قرآن کی بے حرمتی ،او آئی سی کا اسلامی مقدسات کی بے حرمتی روکنے کیلئے مؤثر اقدامات کا مطالبہ
شیئر کریں
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی ) نے سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کیخلاف کہا کہ بار بار ہونے والے ایسے واقعات کے خلاف سخت ترین اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔عرب میڈیا کے مطابق سویڈن میں قرآن کو نذر آتش کرنے پر یہ اعلان اتوار کو او آئی سی کے ہنگامی اجلاس میں کیا گیا، اجلاس جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے ہیڈ کوارٹر میں سعودی دعوت پر منعقد ہوا۔او آئی سی نے اعلامیے میں اس قسم کے اقدامات کی سنگینی کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگوں کے درمیان باہمی احترام اور ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتے ہیں جبکہ رواداری اور اعتدال پسندی جیسے اقدار کے پھیلاؤ اور انتہا پسندی کو مسترد کرنے کی بین الاقوامی کوششوں سے متصادم ہیں۔او آئی سی کی جانب سے جاری اعلامیے میں متعلقہ ممالک کی حکومتوں پر زور دیا گیا کہ وہ ان ’گھناؤنے حملوں‘ کی روک تھام سمیت قرآن اور دیگر اسلامی اقدار، علامتوں اور مقدسات کی بے حرمتی کی تمام کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے ایسے واقعات کے سلسلے کو روکنے کے لیے موثر اقدامات اٹھائیں۔او آئی سی نے تمام ممالک پر عائد ذمہ داری کا اعادہ کیا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت نسل، جنس، زبان یا مذہب کی تفریق کے بغیر انسانی اور بنیادی حقوق کا احترام اور ان کی پابندی کا فروغ تمام ریاستوں پر فرض ہے، ذمہ داری کے ساتھ اور متعلقہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کے مطابق آزادی اظہار کے حق کا استعمال کیا جائے۔اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل حصین براہیم طحہ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن پاک کی بے حرمتی، پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی روکنے کے لیے اجتماعی اقدامات ناگزیر ہیں، بدقسمتی سے عید الاضحٰی پر سویڈن کی مرکزی مسجد کے باہر قرآن پاک کی بے حرمتی کا گھناؤنا فعل کیا گیا۔حصین براہیم طحہ نے کہا کہ قرآن پاک کے نسخوں کی بے حرمتی، مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی اسلامو فوبیا کے معمولی واقعات نہیں، عالمی برادری بین الاقوامی قانون کے فوری اطلاق کو یقینی بنائے، بین الاقوامی قانون مذہبی منافرت کی کسی بھی وکالت کو واضح طور پر ممنوع قرار دیتا ہے۔واضح رہے کہ چند روز قبل سٹاک ہوم کی بڑی مسجد کے سامنے عراق سے تعلق رکھنے والے 37 سالہ پناہ گزین سلوان مومیکا نے قرآن کی بے حرمتی کی تھی۔یورپی یونین نے بھی اس واقعے کو شدید انداز میں مسترد کرتے ہوئے اسے ’جارحانہ، توہین آمیز اور اشتعال انگیزی پر مبنی اقدام‘ قرار دیا ہے۔