میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدے کی منظوری

آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدے کی منظوری

جرات ڈیسک
اتوار, ۲ جولائی ۲۰۲۳

شیئر کریں

پاکستان کا بین الاقوامی مالیاتی فنڈز (آئی ایم ایف) سے 3 ارب ڈالرز کا معاہدہ طے پا گیا۔اسٹاف لیول معاہدے کی منظوری آئی ایم ایف کا ایگزیکٹیو بورڈ دے گا، جس کے لیے اجلاس جولائی میں ہو گا۔اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت پاکستان کو متوقع ڈھائی ارب کے بجائے 3 ارب ڈالرز ملیں گے۔آئی ایم ایف کی جانب سے 3 ارب ڈالرز کا اسٹاف لیول معاہدہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ 9 ماہ کا اسٹینڈ بائی معاہدہ طے پاگیا ہے۔آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ معاہدے سے پاکستان کو بیرونی ممالک اور مالیاتی اداروں سے فنانسنگ دستیاب ہو سکے گی۔
معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے متنبہ کیاہے کہ اب پاکستان کو زیادہ مالیاتی ڈسپلن دکھانا ہو گا۔آئی ایم ایف نے مزید کہا ہے کہ پاکستان مالیاتی ڈسپلن کو یقینی بنائے، توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی جائیں،آئی ایم ایف نے یہ بھی واضح کیا ہے نیا پروگرام پرانے پروگرام کے ختم ہونے کے بعد شروع کیا جائے گا، پاکستان کا موجودہ بحران حل کرنے کے لیے سختی سے پالیسی اقدامات پر عمل درآمد ضروری ہے،آئی ایم ایف نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ مارکیٹ کے مطابق ایکس چینج ریٹ نافذ کیا جائے۔ آئی ایم ایف معاہدے کے بعد اسلامی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک سے بھی پیسے مل جائیں گے۔وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ معاہدے سے معاشی استحکام لانے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں مدد ملے گی۔معاہدہ پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو بہتر کرنے میں معاون ہو گا۔معاہدے کے بعد عارضی طور پر روپے کی قدر میں بہتری کا امکان ہے اور اسٹاک مارکیٹ پر بھی مثبت اثر پڑے گا،لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ کہہ کر عوام کی امیدوں پر اوس ڈال دی ہے کہ اس معاہدے سے مہنگائی کم نہیں ہوگی بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوسکتاہے،اگرچہ انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اب اشرافیہ لپیٹ میں آئے گی لیکن اس طرح کے دعووں کی حقیقت سے سب ہی واقف ہیں۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے اپنی پریس کانفرنس میں واضح طورپر بتادیاہے کہ اس معاہدے کی آئی ایم ایف کے بورڈ سے منظوری کیلئے بجلی کی قیمت میں اضافہ کیاجائے گا اور یہ اضافہ معمولی نہیں بلکہ اسحاق ڈار کے مطابق یہ اضافہ 3 سے4 روپے فی یونٹ کا ہوسکتا ہے جس کا اطلاق جولائی سے ہوگا،وزیرخزانہ نے پیٹرولیم لیوی کی مد میں ہر مہینے ڈھائی، ڈھائی روپے بڑھانے کی بات کی تھی لیکن ان کی پریس کانفرنس کی گونج ابھی باقی ہی تھی کہ اس میں ایک ساتھ 5 روپے کا اضافہ کرکے اس کا اطلاق بھی کردیاگیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ آئی ایم ایف کی ایما پر اضافی ٹیکسوں کے نفاذ کے بعد بجلی اور پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کا ایک اور سیلاب نازل ہوجائے گا،جس سے عام آدمی کیلئے جو پہلے ہی ادھ مرا ہوچکاہے زندہ رہنا محال ہوجائے گا دوسری جانب بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے صنعتیں