زراعت کو ترقی دیے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں
شیئر کریں
پاک فوج کے سربراہ نے گزشتہ روز ملک میں زرعی شعبے کو ترقی دے کر ملک کو خوراک میں خود کفیل بنانے کیلئے پاک فوج کے پاس موجود مہارت بروئے کار لانے کا اعلان کیاتھا،پاک فوج کے سربراہ کا یہ اعلان یقینا دل خوش کن ہے کیونکہ پورے متحدہ ہندوستان کا اناج گھر کہلانے والا ہمارا ملک آج اپنے عوام کا پیٹ بھرنے کیلئے گندم،دالیں اور خوردنی تیل دوسرے ملکوں سے درآمد کرنے پر اربوں ڈالر خرچ کرنے پر مجبور ہے جس کی وجہ سے ہمیں قرض کیلئے بار بار کشکول اٹھاکر نکلنا پڑتا ہے اور کشکول میں کچھ ڈالنے والا امداد کے ساتھ پابندیوں کی ایک پٹاری بھی ہمارے ساتھ کردیتاہے جس کی وجہ سے عوام کا خون نچوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے،ہمارے ملک میں زرعی پیداوار میں کمی کی بڑی وجوہات میں پانی کی کمی،کھادوں اور اچھے بیجوں کی عدم فراہمی اور ہمارے محکمہ آبپاشی کے افسران اور اہلکاروں کی کرپشن ہے جو بڑے زمینداروں کی زمینوں تک تو ضرورت سے اتنا زیادہ پانی فراہم کرتے ہیں کہ وہ ضائع ہونے لگتاہے لیکن نہروں کے آخری کناروں کے کسانوں کو بوائی اور ترائی کے وقت ضرورت کے مطابق پانی اس وقت تک فراہم نہیں کرتے جب تک مبینہ طورپر ان کی مٹھی گرم نہیں کی جاتی،ٹیل یعنی نہروں کے آخری کناروں کے کاشتکار وں کی اکثریت چونکہ غریب ہوتی ہے اس لئے وہ بروقت ان راشی افسران اور اہلکاروں کی مٹھی گرم کرنے کا انتظام نہیں کرپاتے جس کی وجہ سے انھیں بروقت پانی نہیں مل پاتا اس طرح ان کی فی ایکڑ پیداوار کم ہوجاتی ہے،اس پوری صورت حال کا نتیجہ ظاہر ہے کہ گلوبل ہنگر انڈیکس یعنی دنیا بھر میں بھوک یا بھوک سے متاثر ہونے والے ملکوں کے اعتبار سے دنیا کے 129 ممالک میں سے 99 ویں نمبر پر آچکاہے۔بھوک کی اس اندوہناک صورت حال کے باوجود ہمارے حکمران کسی طرح کی ایسی انقلابی زرعی اصلاحات کرنے کو تیار نہیں ہیں جس کے تحت بڑے بڑے زمینداروں کی اجارہ داری ختم کرکے زرعی شعبے میں مساوات قائم کی جاسکے اور کوآپریٹو فارمنگ کو فروغ دے کر چھوٹے زمینداروں کو بھی بہتر مواقع سے مستفید ہونے کا موقع مل سکے، کہ گلوبل ہنگر انڈیکس سے متعلق رپورٹ میں ہماری زرعی بدحالی کی بنیادی وجوہات سیاسی اور معاشی بحران کے ساتھ ساتھ عام آدمی کیلئے یکساں مواقع تک رسائی اور استطاعت نہ ہونا بتایا گیاہے۔ رپورٹ میں پاکستان 26.1 اسکور کے ساتھ 99 ویں نمبر پر ہے اور رواں برس کے ابتدائی 6 ماہ میں بھی صورتحال ابتر ہی نظر آئی ہے۔ پاکستان کا 2000 اور 2007کی رپورٹوں میں ا سکور بالترتیب 32.1 اور 36.8 تھا اور بدترین سکور 2014 میں 29.6 تھا۔ تاہم 2022 میں یہ ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا اور پاکستان مزید نچلے نمبر پر چلا گیا۔ گلوبل ہنگر انڈیکس کی رپورٹ 2022 کے مطابق تخمینوں سے پتہ چلتا ہے کہ کم از کم بھی 2030 تک پاکستان سمیت 46 ممالک خوراک میں کمی پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنگ، تنازعات، موسمیاتی تبدیلیوں اور کرونا وبا نے 2022 میں لاکھوں افراد کو خوراک کی کمی کا شکار بنا دیا۔اس رپورٹ سے ظاہرہوتاہے کہ ہماری پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت کے دور میں زرعی محاذ پر ابتری میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے حکمران اپنے مقدمات ختم کرانے اور عمران خان اور ان کے حامیوں کو دیواروں میں چنوادینے کیلئے مختلف حربے تلاش کرنے میں مصروف رہے اور انھوں نے عوامی مسائل خاص طور پر زراعت جیسے اہم شعبے کے مسائل حل کرنا تو درکنار زرعی شعبے کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنانے پربھی توجہ نہیں دی اور نہ ملک کی گرتی اقتصادی صورتحال پر قابو پایا سکے۔