امن کے لئے آزاد افغانستان نا گزیر ہے
شیئر کریں
افغانحکومت بے سروپا الزامات کی بجائے اپنی خود مختاری یقینی بنائے تو بہتر ہوگا۔ پاکستان کے خلاف افغان حکومت کا محاذ سراسر یکطرفہ ہے ۔ دراصل یہ کٹھ پتلی حکومت بھارت کی ڈگڈگی پر حرکت کررہی ہے ۔ پاکستان کی افواج نے بڑے پیمانے پر تحریک طالبان پاکستان ،جماعت الاحرار یا دوسری تنظیموں کے خلاف آپریشن کیا جو اب بھی جاری ہے، اگر افغان سرزمین ان عناصر کی پناہ گاہ نہ بنتی تو یہ کب کے نابود ہوچکے ہوتے۔ حیرت ہے کہ افغان حکومت نے آپریشن خیبر فور پر بھی واویلا مچادیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ چاہتے نہیں کہ ان مسلح جتھوں کے خلاف کارروائی ہو۔ ان منتشر جتھوں کو بھارت اور افغان خفیہ اداروں نے پھر سے جوڑ دیا جنہوں نے پاکستان کے اندر منظم کارروائیاں شروع کردیں۔ افغان سرزمین محفوظ ٹھکانہ نہ ہوتی تو ان کیلئے تخریبی عملیات نا ممکن ہوتیں۔ بلوچستان میں بدامنی پھر اُٹھی ہے ۔ یہ حقیقت واشگاف ہے کہ بلوچستان میں امن کوتباہ اور معصوم شہریوں اور سیکورٹی اہلکاروں کو مارنے والوں کے بڑے دماغ افغانستان میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ مستونگ میں 19جولائی کی صبح سویرے قومی شاہراہ پر مسافربے دردی سے قتل کر دئیے گئے ۔ یہ تمام ہزارہ برادری کے افراد تھے ۔ شقی القلبی دیکھئے کہ خاتون کو بھی نہ بخشا۔ماہ جون کی 4 تاریخ کو اسپینی روڈ پر ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی خاتون کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔ایسی ہی ایک بہیمانہ کاروائی 4 اکتوبر 2016 کو ئٹہ کے کرانی روڈ پر ہوئی ، لوکل بس کے اندر مسلح افراد نے گھس کر چار خواتین کو ہدف بنا کر قتل کردیا ،ان میں تین ہزارہ خواتین تھیں ۔ظاہر ہے کہ حملہ ہزارہ خواتین پر ہی تھا۔ مستونگ میں پچھلے دنوں لیویز کے نائب رسالدار کا بھی قتل ہوا۔فورسز پر منصوبہ بند حملے ہو چکے ہیں۔ چمن میں ایس ایس پی قلعہ عبداللہ ساجد خان مہمندخودکش حملے میں جاں بحق ہوئے۔ ما بعد 13جولائی کو کوئٹہ کے علاقے کلی دیبہ میں ارباب غلام علی روڈ پر ایس پی قائد آباد مبارک شاہ اچکزئی اور ان کے تین محافظ ہدف بن گئے۔ حملہ آور بڑے ماہر تھے۔ اس طرح گولیاں برسائیں کہ زندہ بچنے کا کوئی امکان اور امید ہی نہ رہی ۔ جن جوانب سے ذمہ داریاں قبول کی گئیں وہ معروف گروہ ہیں اور بڑے آرام سے افغانستان میں قیام رکھتے ہیں۔ گویا پاکستان کیلئے دہشتگردی کے خلاف آپریشن ناممکن بنانے کی حکمت عملی طے کی ہوئی ہے۔ ا ن گروہوں کی جانب سے مقامی نوجوانوں کو ورغلا کر مختلف الاقسام لالچ دے کر بھرتی کیا جاتا ہے، ان سے حرام عمل کرایا جاتا ہے۔ مستونگ کی پہاڑیوں میں تباہ کئے جانے والے داعش کے ٹھکانوں میں سارے افراد مقامی سندھ اور پنجاب سے تعلق رکھتے تھے اور اکثریت بلوچستان کے نوجوانوں کی تھی۔ حالیہ دنوں محکمہ داخلہ بلوچستان نے چار دہشتگردوں کی تصاویر جاری کی ہیں جن کا تعلق بھی کوئٹہ اور مستونگ سے ہے۔ اب اگر ان کو ملک کی کسی مذہبی جماعت کا تعاون حاصل ہے تو اس پر ہاتھ ڈالنا چاہیے اور اس کی نشاندہی عوام کی جانب سے بھی ہو۔ چناں چہ اس ضمن میں لکھاری اور صائب الرائے طبقے کی ذمہ داری کچھ زیادہ بنتی ہے۔ بلوچ مسلح تنظیمیں تو پوری کی پوری مقامی افراد پر مشتمل ہیں۔ بھارت اور افغانستان ان کے سرپرست ہیں۔ افغانستان میں انہیں محفوظ رکھا جاتا ہے ، تربیت دی جاتی ہے۔ خود بالاچ مری ا فغانستان میں تھے وہیں انتقال ہوا۔براہمداغ بگٹی لمبا عرصہ افغانستان میں تھے ۔ بلوچ مسلح تنظیموں کو بلوچستان کی بلوچ سیاسی جماعتوں اور مختلف طبقات کی زبردست سیاسی و اخلاقی حمایت حاصل تھی۔ ستم تو یہ ہے کہ ان کی ہر مردُم کُش واردات کی مذمت تک نہیں کی جاتی تھی ،لب مطلق خاموش تھے ۔ لکھاری اوردانشور شدت پسندوں کو فکری غذا فراہم کرتے تھے۔ آزادی کے پرچار میں کالم اور اداریے لکھے جاتے تھے۔ گویا بڑے بڑے دانشور ان کے فکری معلم بنے بیٹھے تھے۔ حالات نے پلٹا کھایا اِدھر سب نے مسلح گروہوں کی حمایت ترک کردی۔شدت پسندوں کے ہاتھوںبڑے بڑے لائق اور فطین اساتذہ کا قتل ہوا،وزیر ، ڈاکٹروں، لکھاریوں،فورسز،تاجر وں،مزدوروں، اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اس بے رحم جنگ میں موت کا لقمہ بن گئے۔ ہاں ایسے پختہ فکر بلوچ دانشور و سیاستدان بھی تھے جنہوں نے ذاتی منفعتوں کی بجائے ، اپنی سوچ اور فکر کو مقدم سمجھا ۔ یقینا وہ جان سے گئے۔ جن میں ایک نام بلوچستان یونیورسٹی کے استاد ، پروفیسر صبا دشتیاری کا ہے۔کئی بلوچ طلباء اور نوجوانوں کو زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا۔اور ایک غالب تعداد آزادی کی تحریک کو بیچ چوراہے پر چھوڑ کر کاروبار زندگی میں مصروف ہوگئے۔ انہیں آغاز میں لگا کہ آزادی بس اگلے لمحے ملنے والی ہے۔اس خاطر وہ اپنا حصہ اس تحریک میں ڈالتے رہیں۔ تحفظ کے اداروں کی رٹ قائم ہوگئی تو سب نے پھر سے پاکستان کا کلمہ پڑھ لیا،یقینا یہ حضرات ابتدا ء سے ہی مخلص نہ تھے ۔ان کی نگاہ مفادات پر جمی تھی ۔ میرے نزدیک حقوق کی سیاسی جنگ جائز ہے۔بلکہ سیاسی و قانونی راستوں سے سخت سے سخت مطالبہ بھی روا ہے ۔تاہم وہ تحریک بھارت اور افغان کٹھ پتلیوںکی شہ اور خواہشات کے تحت نہ ہو۔ بلوچ شدت پسندوں نے ہاتھ روکے نہیں ، وارداتیں کرتے رہتے ہیں۔ فورسز اور محنت مزدوری کرنیوالے افراد کی تاک میں لگے رہتے ہیں۔ البتہ اس تناظر میں مذہب کے لیبل والی تنظیموں کا وجود دبڑھ کر حساس ہے،جو اب تک ہولناک تباہی مچا چکی ہیں۔ ان میں عام نوجوان وابستگی اختیار کررہے ہیں ۔ ستم یہ ہے کہ یہ ساری تنظیمیں افغانستان میں امریکی بالادستی کے باوجود پنپ رہی ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے مفادات کو ان سے نقصان نہیں پہنچ رہا ۔ ان گروہوں نے پاکستان کو ہدف پر رکھا ہے۔ البتہ امریکہ امارت اسلامیہ سے متصادم ہے ۔ اس کے سدباب کیلئے مزید امریکی افواج افغانستان بھیجنے کی اعلیٰ سطح پر سوچ بچار ہورہی ہے۔ امارت اسلامیہ کی تحریک مزاحمت خطے میں امریکی بالادستی کی پالیسیوں کی راہ میں حائل ہے۔ اس مزاحمت کی وجہ سے امریکی مقاصد پورے نہیں ہوپارہے ۔ پاکستان سے حقانی نیٹ ورک و طالبان کے خلاف کارروائی کا اصرار بہ تکرار تو کیا جاتا ہے۔ مگر خود امریکہ کو سمجھنا چاہیے کہ بھارت افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے ۔ نیز امریکہ اس حقیقت کو جان لے کہ امارت اسلامیہ محض ایک افغان مزاحمتی تحریک ہے ،جو چاہتی ہے کہ خارجی افواج کا انخلاء ہو اور افغانستان آزاد و خود مختار ہو۔ امارت اسلامیہ کی متحارب حیثیت ایک لحاظ سے امریکہ تسلیم کرچکا ہے ۔ قطر میں طالبان کا سیاسی دفتر اسی حیثیت کے پیش نظر کھولنے کی اجازت دی گئی۔ اور مختلف مواقعوں پر انہیں حزب اختلاف بھی قرار د یا ہے ۔امریکی اگر سمجھتے ہیں کہ مو جودہ افغان رجیم کو پال پوس کر مقاصد حاصل کرلئے جائیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہے بلکہ نری حماقت ہے ، ان کی توآپس میں نہیںبن پار رہی ۔ جنبش ملی کے سربراہ جنرل رشید دوستم، جمعیت اسلامی کے صلاح الدین ربانی اور وحدت اسلامی کے محمد محقق کے درمیان اتحاد ہوچکا ہے جن پر ترکی کے اندر بڑی رازداری سے کام ہوا۔ یہ سب لوگ حکومت کا حصہ ہیں۔ رشید دوستم سینئرنائب صدر ہے۔ صلاح الدین ربانی بھی اہم منصب پر فائز ہیں اور محمد محقق ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو ہیں۔ یہ شخصیات علاقائی نفرتوں کو ہوا دینے کی کوشش کرر ہی ہے ۔ یعنی حکومتی اتحادی آپس میں متصادم ہیں۔ رشید دوستم سفاک انسان ہے پہلے ترک انجینئروں کے طیارے میں خفیہ طریقے سے ترکی گیا ،پھر خصوصی طیارے کے ذریعے آنے کی کوشش کی ۔ان پر ایک افغان شخصیت احمد خان اسچی کو حبس بے جا میں رکھنے، تشدد اور جنسی زیادتی کا الزام ہے۔ امارت اسلامیہ سے بہر حال بات چیت اور مذاکرات ہونے چاہئیں۔اس تحریک کو افغان عوام کی حمایت حاصل ہے اور افغانستان کے بیشتر حصے پر کنٹرول رکھتی ہے۔افغان طالبان اور افغان عوام کئی مواقعوں پر خارجی دہشت گردوں یعنی داعش وغیرہ کے خلاف کاروائی کر چکے ہیں۔اکیس جولائی کو صوبہ ننگرہار کے ضلع خوگیانی میں وہاں کے رہائشیوں اور طالبان نے مل کر داعش کے جنگجوئوں کو مار بھگایا ۔افغان حکومت اس جھڑپ کی تصدیق کر چکی ہے ،کہ چوبیس داعش جنگجوں مارے گئے ۔امارت اسلامیہ چند کو گرفتار بھی کر چکی ہے۔افغان عوام امارت ا سلامیہ کو اپنی جان و مال کا محافظ سمجھتے ہیں ۔امریکہ اس سولہ سالہ قبضے میں بہت کچھ کھو چکا ہے ۔افغان جنگ پر سالانہ ایک سو اٹھائیس ارب ڈالر خرچ ہو رہا ہے ۔گویا امریکہ کی مشکلات میں ہر گذرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے ۔ضروری ہے کہ امریکی کانگریس اس جنگ کے اختتام کا اعلان کرے ۔ پاکستان سے قربت افغانستان اور افغان عوام کے مفاد میں ہے ۔ پاکستان اور پاکستان کے عوام کی سلامتی اور خوشحالی بھی اچھی ہمسائیگی اور دوستی میں پنہاں ہے۔ گویا پاکستان اور افغانستان میں امن کے لئے ، افغانستان کی آزادی و داخلی خودمختاری ناگزیر ہے۔
٭٭…٭٭