بری طرح متاثر ہوں گی ان کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا اور ان کیلئے بیرون ملک سے کئے ہوئے معاہدوں کے مطابق انھیں مال کی سپلائی اور نئے آرڈر لینا مشکل ہوجائے گا کیونکہ اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے بعد بیرونی منڈیوں میں دیگر ممالک کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہوجائے گا،اس صورت حال سے ہماری برآمدات جو پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہیں مزید سکڑ جائیں گی جس سے ایک طرف ملک میں بیروزگاری میں اضافہ ہوگا اور دوسری طرح زرمبادلے کی کمی کے سبب حکومت کو موجودہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کرنا بھی مشکل ہوجائے گا،جبکہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت اب حکومت درآمدات پربھی پابندی عاید نہیں کرسکے گی،موجودہ صورت حال میں حکومت کو سرکاری اخراجات میں سختی کے ساتھ کٹوتی کرنا پڑے گی اگر حکومت نے اصلاحات کر لیں تو آئی ایم ایف کے بورڈسے معاہدے کی منظوری یعنی توثیق کرانے میں آسانی ہو گی لیکن اگرموجودہ حکومت اپنی سیاسی ترجیحات گئی تو پھر گڑ بڑ ہو جائے گی، آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل تو ہو گئی ہے لیکن 8 ماہ میں بہت زیادہ نقصان بھی ہوا ہے۔حکومت کو ا س معاہدے کیلئے پاپڑ بیلتے ہوئے کافی سبق مل چکاہے اور اب حکومت کو زیادہ ہوشیاری دکھاتے ہوئے نئی تھیوریز نہیں لانی چاہئیں، آئی ایم ایف کا واضح فارمولا ہے جس پر وہ عمل کرتا ہے،وزیر خزانہ اور وزیر اعظم دونوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ مسئلہ آئی ایم ایف کا نہیں ہمارا ہے، آئی ایم ایف کہہ رہا ہے کہ اپنا گھر سیدھا کرو، ہم اپنا گھر درست نہیں کر رہے تو یہ قصور آئی ایم ایف کا نہیں ہمارا ہے؟بین الاقوامی مالیاتی فنڈز کا کہنا ہے کہ پاکستان کو مسائل کے حل کے لیے پالیسیوں پر سختی سے عمل کرنا ضروری ہے۔
پاکستان کی مو جودہ معاشی صورت حال کا موازنہ کریں تو شہباز شریف اس کی وجہ سے بھاگتے دوڑتے نظر آرہے تھے مگرانھوں نے سابقہ حکومت پر تمام ملبہ ڈالنے کی کوششوں کے سوا ماضی کی خامیوں کو کبھی عیاں نہیں کیا، مسلم لیگ (ن) کوئی پہلی بار اقتدار میں نہیں آئی مگر اس مرتبہ اس حکومت کو آئی ایم اہف سے،معاہدے کیلئے جس طرح الٹا لٹکناپڑا ہے شاید اس سے پہلے ایسی صورت حال کبھی پیدا نہیں ہوئی تھی،اس لئے توقع کی جاتی ہے کہ شایدہمارے وزیر خزانہ اس مرتبہ کچھ بہتر کر دیں جبکہ تمام سیاسی جماعتوں کی شاہ خرچیاں دیکھتے ہوئے محسوس نہیں ہو رہا کہ عوام پہ بوجھ کچھ کم ہوسے گا،پاکستان 1958 سے 2019تک 22 مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چُکا ہے مگر بدقسمتی سے آئی ایم ایف سے ملنے والے فند کا بیشتر حصہ مبینہ طورپر معاشی پلان پہ خرچ ہونے کی بجائے غیر ترقیاتی کاموں پہ خرچ ہوتا رہا یا مبینہ طورپر بالواسطہ یا بلاواسطہ طریقے سے نجی اکاؤنٹس میں منتقل ہوکر بیرون ملک بھیجا جاتا رہاتاکہ وہاں مزید املاک خرید کر اپنی اولادوں کی اولادوں کا مستقبل محفوظ بنایاجاسکے، زراعت پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔اس وقت پاکستان کا لاکھوں ایکڑ زرعی رقبہ غیر آباد ہے۔96لاکھ ہیکٹر رقبے میں سے 2لاکھ ہیکٹر قابل کاشت ہے۔