دوسری جانب موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بے موسمی بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں نے بھی پاکستان میں بدترین انسانی المیے کو جنم دیا‘ جس سے لوگوں کو جانی و مالی نقصان کے ساتھ اپنے کاروبار سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں ہرسو بے روزگاری کا عفریت پھیلا ہوا ہے اور رہی سہی کسر روزافزوں مہنگائی نے نکال دی ہے جس کی وجہ سے ہر گھر میں عملاً فاقوں کی نوبت آچکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کیلئے اب دووقت کی روٹی کا حصول مشکل ترین ہو چکا ہے۔ بھوک اور ننگ جس تیزی سے ہر گھر میں ڈیرے ڈال رہی ہے اورگلوبل ہنگر ایڈیکس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان بھوک سے متاثر ہونیوالے ممالک میں 99ویں نمبر پر آگیا ہے، ملک کے عالی دماغوں ماہرین اقتصادیات اور پالیسی ساز اداروں کیلئے چشم کشا ہونی چاہیے۔ ایک طرف حکمران معیشت کی بحالی کے دعوے کرتے نہیں تھکتے اور دوسری جانب عوام کو رتی برابر ریلیف نہیں دیا جارہا۔ اگر بے روزگاری اور مہنگائی پر فوری قابو نہ پایا گیا تو عالمی سطح پر پاکستان کی حالت مزید سنگین ہو سکتی ہے۔
بلاشبہ پاکستان زرعی ملک ہے اور بد قسمتی سے زراعت کو جو ترقی اور جو توجہ چاہیے تھی وہ 75سال میں اس شعبے کو نہیں دی گئی،سابق صدر ایوب خان کے دور میں ایک زرعی انقلاب ضرور آیا تھا،اور اس دور میں ملک کی فی ایکٹر زرعی پیدا وار میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا تھا ملک کے نہری نظام کو ترقی دی گئی تھی اور ملک میں ایک زرعی بہتری واضح طور پر نظر آئی تھی لیکن اس کے بعد وقت گزرتا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ جو اپ گریڈ کی ضرورت ہے ہو تی وہ نہیں ہوا اور ٹیکنالوجی سمیت ہم بیچوں اور کھادوں کے حوالے سے بھی باقی دنیا سے پیچھے رہتے چلے گئے،اس صورتحال میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔اگر حقیقی معنوں میں زرعی تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں تو ایران میں جاکر دیکھنی چاہیے ایران نے صحیح معنوں میں زراعت کو ترقی دی ہے اور اس حوالے سے بہترین کام کیا گیا ہے،پانی کا استعمال کیسے کرنا ہے؟ کم از کم پانی کے استعمال سے زیادہ سے زیادہ پیدا وار کس طرح حاصل کرنی ہے،یہ ایران سے سیکھنا چاہیے کس زمین پر کس علاقے میں کس قسم کے باغات لگانے چاہیے،یہ بھی سیکھنا چاہیے،لیکن افسوس ہے کہ ہم نے کچھ نہیں سیکھا ہے،ہم ابھی تک اس حوالے سے ٹامک ٹو ئیاں ہی ما ر رہے ہیں اور ہمارے ملک میں زرعی زمین پر ہاؤسنگ سو سائٹیاں بنائی جارہی ہیں زرعی زمین کو تباہ کیا جا رہا ہے اور ملک کے لیے مسائل میں مزید اضافہ کیا جا رہا ہے۔پاکستان کو آگے بڑھانے کے لیے دور رس فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارے ہاں عموما مشکل فیصلے کرنے کے لیے جس سیاسی ول کی ضرورت ہو تی ہے اس کا مظاہرہ بھی کم ہی کیا جا تا ہے بلکہ دیکھا یہ جاتا ہے کہ کس منصوبے کو شروع کرنے میں کتنا کمیشن یاکک بیک حاصل کیاجاسکتاہے،تاہم حکمراں طبقے کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اگر آگے بڑھنا ہے تو صورتحال میں تبدیلی لا نی ہو گی اور ہر صورت میں لانی ہو گی۔ملتان میں آم کے باغات ختم کرکے ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنائی جا رہی ہیں جو کہ پاکستان کی زراعت اور فوڈ سیکورٹی کے لیے تباہ کن صورتحال ہے ہمیں مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ نئے شہر تعمیر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آبادی کا پھیلاؤ مخصوص علاقے تک محدود رہے اور جگہ جگہ پر ہاؤسنگ سو سائٹیاں نہ بنیں اور ملک کی زرعی زمینوں کو تباہ نہ کریں۔ایک جامع منصوبہ بندی کے تحت آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اس کے بغیر اب مسائل حل نہیں ہوں گے۔تمام اسٹیک ہو لڈرز کو مل کر معاشی پالیسی پر اتفاق کرنا ہو گا تاکہ حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ملکی پالیسیاں بھی تبدیل نہ ہو ں۔ ہمیں کئی نئے شہروں کی ضرورت تھی جو کہ ایک مخصوص علاقے میں ہوں اور آبادی کو اپنے اندر سمو لیں اور زرعی زمینیں آبادی کی وجہ سے متاثر نہ ہو ں۔جو شہر ہم نے بنا رکھے ہیں ان شہروں کو بھی ہم نے انڈسٹریل ایریا میں تبدیل کر دیا ہے،جو کہ شہروں کی تباہی کا باعث بنا،زراعت کی ترقی کے لیے بروقت بجلی پانی اور بیچ چاہیے ہوتا ہے جو کہ ہماری حکومتیں مہیا کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔بلوچستان رقبے کے لحاذ سے پاکستان کا بڑا صوبہ ہے اور بلوچستان پر توجہ دے کر ملک کے زرعی رقبے میں بے شمار زرعی زمینیں شامل کی جاسکتی ہیں۔پاکستان کو آگے بڑھانے کے لیے بلوچستا ن کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہو گا۔بلوچستان کی زمین اعلیٰ معیار کی زمین ہے،چاہے مشرقی بلوچستان میں جا ئیں یا مغربی بلوچستان میں،ہر جگہ بہترین زمین دستیاب ہے جو کہ نہ صرف بلوچستان بلکہ ملکی معیشت کی تقدیر بدلنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے،لیکن کاشت کار کو جوسہولیتیں دستیاب ہونی چاہیے وہ نہیں ہو تی ہیں جس کے باعث کاشت نہیں ہو پا تی ہے۔اگر پاکستان کو ایک زرعی طور پر مستحکم ملک بنانا ہے تو ہمیں اس حوالے سے پاکستان میں صنعتیں بھی وہی لگانی ہو ں گی جو کہ زمین برداشت کرسکتی ہوں۔غلط پالیسیز اور غلط صنعتیں لگانے سے بھی زراعت کی تباہی ہو ئی ہے،پنجاب کی زمینوں پر چاول،کپاس اور گندم کی فصلوں کے لیے زیادہ ساز گار ہیں لیکن پنجاب کی زمینوں پر پیدا وار گنے کی جارہی ہے اور گنے کی فصل پانی کی بھی دیگر فصلوں سے کہیں زیادہ طلب گار ہو تی ہے،اس معاملے کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے تر جیحات کا درست تعاون کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔پاکستان آگے اسی وقت بڑھے گا،جب زراعت آگے بڑھے گی،اگر ملائیشیا،تھائی لینڈ،انڈونیشیا زیادہ بارشوں میں کاشتکاری کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ کسانوں کے لیے گرین ڈیزل،سستی بجلی، سولر ٹیوب ویل، ڈرپ اریگیشن، آ ئی ڈراپ ایریگیشن اورا سپرنگ کلر اریگیشن سسٹم کا انتظام کروایاجائے۔ہمیں پالیسی سازی میں ایک تسلسل اور استحکام لانے کی ضرورت ہے۔بہر حال یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف کو زراعت کی بہتری کا خیال آیا ہے اور اس حوالے سے اب ایک نئی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور بہتری کے لیے کا وشیں شروع کی گئیں ہیں۔زراعت کی بہتری کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے،جس جس علاقے میں زراعت ہے وہاں پر سرمایہ کاری کرنی ہو گی،عوام کو صحت اور تعلیم کی بہترین سہولیات فراہم کرنا وقت کی ضرورت ہے تا کہ لوگ بہتر انداز سے زرعی پیدا وار میں اضافے کے لیے کام کر سکیں اور شہروں کی جانب سے لوگوں کی نقل مکانی کا دباؤ بھی کم کیا جاسکے۔ اگر ہم اپنے مستقبل کو تابناک بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں زراعت کی جانب توجہ دینی ہوگی جتنی بھی تو جہ دیں وہ کم ہو گی اور اس سلسلے میں ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ملک کو آگے بڑھانا ہے تو مشکل فیصلے کرنا ہوں گے،صرف ووٹ حاصل کرنے کیلئے بڑے زمینداروں کی خوشنودی حاصل کرنے کی حکمت عملی کو خیرباد کہناہوگا۔اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