بلوچستان، سیلاب کی ہولناکیاں
شیئر کریں
کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں مون سون بارشوں کا پانچواں اسپیل اس قدر شدید تھا کہ صوبے کے باسیوں نے بارشوں، سیلابوں اور تباہیوں کا ایسا منظر پہلے نہیں دیکھا، ہولناک سیلابوں سے شاید ہی صوبے کا کوئی مقام اس کی شدت سے محفوظ رہا ہو، صوبائی دار الخلافہ کوئٹہ، مضافات اور گرد و نواح میں مکانات گرے، پل ٹوٹے، سڑکیں بہہ گئیں، تباہ حال لوگ دوسرے مقامات پر پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔کوئٹہ کے تفریحی مقام ہنہ اوڑک میں خوفناک سیلاب نے باغات اور مکانات کو تہس نہیس کردیا، اسکول، طبی مراکز تباہ ہوئے، یہاں سے جانے والے بڑے سیلابی ریلوں نے کچھ موڑ، کلی ناصران، ہنہ بائی پاس، نواں کلی، چشمہ اچوزئی، کلی الماس اور متصل علاقوں کو لپیٹ میں لے لیا، جگہ جگہ تباہی مچائی، عوام خوف میں اس قدر مبتلا ہیں کہ ولی تنگئی ڈیم کے ٹوٹنے کی افواہ پھیلی تو متاثرہ ہنہ اوڑک، نواں کلی، چشمہ اچوزئی اور کوئٹہ کینٹ کے رہائشی خواتین اور بچوں کے ہمراہ گھروں سے شہر کے دوسرے علاقوں کی طرف بھاگ نکلے۔ادھر کوئٹہ سبی شاہراہ کا حشر نشر ہوا، بی بی نانی پل کا ایک حصہ پانی میں بہہ گیا، آگے پنجرا پل کا وجود باقی نہ رہا، بولان میں کئی مقامات پر چھوٹے پل ٹوٹ گئے ہیں، یوں کوئٹہ اور سبی کا بذریعہ سڑک رابطہ منقطع ہوگیا، کچھی کی ضلعی انتظامیہ نے موسم موافق ہوتے ہی جگہ جگہ لینڈ سلائیڈنگ کے باعث بند راستے کھول دیئے، بعض مقامات پر متبادل عارضی راستے بنادیے، این ایچ اے نے بی بی نانی پل کو تعمیر کرلیا اور پنجرا پل کے مقام پر بحالی کے کام کا آغاز کردیا۔ ‘‘ڈربھی’’ کے مقام پر قومی شاہراہ کی بحالی و تعمیر کا کام بھی شروع کردیا گیا، جو سیلاب میں پوری طرح بہہ گئی تھی۔صوبے کے کئی شہروں میں بجلی اور گیس معطل ہوئی، کوئٹہ کا ملک کے دیگر شہروں سے بذریعہ ریل رابطہ پوری طرح منقطع ہے، بولان کے علاقے ہیرک میں ریلوے کا 130 سال پرانا پل ٹوٹ گیا، یہ پل غالباً 1888ء میں بنایا گیا تھا، اس پل کے ٹوٹنے کی ایک وجہ ندی سے کریشر پلانٹ کے لیے بجری نکالنا بھی شامل ہے، پل کے قریب علاقوں میں کریشر پلانٹ قائم ہیں جن کے لیے ندی سے بجری نکالی جاتی ہے، برج نیچے سے خالی ہوا تو سیلابی پانی کا دبا? برداشت نہ کر سکا۔دشت میں گونڈین کے مقام پر ریلوے لائن جگہ جگہ سے اکھڑ چکی ہے، بولان، نصیرآباد اور جعفرآباد میں ریلوے لائن متاثر ہوچکی ہے، کوئٹہ کراچی اور کوئٹہ ڈیرہ غازی خان شاہراہیں آمد و رفت کے لیے کھول دی گئی ہیں۔
کوئٹہ کراچی شاہراہ تقریباً دو ماہ آمد و رفت کے قابل نہ تھی، جس سے بلوچستان سے سبزیوں، پھلوں اور اشیایہ ضروریہ کی سپلائی متاثر رہی، ڑوب ڈیرہ اسماعیل خان شاہراہ بدستور بند ہے، لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بھاری پتھر سڑکوں پر پڑے ہیں۔صوبے کے ہر ضلع میں کچھ ایسے ہی مسائل اور بربادیاں ہوئی ہیں، انفرا اسٹرکچر ایسا تباہ ہوا ہے کہ جس کی تلافی، بحالی اور تعمیر نو شاید لمبا عرصہ ممکن نہ ہوسکے۔ این ایچ اے، کیسکو وغیرہ تو اپنے حصے کا کام کریں گی، المیہ صوبائی حکومت اور اس کے تحت محکموں اور اداروں کا ہے، ویسے بھی وزراء شاہی نے صوبے کی بربادی اور خزانہ لوٹنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی ہے۔چناں چہ اگر تھوڑا بہت احساس اور صوبے پر رحم کا مادہ موجود ہے تو رواں سال کی پی ایس ڈی پی میں شامل چھوٹے اور غیر ضروری منصوبے نکال دیے جائیں بلکہ اس بار پی ایس ڈی پی پر عملدرآمد روک دیا جائے۔ ڈیموں، پلوں، سڑکوں اور انفراسٹرکچر کا تخمینہ لگا کر یہ فنڈز سیلاب متاثرین اور انفراسٹرکچر کی بحالی پر لگائے جائیں۔ غیرترقیاتی فنڈز کے اندر اخراجات میں کمی لائی جائے۔یہاں سر دست وزراء شاہی کی شاہ خرچیوں کی بندش لازم ہے، وزراء کی گاڑیاں کم کرتے ہوئے تیل کی حد بھی کم کردی جائے، بیورو کریسی کے اخراجات میں بھی کمی لائی جائے، ڈیموں، حفاظتی پشتوں، پلوں کا ٹوٹنا اور نقصان پہنچانے کا معاملہ سنجیدہ لیا جائے، کیونکہ گزشتہ 15، 20 سال ان منصوبوں کی تکمیل میں بہت زیادہ بدعنوانیاں ہوئی ہیں، ترقیاتی بجٹ پر ہاتھ صاف ہوا ہے، ناقص تعمیرات کرکے مختص فنڈز کی باہمی بندر بانٹ ہوئی ہے۔حالیہ سیلابوں میں ڈیموں کے ٹوٹنے اور شگاف پڑنے کے واقعات کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات ہونی چاہئے، تحقیقات اس بات کی بھی ہو کہ واٹر چینلز محکمہ آبپاشی (ایری گیشن) کی ملکیت ہے تو ایسے میں بڑی بڑی ندیوں پر تجاوزات کی اجازت کیسے ملی؟، یہی تجاوزات جانی و مالی نقصانات کا باعث بنے ہیں، پہاڑوں کے ساتھ ایسی بہت سی آبی گزرگاہیں قبضہ ہوکر آبادیوں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ دیکھا جائے تو ان بارشوں اور سیلابوں نے نظام ننگا کردیا ہے، لہٰذا اب نظام کی اصلاح و بہتری کے لیے محاسبہ اور شفافیت کے لیے اعلیٰ سطح پر اقدامات و تحقیقات کا ہونا لازم ہے۔
فوج، ایف سی، کمشنروں اور اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں نے حتیٰ الوسع صلاحیتیں اور کاوشیں بروئے کار لائی ہیں، حالات سے نبرد آزما ہوئے ہیں، پی ڈی ایم اے کے اندر بہتری لانے کی ضرورت ہے، اسے مطلوب ماہر افرادی قوت کی ضرورت ہے، اسے سیاسی دسترس سے چھٹکارہ دلانے کی بہر طور ضرورت ہے۔وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے اتوار 28 اگست کو نصیرآباد کا دورہ کیا، 10ارب روپے کا اعلان کیا، نصیرآباد، جعفرآباد اور جھل مگسی شدید متاثرہ علاقے ہیں، صوبائی حکومت بتارہی ہے کہ صوبے میں 200 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے، صوبے کی حکومت نے سیلاب فنڈ قائم کیا ہے، صوبے کی حکومتی اشرافیہ پر لوگ اعتبار نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ عوام اور مخیر لوگ شخصی طور پر یا اچھی ساکھ رکھنے والی فلاحی تنظیموں کو نقد رقومات دے رہے ہیں، گویا حکومت کا مجموعی کردار مایوس کن ہے، عوام اپنا استحقاق بری طرح مجروح سمجھتے ہیں۔بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کا کردار اس پورے تناظر میں صفر ہے، اپنی ساکھ اور لاج کے لیے ایک دن قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ کے ہمراہ بی این پی کے اراکین اسمبلی نے پریس کانفرنس کی، اگلے روز وزیراعلیٰ نے ملاقات کرکے انہیں پھر سے خاموش کرادیا۔ پشتونخوا میپ البتہ سیلابی صورتحال میں عوام کے دکھ درد کی بات کررہی ہے، بہرحال یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان بڑے نقصان سے دو چار ہے اور بحالی کے عمل کے لیے غیر معمولی سرمایہ درکار ہوگا۔
پی ڈی ایم اے کی 28 اگست کی رپورٹ کے مطابق صوبے میں 244 اموات ہوئی ہیں، 110 افراد زخمی ہوئے ہیں، 5 لاکھ مویشی ہلاک ہوئے ہیں، 61 ہزار 488 گھروں کو نقصان پہنچا ہے، جن میں سے 17 ہزار 528 گھر مکمل تباہ ہوئے ہیں، ایک ہزار کلو میٹر سڑکوں، 18 پلوں اور 2 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی کو نقصان پہنچا ہے۔نقصانات کا یہ تخمینہ ابتدائی ہے اور اس رپورٹ میں بہت سی خامیاں اور کمیاں ہیں، نقصانات یقیناً اس سے بہت زیادہ ہیں۔ گزشتہ 3 ماہ کے دوران جانی نقصانات کے کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں، جن کی متعلقہ اضلاع کی انتظامیہ نے تصدیق تو کی ہے، مگر اسے پی ڈی ایم اے نے اپنی رپورٹ کا حصہ نہیں بنایا، متاثرہ گھروں کی تعداد بھی کم بتائی گئی ہے، نقصانات کا درست تخمینہ لگانے کے لیے جلد از جلد جامع اور ہمہ پہلو سروے کیا جائے۔بحالی کے کاموں کے لیے یقیناً عالمی فنڈز کی ضرورت درپیش ہے، جس کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، چناںچہ بحالی اور تعمیر نو کے لیے وفاق کی لمحہ بہ لمحہ مالی معاونت کی ضرورت ہے، انفراسٹرکچر کی تعمیر نو، اسی طرح متاثرہ خاندانوں کی امداد وفاقی حکومت اور فوج مانیٹر کرے تو حق ادا ہوگا، فوج اسپین کاریز ڈیم اور ولی تنگئی ڈیم کا معائنہ کرائے۔حال یہ ہے کہ سابق گورنر سید ظہور احمد آغا کے اپریل 2022ء میں مستعفی ہوئے ہیں، جس کے بعد اب تک بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر جان محمد جمالی بطور قائم مقام گورنر امور نبھا رہے ہی۵ہ