لاکھوں ایکڑ صحرائی رقبہ غیر آباد ہے،جبکہ ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ غیر آباد رقبہ بھی تھوڑا نم ہو اور اُس پہ ہل چلایا جائے تو قابل کاشت ہو سکتا ہے اور غیر آباد زمین بھی قابل کاشت ہوسکتی ہے لیکن اس طرف دھیان دینے کی کسی نے ضرورت ہی تصور نہیں کی نتیجتاً ہماری سونا اگلتی زمین کنکریٹ کے پہاڑوں یعنی رہائشی منصوبوں میں تبدیل ہوتی گئی اس کیلئے ہرے بھرے آم کے باغات کاٹ دئے گئے لیکن کسی نے دھیان دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی اور نہ ہی ناقابل کاشت سمجھ کر بنجر چھوڑ دی جانے والی زمین کو قابل کاشت بنانے کی کسی اسکیم پر غور کیا گیا،ہمارے حکمرانوں نے یہ سوچنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی کہ اگر عرب کے صحرا گل وگلزار بن سکتے ہیں افریقہ کے صحراؤں میں کاشت ہوسکتی ہے تو ہمارے ریگزاروں کو سونا اگلنے
کے قابل کیوں نہیں بنایا جاسکتا۔جو ہوچکا اس پر آنسو بہانے کے بجائے اب اس سلسلے میں باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں،اس کیلئے ضروری ہے کہ عام کسانوں کو زراعت کے جدید ترین طریقے سکھائے جائیں اور انھیں بتایاجائے کہ ان طریقوں پر عمل کے ذریعے ان کی فصل روایتی طریقوں کے مقابلے میں دگنی بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے،زراعت کے جدید طریقے اپنانے کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی کی جائے اور عام یعنی چھوٹے کاشتکاروں کو مناسب سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے، کسانوں کو کھاد اور بہتر ادویات مناسب قیمتوں پر مہیا کی جائیں۔کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کاشت کے دوران ان چیزوں کی ضرورت پیش آتی ہے تو یہ چیزیں کسانوں کومہنگے داموں ملتی ہیں جس سے فصل کی لاگت بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے کسان کھاد اور جراثیم کش اشیا کے استعمال میں کنجوسی سے کام لینے پر مجبور ہوتاہے جس سے فی ایکڑ پیداوار میں کمی آجاتی ہے اور بنیادی خوراک بھی عوام کی قوت خرید سے باہر ہو جاتیں ہیں۔پاکستان قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے مالا مال ملک ہے، اگر معاشی استحکام کی مربوط،پائیدار اور دیرپا حکمت عملی سے ان وسائل کے ساتھ استفادہ کیا جائے تو کوئی مشکل نہیں کہ ملک عزیز کو معاشی محرانوں سے نکالا جا سکے لیکن اب تک نہ تو اس کیلئے کوئی پلان بنایاگیاہے اور نہ ہی اس کی جانب قدم نہیں اُٹھایا جائے گا،جبکہ حقیقت یہ کہ جب تک ایسا نہیں کیاجاتا تب تک قرضوں کے چنگل سے نکل کر خود انحصاری کی جانب پیش رفت ممکن نہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ دعا کریں کہ اب مزید آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہ پڑے، پاکستانی عوام کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ مملکتِ خداداد پاکستان ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے ”عالمی مہاجنوں ” کے شکنجے سے آزاد ہو کر خود اپنی معاشی اور مالیاتی پالیسیاں ترتیب دے۔ غیر ملکی قرضوں پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے انسانی اور قدرتی وسائل کو بروئے کارلاکر ملک کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنائے۔لیکن یہ کام صرف دعاؤں سے نہیں ہوسکتا،”خود کردہ لاعلاج نیست“ ہمارے ہر دور کے حکمرانوں نے عوام کی ن خواہشات کے برعکس غیر ملکی قرضوں کے سہارے ہی ملکی معیشت کو چلانے کی کوشش کی اورغیر ملکی قرضوں کی رقم ملکی ترقی کے منصوبوں پر خرچ کرنے کے بجائے مبینہ طورپر اپنی تجوریاں بھرنے کیلئے استعمال کیا جس کے نتیجے میں آج صورتحال یہ ہے کہ ہم 130ارب ڈالر سے زائد قرضوں کی دلدل میں پھنس چکے ہیں اور ہم اِن قرضوں پر ”سود در سود” بھی ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ہماری معیشت مکمل تبا ہی کے دہانے پر ہے جسے سنبھالا دینے کیلئے ہم اپنے دوست ممالک سے ”دھڑا دھڑ”قرضے لینے کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مسائل میں گھری ہوئی قومیں پورے حوصلے، محنت، جذبے اور عزم صمیم کے ساتھ بہتر منصوبہ بندی کر کے جامع حکمتِ عملی کے ذریعے ”مشکلات کے بھنور ”سے باہر نکل آتی ہیں۔ یہ بات حیران کن حد تک تکلیف دہ ہے کہ ہم سونے، تانبے، کوئلے، گیس، تیل سمیت قیمتی معدنی خزانے رکھنے کے باوجود” کشکول گدائی” کیوں اٹھائے پھرتے ہیں؟ ایک رپورٹ کے مطابق ہماری بڑی صنعتوں کی پیداوارمیں 21فیصد کی ریکارڈ کمی ہو چکی ہے جبکہ ٹیکسٹائل اور اسٹیل انڈسٹری کے بندہونے کا خطرہ ہے۔ ہماری آٹو موبائل کی پیدا وار میں 46 فیصد، وڈ انڈسٹری64فیصد، ادویہ سازی 24فیصد، اسپورٹس گڈز، لیدر، سرجیکل آلات، کارپٹس اور دیگر صنعتوں کی پیدا وار میں بھی نمایاں کمی ہو چکی ہے۔ ہماری درمیانے اور چھوٹے درجے کی صنعتیں بجلی گیس
پیٹرول کے مہنگے ہونے اور ٹیکسوں میں اضافے کی وجہ سے اپنی پوری استعداد سے نہیں چل رہیں۔ ہماری برآمدی مصنوعات کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے ہماری مجموعی صنعتی پیداوار کا گراف بھی نیچے گر چکا ہے۔ صنعتی شعبے میں آنے والے بحران کی وجہ سے بے روزگاری کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس صنعتی بحران کی وجہ سے جہاں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی چاندی ہوگئی وہاں ہماری مارکیٹیں غیر ملکی مصنوعات سے بھر چکی ہیں اور اسمگلنگ کا دھندا عروج پر ہے۔ اب بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کے بعد صنعتوں کی بحالی کی رہی سہی امید بھی ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔ پاکستان کو اس مشکل ترین صورتحال سے باہر نکالنے او اپنے زرمبادلہ کے ذخائرصورت حال بہتر بنانے کیلئے ہمیں زرعی اور صنعتی دونوں شعبوں پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ ہمیں بیمار صنعتوں کی بحالی اور ان کو استعداد کے مطابق چلانے کیلئے حکمتِ عملی تیار کرنا ہوگی۔ ہمیں زرعی شعبے کو مضبوط کرنے کا سوچنا ہے؟ ہمیں ملک کو آنے والے غذائی بحران سے بچانے اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ٹھوس اور جامع عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ملک کی مجموعی قومی پیداوار کو بڑھا کر شرح نمو میں قابلِ قدر اضافہ کرنے کی قابل عمل تدبیریں کرنا ہوں گی اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری اور برآمدات کے گراف کو حقیقی طور پر بڑھانے، روزگار کے زرائع بڑھانے اور خاص کر تعلیم یا فتہ و ہنر مند افراد کی ”دھڑا دھڑ” بیرونِ مملک جانے یعنی ”برین ڈرین” کو روکنے کیلئے کیا حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم سب اپنے اختلافات بھلا کر بحیثیت قوم متحد ہو جائیں ہمارے تمام سیاستدانوں، حکومت اور اقتصادی ماہرین کی یہ قومی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کو موجودہ معاشی اور مالیاتی بحران سے نکالنے اور سے دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس کیلئے ایسی قابل عمل حکمت عملی ترتیب دینے کی کوشش کریں جو حکومت کی تبدیلی کے باوجود قابل عمل رہے جب تک ایسا نہیں ہوگا ہم صرف قرضوں کی منطوری ہی پر بغلیں بجاتے رہیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں