابھی حراست میں رکھنا ہے۔ بلکہ اس چیز میں بھی دلچسپی نہیں دکھانی چاہیے کہ عدالتیں کیا فیصلہ دیں گی اور آنے والے وقت میں کس پارٹی کو اوپر آنا چاہیے۔ لیکن اس وقت پاکستان کی سب سے مقبول جماعت کے ساتھ جورویہ روا رکھا جارہاہے اور اس پارٹی کا جو حال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ عوام کی ایک مقبول پارٹی کے ساتھ اس ناروا سلوک کی وجہ سے عوام کے دلوں میں گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران بے چینی، نفرت اور غصے کا لاوہ تیزی سے پک رہا ہے۔پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے غریب کا چولہا ٹھنڈا کر دیا ہے۔ایک طرف مہنگائی، سیاسی بے یقینی،اور معاشی ابتری نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے تو دوسری طرف اشرافیہ اور افسر شاہی کی مراعات میں اضافے نے قوم کے غصے کو آسمان تک پہنچا دیا ہے۔ بازاروں میں ساہو کاروں نے اشیاکی من مرضی کی قیمتیں مقرر کر رکھی ہیں۔عام آدمی خود کشی کر رہا ہے یا جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ اور نگراں وزیراعظم فرماتے ہیں کہ مہنگائی ایسا مسئلہ نہیں جس پر ہڑتال کی جائے،اصل صورت حال یہ ہے کہ سابق حکمران طبقے نے اپنے جرائم معاف کرانے کے لیے پورا ملک داؤ پر لگا دیا ہے۔گزشتہ سال کے سیلاب کے بعد تا حال زرعی زمینیں تباہ حالی سے دوچار ہیں جس سے غذائی بحران مزید سنگین ہو رہا ہے۔ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ غذائی اشیا کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ملک کے طول و عرض میں رابطہ سڑکیں سفر کے قابل نہیں۔شہباز حکومت کی خارجہ پالیسی کی ناکامی اور کھوکھلے پن کا اس سے بڑا ثبوت کیاہوگا کہ پچھلے دنوں جنوبی افریقہ میں برکس (BRICS) کا سربراہی اجلاس منعقد ہوا۔ برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ اس تنظیم
کے ممبر مما لک ہیں۔ یہ سب دنیا کے نمایاں ممالک اور ابھرتی ہوئی طاقتیں ہیں جو مغرب کی چوہدراہٹ کے مقابلے میں متوازی گروپ بنا رہی ہیں۔ اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ اگلے سال کے آغاز میں ایران،سعودی عرب،متحدہ عرب امارات، مصر اور ارجنٹائن اور ایتھوپیا کو بھی اس تنظیم کا ممبر بنایا جائے گا۔ لیکن عالمِ اسلام کی اکلوتی ایٹمی قوت یعنی وطن عزیز پاکستان کواس میں شرکت کی دعوت کا حقدار بھی تصور نہیں کیاگیا، ظاہر ہے کہ اس کی وجہ ہمای ناکام خارجہ پالیسی اور سیاسی عدم استحکام اور اقتصادی حالت ہے۔کیا فیصلہ کرنے والوں کو یہ چیزیں نظر نہیں آرہی ہیں؟ کیا اُن کے نزدیک ملک کا استحکام صرف اور صرف اس بابت ہوگا کہ تحریک انصاف کا قلع قمع کیا جائے۔ اور چیئرمین تحریک انصاف کو زیادہ سے زیادہ دیر جیل میں رکھا جائے تاکہ اُن  کی شہرت کو نقصان پہنچایا جا سکے۔  ہم سمجھتے ہیں کہ فیصلہ کرنے والی قوتوں کو اب ماراماری کی سیاست چھوڑکر حقیقت سے آنکھیں ملانے پر توجہ دینی چاہئے، ریاست ایک ماں ہوتی ہے، اور ماں کا گوشہ ہمیشہ نرم رہتا ہے، خواہ اولاد کتنے ہی مسائل کیوں نہ پیدا کردے۔ اگر تحریک انصاف سے غلطیاں ہوئی ہیں،اور یقینا ہوئی ہیں،غلطیاں کس سے نہیں ہوتیں خود شہباز شریف نے بھی ایک سے زیادہ مرتبہ یہ اعتراف کیاہے کہ ان سے غلطیاں ہوئی ہیں،لیکن اگر سابقہ شہباز حکومت کے دور میں محض بدلہ لینے کے لیے عمران خان اور ان کی پارٹی کے دیگر رہنماؤں اور کارکنوں پربنائے گئے جھوٹے مقدمات کو عمران خان کو مقید رکھنے کیلئے استعمال کرنے کے بجائے ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان ان کی پارٹی کے دیگر رہنماؤں اور کارکنوں پر بنائے گئے مقدمات کی حقیقت کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کوپابند سلاسل کرنے کے باوجود گزشتہ حکومت کی 90فیصد قیادت کو ملک چھوڑنا پڑاہے اور وہ اس وقت لندن میں موجود ہے۔ انہوں نے اپنے اوپر تمام مقدمات بھی ختم کروا لیے ہیں اور دودھ کی دھلی بن کر عوام میں دوبارہ آنے کے لیے تیار ہے۔ صحت مند اور خوشحال عوام ہی توانا اور مضبوط پاکستان کی ضمانت ہو سکتے ہیں۔کیانگراں وزیر اعظم کو معلوم نہیں کہ اقتصادی انصاف‘ سماجی انصاف کی بنیاد ہے۔اگر یہ سب کچھ ایک آدی کو معلوم ہے تو نگراں وزیر اعظم اس سے بے بہرہ کیونکر ہوسکتے ہیں، نگران وزیراعظم کا فرض ہے کہ وہ سابقہ حکمرانوں کے حریفوں کواپنا بھی حریف سمجھ کر جیلوں میں بند رکھنے کے بجائے ان کیلئے جیل خانوں کے دروازے کھول دیں اور عام انتخابات کیلئے سب کو یکساں سہولتیں بہم پہنچائیں تاکہ اس ملک کے عوام کسی جبر کے بغیر اپنی پسند کے نمائندوں کو منتخب کرسکیں،نگراں وزیراعظم کو یہ بات یقینی بنانا چاہئے کہ  الیکشن کمیشن کے معاملات ہوں یا عدالتوں کے۔ سب اپنا اپنا کام کریں تاکہ ملک عدم استحکام کا شکار نہ ہو۔ انوار الحق کاکڑ ایک اعلی تعلیم یافتہ سلجھے ہوئے اور وفاق پاکستان سے محبت رکھنے والے پشتون ہیں۔ بلوچستان سے تعلق ا ن کی ایک اضافی اہلیت ہے۔ شائستگی سے بات کرتے ہیں اور اپنی باڈی لینگوینج سے پر سکون اور پراعتماد نظر آتے ہیں۔اس وقت وفاق پاکستان کے سب سے اہم منصب وزارت عظمی پر فائز ہیں۔ ان کا انتخاب کس طرح ممکن ہوا اس سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے کہ نگراں حکومت کیلئے ان کا نام سب کیلئے حیرت کا باعث ضرورہوا۔نگران حکومت کا قیام ایک آئینی تقاضا ہے جو ایک متعین مدت کے لئے تشکیل دی جاتی ہیں جن کا بنیادی مقصد غیرجانبداری کے ساتھ انتخابات کے عمل کو شفاف اور منصفانہ بنا نا ہے۔تاکہ جو ضروری اقدامات اور فیصلے ناگزیر ہوں انہیں الیکشن کمیشن اور دیگر متعلقہ اداروں کی مدد سے ممکن بنایا جا سکے۔یہ درست ہے کہ موجودہ نگران حکومت کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔بجلی کے ہوش اڑادینے والے بل ہوں یا ڈالر کے سامنے پاکستانی روپے کی مسلسل گراوٹ۔ مہنگائی کا بے قابو جن ہو یا بے روزگاری کا عفریت،زرمبادلہ کی کمیابی ہو یا قرضوں پر سود کی ادائیگی جیسے معاملات ان سب سے نمٹنا اور ان پر کسی حد تک قابو پانے کی کوششیں نگران حکومت کو ایسی سیاسی بھول بھلیوں میں پہنچا دیں گی جہاں سے نیک نامی کے ساتھ باہر نکلنا ان کیلئے ممکن نہیں ہوگا۔ اختیارات کی موجودگی کے باوجود نگران حکومت کیلئے بہتر اور محفوظ راستہ یہی ہے کہ وہ خود کو کم سے کم معاملات میں ا لجھائے اور ساری توجہ الیکشن کی تیاریوں پر رکھے۔غیر جانبداری کے ساتھ الیکشن کا انعقاد ہی ان کا بنیادی فریضہ ہے اور اسی اہم کام کیلئے انہیں اختیار حکومت حاصل ہوا ہے۔ سیاسی دوستیاں ہوں یا پھر دشمنی کی سیاست انہیں ہر صورت اس سے اپنا دامن بچانا ہوگا۔نیک نام انوار الحق کاکڑ اسی صورت پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نیک نام رہ سکیں گے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں