حضرت بلال حبشی
شیئر کریں
میر افسر امان
نام بلال بن رباح، والدہ کا نام حمامہ تھا۔حبشی نژاد غلام تھے۔ مکہ میں ہی پیدا ہوئے تھے۔ ان کے آقاکا نام جمح تھا۔حضرت بلال صورت میں تو سیاہ تھے، مگر اسلام نے ان کو عربوں کا سردار بن دیا تھا۔ ان کا دل شروع سے شفاف تھا۔ ان کو ایمان اس وقت نصیب ہوا، جب وادی بطحہ کی اکثر گوری مخلوق غرور اور حسن کے زعم کی گمراہیوں ٹھوکریں کھا رہی تھی۔ شروع میں جن بزرگوں نے داعی حق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو لبیک کہا تھا ان سات میں سے ایک حبشی غلام حضرت بلال تھے۔ حضرت بلال نے اسلام کے لیے بہت ہی مصیبتیں برداشت کیں۔ تپتی ریت پر لیٹا دیا جاتا۔ دہکتے انگاروں پر لٹائے جاتے۔ مشرکین کے شرارتی لڑکے حضرت بلال کے گلے میں رسی ڈال کر بازاروں میں پھراتے۔ ابو جہل ان کو سنگریزوں پر لٹا کر اوپر سے چکی کاپاٹ رکھ دیاتھا۔ کہتا، لات و منات کو خدا مانو۔ طرح طرح کی اذیتیں دیتا، مگر حضرت بلال کے منہ سے احد احد کی ہی آواز نکلتی۔ مشرکین مکہ میں سے امیہ بن خلف سب سے زیادہ اذیتیں دیتا۔ کبھی گائے کی کھال میں لپیٹ دیتا۔ لوہے کی زرہ پہنا کر جلتی دھوپ میں بٹھا دیتا۔ کہتا کہو، خدا لات اور عزی ہے۔ لیکن حضرت بلال کی زبان سے احد احد کے سوا کچھ بھی نہیں نکلتا۔
اسی طرح حضرت بلال کو اذیتیں دی جارہیں تھیں کہ اُدھر سے حضرت ابوبکر صدیق کا گزر ہوا۔عبرت ناک منظر دیکھ کر حضرت ابو بکر صدیق کا دل بھر آیا۔ ایک گرانقدر رقم معاوضہ میں دے کر اس عاشق رسول اللہۖ کو آزاد کرایا۔ اس کے بعد حضرت بلال پر تکلیفوں میں کمی آئی۔حضرت بلال دوسرے صحابیوں کے ساتھ جب مدینہ ہجرت کر گئے توحضرت ابوردیحہ بن عبداللہ بن عندالرحمان انصاری سے مواخات ہوئی۔ رسوال اللہ ۖ نے حضرت بلال کی شادی ایک عرب کے ابو بکر نامی (ابوبکر صدیق نہیں)کی بیٹی سے کرائی تھی۔ اس طرح رسول اللہۖ نے ایک حبشی اور عرب کے درمیان تفریق مٹا دی۔صحابی جب مدینہ پہنچے تو سب سے پہلے مسجد تعمیر کرائی گئی۔اس میں پانچ وقت کی نمازیں شروع ہوئیں۔ حضرت بلال پہلے شخص تھے کہ جن کو رسول اللہۖ نے اذان دینے پر لگایا۔ اس طرح حضرت بلال وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے نمازیوں کو مسجد بلانے کے لیے اذان دی۔حضرت بلال سفر و حضر میں رسول اللہۖ کے ساتھ رہتے تھے اور رسول ا للہۖ کے موذن خاص تھے۔ حضرت بلال رسول اللہۖ کے ساتھ مشہور غزات میں شریک ہوتے تھے۔ غزوہ بدر میں انہوں نے امیہ بن خلف جو اسلام کا بڑا دشمن تھا اور ان پر مکہ میں ظلم و ستم بھی کرتا تھا کو جہنم واصل کیا۔ غزوہ فتح مکہ کے بعد رسول اللہۖ نے بلال کو حکم دیا کہ خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دے۔ آپ نے خانہ کعبہ کی چھت پر پہلی اذان بلالی دی۔حضرت ابو بکر صدیق کے دور حکومت میں ان کے ساتھ رہے اور انہیں جنگوں میں شریک ہونے سے روکے رکھا۔حضرت عمر کا دور آیا تو حضرت بلال نے ان سے جنگوں میں شریک ہونے کی درخواست کی جو منظور ہوئی۔ پھر حضرت بلال شام کی جنگوں میں شریک ہوئے۔حضرت بلال نے رسول اللہ ۖ کے بعد اذان دینا بند کر دیا تھا۔ جب حضرت عمر نے درخواست کی تو اذان پھر سے دی۔ اذان سن کو حضرت عمر اتنے روئے کہ ہچکی بندھ گئی۔ اسی طرح حضرت ابو عبیدہ اور حضرت معاذ بن جبل بھی بہت روئے۔ اصل میں ان حضرات کو رسول اللہۖ کا دور اور اذانِ بلالی یاد آگئی تھی۔حضرت عمر کادور خلافت تھا۔حضرت عمر کی محفل میں عرب کے سردار تشریف فرما تھے۔ اتنے میںحضرت بلال تشریف لے آئے۔ حضرت عمر نے عرب کے سرداروں سے کہا کہ ہمارے سردار آئے ہیں ان کے لیے جگہ خالی کرو۔ عرب کے سرداروں نے حضرت بلال کے لیے جگہ خالی کی اور خود سب سے پیچھے جا کر بیٹھ گئے۔ آپس میں چہ مگوئیاں کرنے لگے کہ ایسا وقت آ گیا ہے۔پھر ان کی سمجھ میں آیا کہ جس وقت اسلام مشکل میں تھا تو حضرت بلال نے اسلام کا ساتھ دیا تھا۔ اب تم ،تب ہی عزت پا سکتے ہوکہ اسلام کا جھنڈا بلند کرنے کے لیے جنگوں میں شریک ہو۔ اسلام کی خدمت کروتو تب اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتے ہو۔ حضرت بلال بہت اچھے اخلاق کے مالک تھے۔جب شام میں مقیم تھے تو ایک دفعہ خواب میں رسول اللہۖ آئے۔ فرمایا ہم سے ملاقات کرو۔ فوراً مدینہ پہنچے۔ روضہ اقدس پر حاضری دی۔ حسن اور حسین کو گلے سے لگایا۔ ان دونوں کی فرمائش پر فجر کی اذان دی۔ بلالی اذان سن کر سارا مدنیہ مسجد کی طرف اُمنڈآیا۔ رسول اللہ ۖ کا زمانہ لوگوں کو یاد آگیا۔بیان کیا جاتا کہ ایسا سماں اس سے قبل مدینہ میں کبھی بھی دیکھنے کو نہیں ملا۔حضرت بلال شام میں مقیم ہو گئے تھے۔ دمشق میں ہی20 ہجری میں وفات پائی ۔ ساٹھ سال عمر پانے کے بعد دمشق میں باب الصغیر میں مدفون ہوئے۔
٭٭٭