میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آئی ایم ایف اور ایل ڈبلیو ایم سی

آئی ایم ایف اور ایل ڈبلیو ایم سی

ویب ڈیسک
اتوار, ۲ جولائی ۲۰۲۳

شیئر کریں

۔۔۔
روہیل اکبر
عید کے تینوں دن خیریت سے گزر گئے بلکہ حکمرانوں نے آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے کی خوشخبری سناتے ہوئے ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کرکے اس باقاعدہ طور پر جشن بھی منایا اور اب آنے والے دنوں میںبجلی بھی مزید مہنگی ہو جائیگی جس سے کھانے پینے والی اشیاء تو مہنگائی کی لپیٹ میں آئیں گی ،وہیںپر عوام کا جینا بھی مشکل ہو جائیگا۔ پہلے ہی لوگوں کے مالی حالات اتنے خراب ہیں کہ زندگی پر موت کو ترجیح دی جارہی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ہماری معیشت کا جنازہ کس دھوم سے نکلے گا کیونکہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ طے پا گیا۔ جس کے مطابق پاکستان کو آئی ایم ایف سے 3ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام کی ابتدائی منظوری مل گئی جس سے ڈیفالٹ کا خطرہ بھی کم ہو گیا۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 3ارب ڈالر مالیت کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے معاہدے پر اتفاق ہوا ہے۔ ابھی یہ پیسے پاکستا ن کو ملے نہیں ہیں کیونکہ یہ معاہدہ ابھی بھی آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے۔ اگر ایمانداری سے دیکھا اور پرکھا جائے تو اس معاہدے کے بغیر ہمارا زندہ رہنا مشکل تھا۔ یہ پیسے نہ آتے تو ہم اپنے قرضے کی قسط کیسے جمع کرواتے اور ملک کے اندورجو کھانے پینے والے معاملات ہیں وہ کیسے آگے بڑھتے اب پیسے آنے سے ترقیاتی کام بھی ہونگے جس میں کمیشن مافیا بھی اپنا حصہ وصول کریگا۔ اسی کمیشن سے تو ہمارے سرکاری افسران کروڑوں نہیں بلکہ اربوں پتی بن چکے ہیں۔ بلوچستان میں پانی کی ٹینک سے کروڑوں روپے بھی ایک سرکاری اہلکار سے ملے تھے اور ابھی کراچی میں سیکریٹری لوکل گورنمنٹ بورڈ سندھ کے گھر سے اربوں روپے ،آئس اور ولائتی شراب برآمد ہوئی ہے۔ یہ سب پاکستان کے غریب لوگوں کے پیسے ہیں جو آج روٹی سے بھی تنگ آئے ہوئے ہیں یہاں ہر ادارے میں ایسے درجنوں افراد مل جائیں گے جو ضمیر عباسی کو بھی چور بازاری اور لوٹ مار میں ضمیر عباسی کو بھی پیچھے چھوڑ جائیں گے۔ رہی بات سیاستدانوں کی وہ تو لانچوں اور ہوائی جہازوں میں مال بھر بھر کر پاکستان سے باہر لے جاتے رہے۔
دنیا کے بیشتر ممالک میں پاکستانیوں کے اربوں روپے موجود ہیں رہی بات آئی ایم ایف کی تو وہ بلاشبہ قرضے اس لیے دیتے ہیں کہ غریب ممالک اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں اور اس قرضہ سے پاکستان اپنے موجودہ چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے مستحکم پالیسی پر عمل درآمد کرسکتاہے بشمول زیادہ مالیاتی نظم و ضبط، بیرونی دبائو کو جذب کرنے کے لیے مارکیٹ کا تعین شدہ زر مبادلہ کی شرح اور اصلاحات پر مزید پیش رفت، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں موسمیاتی لچک کو فروغ دینے اور بہتر بنانے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ آئی ایم ایف کاابھی فی الحال پاکستان کے ساتھ 9ماہ کا اسٹینڈ بائی معاہدہ طے پایا ہے جس سے پاکستان کو بیرونی ممالک اور مالیاتی اداروں سے فنانسنگ بھی دستیاب ہوسکے گی۔ پاکستان کو متحدہ عرب امارات(یو اے ای)سے آئندہ چند دنوں میں مزید ایک ارب ڈالر اور سعودی عرب سے بھی مزید 2ارب ڈالرملنے کی امید ہے۔ اس معاہدے کے بعد پاکستان کو عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے رکی ہوئی دوارب ڈالر کے مالیت کی فنانسنگ بھی ملنا شروع ہو جائے گی اور ساتھ ہی سیلاب کی تباہ کاریوں کی تعمیر نو کیلئے عالمی برادری کی جانب سے کئے گئے امداد کی فراہمی کے اعلان پر بھی عملدرآمد شروع ہوجائے گا۔ اس معاہدہ کی مظوری کے لیے سیکریٹری خزانہ امداد اللہ بوسال کردہ کا کردار بھی لائق تحسین ہے اگرآئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے کی بات کی جائے تو پی پی پی اس کھیل میں بہت آگے پائی جاتی ہے جس نے 10 بار کامیابی سے آئی ایم ایف سے قرضہ لیا ہے اگر دیکھا جائے تو 1958 وہ سال تھا جب پاکستان نے پہلی بار انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے رابطہ کیا اس وقت 3 روپے کا ایک ڈالرملتا تھا جو 1965 کی جنگ میں بڑھ کر 7 روپے تک پہنچ گیا ۔پاکستان حالت جنگ میں ہونے کے باوجود معاشی معاملات میں بہت بہتر تھا ہم قرضے وقت پر واپس کررہے تھے 1973 میں بنگلہ دیش کی علیحدگی نے ہماری کمر توڑ دی۔ ذوالفقار علی بھٹو محض 3.42 بلین ڈالر کا قرضہ لیاجوہم وقت پر واپس نہ کر سکے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستان کو ڈالر مل رہے تھے اور 2 بلین ڈالر کا قرض آئی ایم ایف کو واپس بھی کردیا۔ 1988 میں بینظیر بھٹو کی حکومت نے بین الاقوامی اداروں سے 2 قرض پیکیج لیے اور اس وقت تک ڈالر 18 روپے تک پہنچ چکا تھا۔یہ قرضے 1990 اور 1992 تک ادائیگی کے لیے طے تھے اور پھر ملک کی سپریم کمانڈ تبدیل ہوئی 1990 میں نواز شریف پہلی بار اقتدار میں آئے اور انہوں نے لیے ہوئے دوسرے اور تیسرے قرضوں کی ادائیگی کی بجائے 1993 میں ایک بلین ڈالر کا قرض لے لیا جسکے بعد 1993 تک پاکستان 3 بین الاقوامی غیر ادا شدہ قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا تھا اور اس کے باوجود 1994 میں بینظیر بھٹو نے آئی ایم ایف سے ایک اور پیکیج لینے کا فیصلہ کرلیا ۔یہ وہ وقت تھا جب پاکستان نے پہلی بار قرضوں کی بجائے قرضوں پر سود ادا کرنا شروع کیا۔ پاکستان قرضوں کی دلدل کے معاشی جال میں پھنستا گیااور حکومتیںبھی بدلتی رہیں لیکن ہماری معیشت مستحکم نہ ہو سکی۔ 1995 سے 1999 کے درمیان برسراقتدار حکومتوں نے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) سے 3 اضافی قرضے بھی لے ڈالے 1995 میں ہم 39 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کا بوجھ اٹھائے کھڑے تھے اور پھر1999 میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب قرضوں کی واپسی کے لیے پاکستان تقریباً معذور ہوچکاتھا اور ہم قرض دینے والی ایجنسیوں کو پہلے سے لیے گئے قرضوں پر سود بھی ادا نہیں کر سکے۔
مختصر یہ کہ جو صورتحال اب ہے وہی اس وقت بھی تھی اور اوپر سے ملک پر فوجی آمریت کی وجہ سے آئی ایم ایف نے قرضوں اور سود کی قسطوں کی ادائیگی میں نرمی دینے سے بھی انکار کردیا اور جن ممالک کے ساتھ پاکستان تجارت کر رہا تھا ان میں سے بیشتر نے آئی ایم ایف کے کہنے پر پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائدکردی اور پھر 9/11 کا واقعہ ہوگیاورلڈ ٹریڈ سینٹر میں لوگوں کی ہلاکت نے مشرف کی قسمت بدل دی۔ امریکہ کو افغان جنگ میں اتحادی کے طور پر پاکستان سے مدد کی ضرورت تھی اور مشرف نے اس موقع کو فائدہ اٹھایا اقتصادی پابندیاں ہٹا دی گئیں اور مشرف آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک دونوں کو قرضوں کی قسطوں کو دوبارہ ترتیب دینے کے لیے قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ 1999 اور 2000 میں معاشی سروے کی بنیاد پر پرویز مشرف نے پیرس کلب سے ملاقات کی اور پاکستان کو اس طوفان سے نکالا جو ملک کی مکمل معیشت کو اپنی لپیٹ میں لینے والا تھا۔ رفتہ رفتہ معیشت مستحکم ہونے لگی اور پاکستان قرضوں پر موجودہ تمام
سود اور کچھ قرض خود بھی ادا کرنے کے قابل ہو گیا۔ 2008 میں کل بیرونی قرضہ جو 39 بلین ڈالرتھا کم ہو کر 34 بلین رہ گیا یہی وہ سال تھا جب وژن 2020 پیش کیاجس کے مطابق 2020 تک پاکستان قرضوں سے پاک ملک بن جائے گا۔ 2000 سے 2008 تک 9 سال میں پاکستان میں ڈالر کی قدر میں استحکام رہا۔ یہ 52 اور 62 کے درمیان رہالیکن 2008 میں بے نظیر بھٹو کے انتقال کے بعدجب آصف علی زرداری نے صدر پاکستان بن کر حکومت سنبھالی تو پاکستان میں بدترین معاشی بدحالی کے دور کا آغاز ہوگیا۔ آصف علی زرداری ایک بار پھر آئی ایم ایف کے پاس گئے اس بار 7.2 بلین ڈالر کا قرضہ لیا گیا ۔ڈالر کی قیمت بڑھنے لگی مجموعی قرضہ جو 39 سے کم ہو کر 34 ارب ڈالررہ گیا تھا وہ بڑھ کر 59 ارب ڈالرہو گیا۔ اسکے بعدن لیگ کا سنہرا دور شروع ہوا تو بیرونی قرضہ 59 بلین ڈالر سے بڑھ کر 93 بلین ڈالرتک پہنچ گیا۔ جولائی 2016 سے جنوری 2017 تک صرف 6 ماہ میں پاکستان نے حیرت انگیز طور پر 4.6 بلین ڈالر کا نیاقرض لیا جبکہ سکوک بانڈز کی فروخت سے ایک ارب ڈالر آئے اور اس سیل کو کامیاب بنانے کے لیے نیشنل موٹروے کو گروی رکھ دیا گیا ہے یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ قرضوں کے حصول کے لیے تمام قومی ریڈیو اسٹیشنز اور بیشتر اہم سرکاری عمارتیں بھی گروی رکھ دی گئی ہیں اگر اندرونی قرضوں کی بات کریں تو اس میں بھی ایک بڑا سرپرائز ہمارا استقبال کرے گا۔ مشرف دور میں ہر پاکستانی 40 ہزار روپے کا مقروض تھا اور اندرونی قرضہ تین ہزار ارب روپے یا 3 کھرب روپے تھا ۔زرداری کے دور میں یہ اعداد و شمار بڑھ کر 80 ہزار روپے فی پاکستانی اور اندرونی قرضے 12 کھرب روپے ہو گئے نون لیگ نے فی پاکستانی قرضہ 80 ہزار سے بڑھا کر 175 ہزار روپے اور اندرونی قرضہ 21 کھرب روپے کر دیا۔ یہ قرضے ہماری صنعتوں کے لیے بھی کینسرثابت ہوئے۔ بہت سی مصنوعات جو کبھی پاکستان کی مشہور برآمدات تھیں اب ان پر چین اور بنگلہ دیش میڈ کا لیبل لگا ہوتا ہے اورپھر پاکستان درآمدکی جاتی ہیں پچھلے 10 سالوں میں ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری کا تقریباً 70 فیصد حصہ بندہوچکا ہے یا بنگلہ دیش منتقل ہوگیا۔ گزشتہ 60 سالوں میں پاکستان نے تقریبا 22 بار آئی ایم ایف قرضہ لیا ہے اگر ہم انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض لینے کی پاکستان کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو پہلی بار ہم نے آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک 1958 میں دی تھی ۔جب جنرل ایوب خان نے ملک کو سب سے پہلے آئی ایم ایف کے راستے پر لے جا کر اسٹینڈ بائی معاہدے کے تحت خصوصی ڈرائنگ رائٹس (SDR) 25 ملین کے حصول کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے اسکے بعد ایوب کی فنانس ٹیم نے بالترتیب 1965 اور 1968 میں آئی ایم ایف کے دو بیک ٹو بیک پروگراموں کی پیروی کی جہاں پاکستان باضابطہ طور پر آئی ایم ایف کا نیا کلائنٹ بن گیا ایوب خان کے بعد ذوالفقار علی بھٹونے 18 مئی 1972 کو ایک بار پھر ریاست کو آئی ایم ایف کے دروازے پر لے گئے ان کے دور میں، پاکستان 1972 سے 1974 تک مسلسل تین بار آئی ایم ایف کے پاس گیاتب سے لیکر اب تک یہ سلسلہ رکا نہیں تھما نہیں اگردیکھنا ہوکہ قرضوں کی دوڑ میں سب سے آگے کون ہے تو مجموعی طور پر 47 فیصد قرضے پی پی پی نے حاصل کیے اس کے بعد مسلم لیگ (ن) نے 35 فیصد جبکہ فوجی آمریتیں محض 18 فیصد کے ساتھ پیچھے رہ گئیں آج صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف ایٹمی طاقت کے دیوالیہ ہونے کی باتیں ہو ر ہی تھی تو دوسری طرف حکمران اشرافیہ اور کرپٹ افسران کے بیرونی اکاونٹس پھل پھول رہے تھے۔ اب ذرا ہماری کم عقلی کی انتہا بھی ملاحظہ فرمائیں کہ ہمیں اپنے قرض کی قسط ادا کرنے کے لئے بھی دنیا کی منت سماجت کرنا پڑتی ہے اور دنیا ہم کو قرض دینے کو تیار نہیں آئی ایم ایف نے قرض دینے کی ہامی بھری ہے تو ہم خوشی سے شادیانے بجا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے ہیں اور قرض ملنے کی امید پر فخر کررہے ہیں کہ اس قرض سے ہم اپنا پرانا قرضہ اتاریں گے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ آخر یہ قرض بھی سود سمیت واپس کرنا ہے وہ کون واپس کرے گا؟ ہماری عمر مین تو یہ ممکن نہیں تو پھر کیا ہمارے بچے یا ان کے بچے یا ان کے بچوں کے بچے یہ قرض اتارتے ہوئے غلامی کی زنجیریں پہنیں رکھیں گے۔ ہم وہ غافل قوم ہیں جو اپنی آنے والی نسلوںکو قرض کی غلامی کی زنجیریں ڈال کر خوشی اور فخر محسوس کررہے ہیں ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں