کراچی کے لیے قومی لائحہ عمل کی ضرورت
شیئر کریں
میں کراچی ہوں جو کبھی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا اور آج یہ عالم ہے کہ میں دنوں کے دنوں اندھیروں میں ڈوبا رہتا ہوں ۔ جگمگاتی شاہراہیں اور صاف ستھرے راستے میری پہچان ہوا کرتے تھے لیکن اب ایسا ہے کہ شاہراہوں پر جگہ جگہ پر گھڑے پڑے ہیں اور راستوں میں قدم قدم پر کچروں کا ڈھیڑ لگا ہے ۔اپنے پہلو میں ایک عظیم الشان سمندر رکھنے کے باوجود میں کبھی زیر آب نہیں ہوا تھا اب نوبت یہ ہے کہ مون سون کی چند بارشوں نے مجھے ڈبو ڈالا ہے ۔ مجھے غریبوں کی ماں ہونے کا در جہ دیا گیا اور چھوٹے پاکستان کی حیثیت سے پکارا گیا لیکن اس ماں اور چھوٹے پاکستان کے ساتھ کیا کچھ کیاگیا یہ ایک لمبی داستان ہے لیکن میری موجودہ حالت یہ داستان خود بیان کررہی ہے کہ مجھے کس طرح سے لُٹا گیا،نچوڑا گیا اور دھتکارا گیا ہے۔ میری آن بان سب کی سب لٹ چکی ہے اور میرے ایک دکھیاری ماں کی طرے حصے بخریے کیے جارہے ہیں حالانکہ میں سب کا ہوں اور سب میرے ہیںلیکن میں ایک ایسی ماں کی مانند ہوں جو آ ہ وبکا بھی نہیں کرسکتی کیونکہ اس میں میرے بیٹوں کی ہی رسوائی ہے ۔
بہر کیف آج بھی مجھے سنوارنے کی بجائے مجھ پر سیاست کی جارہی ہے ،ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کی جارہی ہیں ،میرے ہی خزانوں سے سمیٹی جانے والی دولت کو مجھ پر ہی خرچ کرنے کے لیے مانگا تانگا کیا جارہا ہے حالانکہ میں نے تو اپنے بیٹوں کو نہ ہی الگ کیا ہے اور نہ ہی ان میں بٹوارا کیا ہے تو پھر کیوں میری موت سے پہلے حصے بخریے کیے جارہے ہیں جبکہ میں سب کے لیے یکساں ہوں اور میرے لیے سب برابر ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ مجھے وفاق کے ماتحت کیا جارہا ہے جبکہ میں خود اپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہوں ،مجھے وہ تاریخ بعید کا وقت بھی یاد ہے جب میں سندھ کا حصہ نہیں تھا لیکن مجھے سندھ کے حکمرانوں نے فتح کیااور مجھے تاریخ قریب کا یہ وقت بھی یا د ہے جب مملکت خداداد پاکستان معرض وجودمیں آیا تو مجھے اس کی راج دھانی (دارالحکومت)بنایا گیا لیکن آج میں سندھ کا حصہ ہوں اور اس کی راج دھانی ہوں جبکہ اس سے بڑھ کر میں ’’کراچی ‘‘ ہوں ۔ میری اپنی پہچان اور شناخت ہے میں سندھیوں کے لیے سندھ ہوں ، بلوچوں کے لیے بلوچستان ہوں ، پختونوں کے لیے خیبر پختونخوا ہوں،پنجابیوں کے لیے پنجاب ہوں اور ہجرت یافتہ گھرانوں یعنی مہاجروں کے لیے پاکستان ہوں ۔یہاں یہ واضح رہے کہ میرے نزدیک سرائیکی اور ہزارہ سمیت دیگر قومیں بھی اپنے اپنے صوبوں سے ہٹ کر اپنی الگ علاقائی شناخت رکھتی ہیں جو اپنی زبان اور کلچر میں نمایاں ہیں لہذا ان کی قومی شناخت اور ثقافت کا احترام مجھے ہر صورت ہے اور ان قوموں کی بھی ایک بڑی تعداد کراچی میں آباد ہیںلہذا کراچی ان کا بھی ہے ۔جہاں تک کراچی کی موجودہ خستہ حالی کا سوال ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں جہاں دیگر قومی و شہری ادارے ذمہ دار ٹھہرائے جائینگے وہاں اس شہر کی بڑی سیاسی جماعتیں بھی مورد الزام ٹھہرے گی جن میں ایم کیو ایم پاکستان ، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی سر فہرست ہیںکیونکہ جماعت اسلامی اورر ایم کیو ایم نے کراچی پر براہ راست حکمرانی کی ہے جبکہ پیپلز پارٹی سندھ کی حاکم ہونے کی وجہ سے کراچی کی بھی والی رہی ہے۔
اس وقت کراچی پر حق حکمرانی کا تاج کسی حد تک تحریک انصاف کے سر پر بھی ہے جہاں سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان ہی منتخب نہیں ہوئے بلکہ ان کی جماعت کی جانب سے یہاں نمایاں کامیابی سمیٹی گئی ہے ۔یعنی اس وقت کراچی کی اسٹیک ہولڈرز جماعتوں میں تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور جماعت اسلامی نمایاں ہیں جن میں سے جماعت اسلامی اس وقت پس پشت ہے اور پارلیمانی سیاست میں کراچی کے حوالے سے اس کاحصہ نہ ہونے کے برابرہے جبکہ مسلم لیگ (ن) جو کہ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے لیکن وہ کراچی کی سیاست پر اپنا اثرو رسوخ نہیں رکھتی اسی طرح دیگر سیاسی و مذہبی جماعتیں ہیں جو کراچی کی سیاست میں شور تو برپا کر سکتی ہیں لیکن انتخابی سیاست میں انھیں پذیرائی حاصل نہیں ہے جن میں جمعیت علماء (ف) اور جمعیت علماء اسلام پاکستان جیسی دیگر جماعتیں شامل ہیں جبکہ کم و بیش ایسی ہی صورتحال کا سامنا سندھی و بلوچ قوم پرست تنظیموں کو ہے جو کراچی کے تاریخی اسٹیک ہولڈرز تو ہیں لیکن موجودہ دور میں صرف انکے پاس حقِ دعویٰ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ بہر کیف کراچی سب کی ماں ہے اور ہم سب اسکے بیٹے ہیں لہذا یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی دکھیاری ماں کے آنسوئوں کا مداوا کریں اور کراچی کی ازسر نو تعمیر وترقی میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔ جہاں تک کراچی کے مسائل اور اس کے حل کا سوال ہے تو اس پر سیاست کرنے کی بجائے مل بیٹھ کر لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے ۔یہاں یہ بات خصوصی طور پر ملحوظ خیا ل رکھنے کی ضرورت ہے کہ کراچی کو ایک قلعے کے طور پرفتح نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسے ایک ماں کی خدمت کے طور جیتا جاسکتا ہے کیونکہ ماں کی دعا ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔لہذا وقت کا تقاضا ہے کہ کراچی پر سیاسی پوائنٹ اسکوررنگ سے گریز کیا جائے اور ہر ایک سیاسی جماعت اپنے حصے کی ذمہ داری مکمل ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ پوری کرے اورر جہاں تک قوومی و شہری داروں کی مبینہ نااہلی کا سوال ہے تو اس کی جواب طلبی ہونی چاہئے۔اسی طرح فنڈز کی کمی اور عدم دستیابی کا رونا کراچی جیسے عظیم الشان شہر کا مذاق اڑانے
کے مترادف ہے جو دراصل حکمرانوں اور سیاسی اسٹیک ہولڈرز کا اپنا مذاق آپ اڑانے کے برابر ہے ۔بہر کیف کراچی کے مسائل کے حل اور اس کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے الزام تراشیوں کی سیاست کو ترک کرکے ایک’’ قومی لائحہ‘‘ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے جس میں تمام سیاسی و غیر سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ساتھ قومی و شہری اداروں کا مساوی کردار شامل ہو نا چاہئے ، ایسے میں اگر پی ٹی آئی کی حکومت کراچی کے لیے کوئی سنجیدہ منصوبہ رکھتی ہے تو اسے ہر سطح پر حمایت حاصل ہونی چاہئے لیکن یہ تمام منصوبہ بندی ریاستی آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ہونی چاہئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