6 مسلم ممالک کے شہریوں کے لیے امریکی ویزے کی نئی شرائط
شیئر کریں
امریکی سپریم کورٹ نے بھی امریکی صدر کے پابندیوں سے متعلق متنازع حکم کی بحالی کی منظوری دے دی
متنازع فیصلے پر عمل درآمد شروع ، مہاجرین کی بحالی کا عمل متاثرہو سکتا ہے، انسانی حقوق کی تنظیموں کا ردِ عمل
شہلا حیات نقوی
امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے صدر ٹرمپ کے چھ مسلم ممالک کے شہریوں پر سفری پابندی کے قانون کی جزوی بحالی کے بعد ان افراد پر امریکی ویزوں کے حصول کے لیے نئی شرائط جمعرات سے نافذ العمل ہو رہی ہیں۔ان شرائط کے تحت ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن کے شہریوں اور تمام پناہ گزینوں کے لیے لازم ہو گا کہ وہ ثابت کریں کہ ان کے قریبی عزیز امریکا میں مقیم ہیں یا ان کے ملک میں کاروباری روابط ہیں۔تاہم وہ افراد جن کے پاس پہلے سے امریکی ویزا موجود ہے وہ ان شرائط سے متاثر نہیں ہوں گے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے اس سلسلے میں متعلقہ سفارتخانوں اور قونصل خانوں کو نئی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ان ہدایات کے مطابق ایسے افراد کو ہی ویزا جاری کیا جا سکے گا جن کے والدین، شوہر یا اہلیہ، بچے، بہو یا داماد یا حقیقی بہن بھائی ہی امریکا میں مقیم ہوں گے اور والدین کے بھائی بہن یا اپنے بھائی بہنوں کے بچے قریبی رشتہ دار تصور نہیں کیے جائیں گے۔امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلم ممالک کے باشندوں پر سفری پابندیوں کے متنازع فیصلے کی حمایت کے بعد امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے ریاست میں داخلی راستوں کے تمام پورٹس پر پابندی کے اطلاق کا حکم جاری کردیا۔واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کا صدارتی عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے جس کے ذریعے ایران، سوڈان، شام، لیبیا، صومالیہ اور یمن کے شہریوں پر امریکا میں داخل ہونے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 27 جنوری کے اس فیصلے میں عراق بھی شامل تھا تاہم بعد ازاں امریکی فوج کی یہاں موجودگی کے باعث عراق کو مذکورہ پابندی کی فہرست سے نکال دیا گیا، اس حکم کے ذریعے شام کے مہاجرین کو بھی ملک میں آنے سے روک دیا گیا ہے۔واشنگٹن سے جاری کردہ بیان میںکہا گیا ہے کہ ’قومی سلامتی کو مد نظر رکھتے ہوئے، ڈپارٹمنٹ آف اسٹیٹ ایگزیکٹو آرڈر پر عمل درآمد کا آغاز کررہا ہے، جس کا مقصد قوم کو غیر ملکی دہشت گردوں کے امریکا میں داخلے سے محفوظ کرنا ہے‘۔ایک بیان میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’بحیثیت صدر، میں ایسے لوگوں کو اپنے ملک میں آنے کی اجازت نہیں دوں گا جو ہمیں نقصان پہنچانا چاہتے ہوں، میں ایسے لوگوں کو چاہتا ہوں جو امریکا اور اس کے تمام شہریوں سے محبت کرتے ہیں، اور جو محنت کرنے والے اور
پیداواری ہوں‘۔محکمہ خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ وہ محکمہ انصاف اور ہوم لینڈ سیکورٹی سے مشاورت کے بعد مزید تفصیلات جاری کریں گے۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے امریکا میں قانونی طور پر مقیم افراد کے عزیزوں کو اس پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا ہے جن میں طلبہ بھی شامل ہیں، تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اس فیصلے سے کون اور کتنے افراد متاثر ہوں گے۔انسانی حقوق کے رضاکاروں نے خبردار کیا ہے کہ یہ فیصلہ مہاجرین کی بحالی کے عمل کو متاثر کرسکتا ہے۔امریکا کی کمیٹی برائے مہاجرین اور پناہ گزین کی چیف ایگزیکٹو اور صدر لاوینا لیمون نے ایک جاری بیان میں کہا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ اس فیصلے نے لوگوں کو مجروح کیا ہے اور اس حوالے سے بہت سی رکاوٹیں موجود ہیں‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے لوگ بھی تھے جن کا کہنا تھا کہ وہ دو سال کے انتظار کے بعد اگلے ہفتے امریکا سفر کرنے والے تھے اور انھوں نے اپنے تمام اثاثے فروخت کر دیے تھے۔
اس پابندی کو عدالت میں چیلنج کرنے والی امریکن سول لبرٹیز یونین کا کہنا تھا کہ ’مشترکہ تعلقات‘ کی شق ان 6 ممالک کے منظور کردہ ویزا درخواستوں پر بھی لاگو ہوگی۔خیال رہے کہ امریکی سپریم کورٹ نے پیر کو امریکی صدر کی پابندیوں کے قانون کی جزوی بحالی کی منظوری دی تھی۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ‘بنیادی طور پر اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ (ایگزیکٹو آرڈر) ان غیرملکیوں پر لاگو نہیں ہوگا جن کا کسی بھی امریکی شخص یا ادارے سے حقیقی تعلق ہے اور ان افراد کے علاوہ دیگر تمام غیر ملکیوں کو اس حکم نامے پر عمل کرنا ہوگا۔’سپریم کورٹ کے ججوں کا کہنا ہے کہ وہ رواں سال اکتوبر میں اس بات کا دوبارہ جائزہ لیں گے کہ آیا صدر ٹرمپ کی اس پالیسی کو جاری رہنا چاہیے یا نہیں۔صدر ٹرمپ کی سفری پابندیوں کے خلاف امریکا بھر میں مظاہرے ہوئے تھے اور جنوری میں صدر ٹرمپ کا ابتدائی حکم نامہ واشنگٹن اور منیسوٹا کی ریاستوں میں منسوخ کر دیا گیا تھا جس کے بعد انھوں نے مارچ میں ایک ترمیم شدہ حکم نامہ جاری کیا جس میں صومالیہ، ایران، شام، سوڈان، لیبیا اور یمن سے لوگوں کا داخلہ ممنوع قرار پایا تھا۔صدر ٹرمپ کے اس حکم نامے میں ان6 مسلم ممالک کے شہریوں پر 90 روز کی سفری پابندی اور پناہ گزینوں پر بھی 120 روزہ پابندی عائد کرنے کو کہا گیا تھا۔ٹرمپ انتظامیہ کا یہ موقف ہے کہ امریکا میں دہشت گردی کو روکنے کے لیے سفری پابندی ضروری ہے۔
دبئی کی ایمریٹس ایئر لائن نے مشرق وسطیٰ کے مسافروں کے لیے نئے سکیورٹی اقدامات کی وجہ سے آئندہ ماہ پانچ امریکی شہروں کے لیے پروازوں کی تعداد کم کرنے کا اعلان کیا ہے۔امریکا نے 8 مسلمان ملکوں کے10 ایئر پورٹس سے مسافروں پر جبکہ برطانیا نے 6 مسلمان ملکوں کے مسافروں پر دوران پرواز سمارٹ فون سے زیادہ بڑے برقی آلات اپنے ساتھ رکھنے پر پابندی عائد کی ہے۔ایمریٹس ایئر لائن کا کہنا ہے کہ امریکا جانے والے مسافروں کی تعداد میں کمی کی وجہ سے پروازیں کم کی جا رہی ہیں۔
ایمریٹس ایئر لائن کی ایک خاتون ترجمان کا کہنا ہے کہ’ امریکی حکومت کی جانب سے ویزے کے اجراء سیکورٹی میں اضافے اور کیبن میں الیکٹرانکس آلات لانے پر پابندی جیسے حالیہ اقدامات کی وجہ سے صارفین کی امریکی سفر میں دلچسپی اور طلب میں کمی آئی ہے۔’ترجمان کے مطابق گزشتہ تین ماہ کے دوران تمام امریکی روٹس پر جانے والی پروازوں پر بکنگ میں قابل ذکر کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ایمریٹس کے صدر ٹم کلارک نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ صدر ٹرمپ کے اعلانات کی وجہ سے امریکا جانے والے مسافروں کی تعداد میں ایک تہائی کمی آئی ہے۔ایمریٹس نے امریکا جانے والے مسافروں پر دوران پرواز لیپ ٹاپ کے استعمال پر پابندی سے نمٹنے کے لیے نئی سروسز کا آغاز کیا ہے جس میں پریمیئر سروس کے مسافروں کے لیے ٹیبلٹس کی سہولت اور جہاز کے گیٹ پر الیکٹرانکس آلات کے چیک ان کی سہولت دینا شامل ہے۔
دوسری جانب متحدہ عرب امارات میں ہی ایمریٹس کی حریف ایئر لائن اتحاد نے کہا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں امریکا جانے والے مسافروں کی تعداد میں قابل ذکر کمی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔اتحاد ایئر امریکا کے چھ شہروں کے لیے پروازیں چلاتی ہے جبکہ ایمریٹس نے 2004 میں امریکا کے لیے پروازوں کا آغاز کیا تھا اور اس وقت 12 امریکی شہروں میں اس کی فلائٹس جاتی ہیں۔ایمریٹس ایئر لائن کو امریکا میں مقامی ایئر لائنز سے تنازع کا سامنا ہے کیونکہ امریکی ایئر لائنز کے مطابق ایمریٹس کو حکومت کی جانب سے سبسڈی ملتی ہے۔