میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسماعیل ہنیہ کی شہادت اور تحریک آزادی

اسماعیل ہنیہ کی شہادت اور تحریک آزادی

ویب ڈیسک
جمعه, ۲ اگست ۲۰۲۴

شیئر کریں

جاوید محمود

اسرائیل نے بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رات کے اندھیرے میں تہران میں حماس کی لیڈر اسماعیل ہنیہ کو شہید کر دیا جس کے نتیجے میں ایک اور جنگ کا دروازہ کھول دیا گیا ہے۔ اسرائیل گزشتہ 10 ماہ سے نہتے فلسطینیوں پہ بم برسا رہا ہے جس کے نتیجے میں غزہ کھنڈر کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اسرائیل کی بے لگامی اورعالمی برادری کی بے حسی نے دنیا کو خطرے میں مبتلا کر کے رکھ دیا ہے۔ ایران میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر تین روز کے قومی سوگ کا اعلان کیا ہے ۔ اور پاسدار انقلاب نے کہا کہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کا سخت اور دردناک جواب دیا جائے گا۔ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ ہنیہ کے قتل کا بدلہ لینا تہران کا فرض ہے۔ دوسری جانب ایران کے مذہبی اہمیت کے حامل اہم شہرقم کی مسجد جمکران میں ایرانی روایت کے مطابق انتقام کی علامت سرخ پرچم بھی لہرا دیا گیا ہے۔ اسماعیل ہنیہ کے بیٹے عبدالسلام اسماعیل ہنیہ نے ایک بیان میں کہا کہ والد پر حملے کا ذمہ دار اسرائیل اور امریکہ ہے۔ انہوں نے وہ حاصل کیا جس کی وہ خواہش رکھتے تھے، انہوں نے کہا کہ ہم اسرائیلی قبضے کے خلاف مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں اور ہماری مزاحمت قیادت کی شہادت سے ختم نہیں ہوگی۔ حماس آزادی تک مزاحمت جاری رکھے گا۔
اسماعیل ہنیہ 1962میں غزہ شہر کے مغرب میں شاتی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے ۔ان کے والدین کو 1948 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل کے قصبے اشکلون کے قریب اپنا گھر چھوڑنا پڑا تھا۔ اسماعیل ہنیہ نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں عربی ادب کی تعلیم حاصل کی اور وہیں سے وہ اسلامی تحریک میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے 1987 میں گریجویشن کی اسی سال غزہ میں اسرائیلی قبضے کے خلاف عوامی بغاوت شروع ہوئی تھی۔ انہیں اسرائیلی حکام نے اس کے فورا بعد مظاہروں میں حصہ لینے پر گرفتار کر لیا تھا لیکن اس وقت ان کی قید کی مدت مختصر تھی۔ 1988میں حماس کے غزہ میں ایک سرکردہ مزاحمتی گروہ کے طور پر سامنے آنے کے بعد انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا لیکن اس بار انہیں چھ ماہ کی قید ہوئی۔ اسرائیل تاہم فلسطینی مزاحمت کو دبانے میں ناکام رہا اور پھر اگلے سال اسماعیل ہنیہ کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا اور تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔ 1992میں ان کی رہائی کے بعد اسرائیل نے انہیں حماس کے سینئر رہنماؤں عبدالعزیزالررنسی اور محمود الزہر کے علاوہ 400 سے زائد دیگر کارکنوں کے ساتھ جنوبی لبنان میں جلا وطن کر دیا۔ ان جلا وطنوں نے مرجل ظہور کیمپ میں ایک سال سے زیادہ عرصہ گزارا جہاں ان کی اسلامی گروپ کو بہت زیادہ میڈیکل کوریج ملی اور دنیا بھر میں مشہور ہوئے۔ اسماعیل ہنیہ دسمبر 1993 میں غزہ واپس آئے اور اسلامی یونیورسٹی کے ڈین مقرر ہوئے ۔اسرائیل نے 1997 میں احمد یاسین کو جیل سے رہا کیا جس کے بعد ہنیہ کو ان کا معاون مقرر کیا گیا ۔دونوں افراد کے درمیان قریبی تعلقات کی وجہ سے اسماعیل ہنیہ کو فلسطین میں حماس کی مزا حمتی تحریک میں زیادہ اہمیت حاصل ہوئی اور وہ فلسطینی اتھارٹی میں گروپ کے نمائندے بن گئے۔ ستمبر 2003 میں ہنیہ اور احمد یاسین غزہ شہر کی ایک رہائشی عمارت پر ہونے والے اسرائیلی فضائی حملے میں معمولی زخمی ہوئے۔ اسرائیلی طیارے کے قریب آنے کی آواز سن کر دونوں افراد بم گرنے سے چند سیکنڈ قبل عمارت سے نکل گئے تھے لیکن اس کے محض چھ ماہ بعد احمد یاسین فجر کی نماز کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے اسرائیلی ہیلی کاپٹر سے برسائی جانے والی گولیوں کی زد میں آگئے تھے۔ اگرچہ محمود الزہرکو اس وقت حماس کا سب سے سینئر رہنما سمجھا جاتا تھا لیکن اسماعیل ہنیہ کو 15 جنوری کے انتخابات میں حماس کی مہم کی قیادت کے لیے منتخب کیا گیا جس میں تحریک کے امیدواروں نے فلسطینی قانون سازوں کونسل کی 132 نشستوں میں سے 76 نشستیں حاصل کی تھیں ۔اس کے بعد فلسطینی صدر محمود عباس نے حماس سے نئی حکومت بنانے کو کہا تاہم حکمران فتح تحریک اور دیگر دھڑوں کے ساتھ اتحاد بنانے کے لیے ہفتوں کی بات چیت ناکام ہو گئی اور ہنیہ کو بنیادی طور پر اپنی ٹیم اور کئی ٹیکنو کریٹس پر مشتمل حکومت بنانے پر مجبور ہونا پڑا، جب اسماعیل ہنیہ نے اپنی انتظامیہ کے پروگرام کا خاکہ پیش کیا تو انہوں نے امریکہ اور یورپی یونین پر زور دیا کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کی مالی امداد میں کمی کی دھمکیوں پر عمل نہ کریں۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ فلسطینیوں کو آزادی کے لیے اپنی زندگی جاری رکھنے کا حق ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ تنازع کے حل کے لیے بین الاقوامی ثالثوں کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہماری حکومت خطے میں انصاف کے حصول قبضے کو ختم کرنے اور اپنے حقوق کی بحالی کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔ 2018میں امریکہ نے فلسطینی اسلامی تحریک حماس کے سیاسی رہنما کو دہشت گرد قرار دیا اور ان پر پابندیاں عائد کر دیں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ اسماعیل ہنیہ کے حماس کے عسکری ونگ سے قریبی تعلقات ہیں اور وہ شہریوں کے خلاف مسلح جدوجہد کے حامی ہیں۔ گزشتہ سال سات اکتوبر میں حماس کی جانب سے اسرائیل پر طوفان القصہ آپریشن کے فورا ًبعد اسماعیل ہنیہ میڈیا کی طرف سے نشر کی جانے والی ایک ویڈیو میں دوحہ میں اپنے دفتر میں تحریک کے رہنماؤں کے ساتھ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے نظر آئے تھے۔ وہ ایک عرب چینل پر ایک رپورٹ دیکھ رہے تھے ۔حماس کے عسکری ونگ عزالدین الاقسام بریگیڈ نے جب اسرائیلی فوجی گاڑیوں کو قبضے میں لیا تو انہوں نے اس فتح پر خدا کا شکر ادا کیا تھا۔
رواں سال اپریل کے دوسرے ہفتے میں قاہرہ میں غزہ کی جنگ کے لیے تازہ ترین مذاکرات کے آغاز سے قبل ہی حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کے بیٹے اور پوتے پوتیاں غزہ میں فضائی حملے میں شہید کر دیے گئے تھے اسماعیل ہانیہ کے تین بیٹے ہاضم عامر اور محمد اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ رمضان کے اختتام پر مغربی غزہ میں الشافی نامی مہاجر کیمپ کی جانب ایک کار میں سفر کر رہے تھے ۔اسماعیل ہنیہ کے پوتے پوتیوں میں تین بچیاں اور ایک بچہ شامل تھا ۔حماس کی جانب سے ان کے نام جاری کیے گئے جن میں مونا اہل خالد اور رازان شامل تھے۔ اسماعیل ہنیہ پوری زندگی اسرائیل کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے کھڑے رہے اور فلسطین کی آزادی کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہے اور لڑتے رہے۔ اس جدوجہد میں ان کے تین بیٹے تین پوتیاں پوتے والدین اور دیگرخاندان کے لوگ شہید ہوئے ۔اسماعیل ہنیہ کی قربانیاں تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ اللہ تعالی شہدا کے بارے میں فرماتے ہیں اور جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہوئے ان کے بارے میں یہ مت کہو کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم ان کا شعور نہیں رکھتے ۔اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کو شہید کر کے ایک اور جنگ کا
دروازہ کھول دیا ہے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت نے فلسطین تحریک آزادی میں نئی روح پھونک دی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں