میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جولائی کی جولانیاں

جولائی کی جولانیاں

ویب ڈیسک
اتوار, ۲ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

جولائی موسم کے لحاظ سے گرمی کی شدت لیے ہوتا ہے پھر ہندی میں کہتے ہیں کہ ساون کی برسات اور بھادوں کی گھام (دھوپ)سے جو بچ گیا وہ کامیاب رہتا ہے ورنہ اس شدت کی دھوپ اور حبس میں بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہو جاتا ہے۔ جولائی میں درجہ حرارت تو بہت زیادہ نہیں ہوتا لیکن حبس کی وجہ سے سانس لینا دوبھر ہوتا ہے اور اچھے اچھوں کے لیے یہ حبس مسائل پیدا کر دیتا ہے اور اگر اس میں سیاست کی گرمی بھی شامل ہو جائے تو اس گرمی کو دوآتشہ کہا جا سکتا ہے ۔
جولائی منتخب حکمرانوں کے لیے بہت اچھا نہیں رہا ہے کہ منتخب حکمران اپنے مینڈیٹ کی گرمی اور جولائی کے حبس کو ایک ساتھ برداشت نہیں کر پاتے۔ یوں بادشاہ گروں سے ٹکرا جاتے ہیں اور تخت وتاج سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں مینڈیٹ کی گرمی کے ستائے حکمران اس کا زیادہ شکار نظر آتے ہیں مارچ1977 میں ہونے والے انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی کو دوتہائی سے زیادہ اکثریت حاصل ہوئی تھی لیکن اس وقت کے حزب مخالف کے اتحاد پاکستان قومی اتحاد نے ان نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے حکومت مخالف تحریک کا آغاز کر دیا تھا ۔مارچ،اپریل،مئی اورجون اس تحریک میں گزرے مئی کے آخر میں بآلاخر دونوں فریق اس نتیجہ پر پہنچے کہ سیاسی مسائل کو سیاسی انداز میں حل کیا جائے اور مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ حزب اختلاف کے اتحاد نے اپنے رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا جو تسلیم کرنا مشکل حالات میں پھنسی ہوئی حکومت کی مجبوری تھی کہ پاکستان قومی اتحاد کی صف اول کی قیادت ہی نہیں دوسری ،تیسری اور چوتھی درجہ کی قیادت بھی مقیم زندان تھی، سیاسی قیدیوں کو رہا کیا گیا اور حزب اختلاف کے اتحاد نے باہمی مشاورت سے مفتی محمود کی قیادت میں تین رکنی مذاکراتی وفود تشکیل دیا جس میں پروفیسر عبدالغفور احمد مرحوم اورنوبزادہ نصر اللہ مرحوم شامل تھے۔ جبکہ حکومتی وفد کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو خود کر رہے تھے اور مولانا کوثر نیازی مرحوم اور عبدالحفیظ پیرزادہ مرحوم اس وفد کا حصہ تھے۔ مذاکرات کا آغاز ہوا اور طویل مذاکرات کے بعد فریقین ایک معاہدے پر متفق ہو گئے لیکن ذوالفقار علی بھٹو کو مینڈیٹ کا بخار چڑھا ہوا تھا یوں اُنہوں نے اپوزیشن کی درخواستوں اور اس انتباہ کے باوجود کہ بعض قوتیں حالات کو بگاڑنا چاہتی ہیں اوران قوتوں کو مبینہ طور پر کچھ ایسی قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے جو پاکستان میں جمہوری نظام کو اپنے مفادات کے خلاف سمجھتے ہیں لیکن 30 جون کو معاہدہ طے پانے کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے اس انتباہ کو نظرانداز کیا اور نامعلوم دوستوں کے مشورے پر 2 جولائی کو لیبیا کے دورے پر چلے گئے جہاں ان کے ذاتی دوست معمرقذافی حکمران تھے۔ 3 ؍جولائی کی رات ذوالفقار علی بھٹو دورے سے واپس پہنچے تو پروفیسر عبدالغفور احمد اپنی کتاب "اور لائن کٹ گئی” میں لکھتے ہیں کہ قومی اتحاد کی قیادت نے ذوالفقار علی بھٹو سے رابطہ کیا اور کہا کہ معاہدہ تیار ہے، آج دن میں اس معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے مشترکہ پریس کانفرنس اور ریڈیو،ٹی وی پر مشترکہ خطاب کر دیا جائے تاکہ سازشی عناصر اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکیں ۔لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے اس انتباہ کو بھی نظر انداز کر دیا یوں 4 اور5 جولائی کی درمیانی شب پاکستان پر آمریت کے طویل ترین دور کا آغاز ہوا ضیاء الحق نے آپریشن فیئر پلے کے ذریعہ حکومت کا تختہ اُلٹ دیا ۔ملک میں مارشل لا ء نافذ کر دیا گیا۔ آئین کو منسوخ نہیں معطل کر کے الماری کے اس مقام پر رکھ دیا جہاں کسی کا ہاتھ نہیں پہنچ سکے۔ یوں جولائی کے حبس نے قوم کو تقریباً 11 سال محبوس رکھا ۔
وقت گزرتا رہا 1990 میں میاں محمد نواز شریف اسلامی جمہوری اتحاد کے پلٹ فارم سے الیکشن میں کامیاب ہوئے ان انتخابات کے لیے جاری اسلامی جمہوری اتحاد کے منشور میں واضح طور پر درج تھا کہ حکومت اپنی مدت کی تکمیل سے قبل ملک میں شرعی قوانین کا عملی نفاذ کرے گی لیکن جب وفاقی شرعی عدالت نے 1992 میں سودی نظام کے خاتمہ کے لیے حکومت کو چھ مہینے کی مہلت دی تو سردار آصف احمد علی کے مشورے پر جولائی 1992 میں میاں محمد نواز شریف نے وفاقی شرعی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل داخل کر دی۔ یوں اللہ سے جاری جنگ میں مزید شدت پیدا کر دی۔ نتیجہ کیا نکلااس اپیل کے داخل کیے جانے کے کچھ عرصہ بعد ہی صدر غلام اسحاق خان سے نوازشریف کے اختلافات شروع ہوئے۔ اس دوران ہی جنوری 1993 میں اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل آصف نواز جنجو عہ اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے جس کے نتیجہ میں صدر غلام اسحاق خان اور میاں محمد نواز شریف کے درمیان موجود تلخیوں کی خلیج اور گہری ہو گئی ۔جنرل آصف نواز جنجوعہ کے بعد جنرل عبدالوحید کاکڑ کو کئی جنرلوں کو سپرسیڈ کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیا گیا۔ نواز شریف اور ان کی کچن کابینہ کا انداز اتھا کہ عبدالوحید کاکڑ اس احسان کو فراموش نہیں کرینگے اور ان کے لیے غلام اسحاق خان سے ٹکرانے کے باوجود مسائل میں اضافہ نہیں ہوگا لیکن وہ بھول چکے تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کئی سینئرز جنرل کو نظرانداز کرتے ہوئے ضیاء الحق کو چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیا تھا۔ ایک حکایت ہے کہ جنرل ضیاء الحق کو چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیے جانے سے تقریباً6 ماہ قبل ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ہیڈکواٹرز کا دورہ کیا تھا جہاں جنرل ضیاء الحق چیف آف جنرل اسٹاف کے طور پر تعینات تھے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ جب ذوالفقار علی بھٹو جنرل ضیاء الحق کے قریب پہنچے اس وقت جنرل ضیاء الحق سگریٹ نوشی کر رہے تھے اور ذوالفقار علی بھٹو کو دیکھ کر انہوں نے اپنی جلتی سگریٹ پینٹ کی جیب میں ڈالی اور وہیں مسل کر اسے بجھا دیا لیکن ذوالفقار علی بھٹو بھی بہت گہری نظر رکھتے تھے۔ اُنہوںنے ضیاء الحق کے اس عمل کو اطاعت گزاری اور فرمانبرداری کا عکس جانا ۔اب اس میں کتنا سچ ہے اور کتنا مبالغہ اس کی ذمہ داری تو راوی کے سر ہے ،جس ضیاء الحق کو ذوالفقار علی بھٹو نے اطاعت گزار اور فرمانبردار سمجھ کر چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیا تھا لیکن جب جولائی1977 کے حبس نے ضیاء الحق کوبے قرار کیا تو اس کا قرار ایوان وزیراعظم میں ہی نظر آیا اور یوں ملک پر طویل ترین دورانیے کا مارشل لا نافذ ہو گیا ۔
اگرچہ نواز شریف نے بھی جنرل عبدالوحید کاکڑ کو کئی جنرلوں پر فوقیت دی تھی اور انہیں امید تھی کہ اب راوی چین ہی چین لکھے گا لیکن 18 اپریل1993 کو غلام اسحاق خان نے یہ چین غارت کیا اور آئین کے آرٹیکل58-B/2 کے تحت نواز شریف حکومت کو چلتا کیا اس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی کپٹن (ر) گوہر ایوب خان نے غلام اسحاق خان کی جانب سے اس فیصلے کے اعلان کے ساتھ ہی ذاتی تحریر میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا کہ وہ اسمبلی کے کسٹوڈین ہیں اور اسمبلی کی تحلیل کے خلاف اپیل داخل کروائی۔ سپریم کورٹ نے تقریباً پانچ ہفتہ کی سماعت کے بعد26 مئی 1993 کو اسمبلی اور حکومت کی بحالی کا حکم جاری کیا غلام اسحاق خان کو اپنے اقدام میں جنرل عبدالوحید کاکڑ کی تائیدحاصل تھی ۔یوں سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے جہاں کھلے عام صدر غلام اسحاق خان کو سُبکی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور سپریم کورٹ میاں نواز شریف ان کی حکومت اور اسمبلی کی پشت پر موجود تھی لیکن جولائی نے اپنی جولانیاں دکھائیں اور 18 جولائی 1993 کو جنرل عبدالوحید کاکڑ کے فارمولے کے تحت میاں نواز شریف اور غلام اسحاق خان کو اپنے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہونا پڑا ۔لیکن 26 مئی 1993 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میاں نواز شریف کے نام نہاد جمہوری درجہ حرارت میں جو اضاضہ ہوا تھا، اس کے اثرات تو سامنے آنے تھے اور جب جولائی میںبھادوںکی گھام نے اپنا اثر دکھایا تو میاں صاحب کا درجہ حرارت اتنا بلند ہوا کہ وہ اس کو برداشت نہ کر سکے اور برطرفی کی برف نے انہیں ٹھنڈا کیا ۔
1997 کے انتخابات میں نواز شریف ایک بار پھر دو تہائی کی اکثریت کے ساتھ وزیراعظم بنے تھے اور اس حکومت کے قیام کے ساتھ ہی انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ اکثریت کے بل بوتے پر آئین سے 58-B/2 کی شق نکلوا دی اور قانون سازی کے ذریعہ ممبران اسمبلی کو اطاعت گزار غلام بنا دیا کہ نہ صرف ممبران اسمبلی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ نہیں دے سکتے تھے بلکہ اپنے ضمیر کے مطابق اظہار خیال بھی نہیں کر سکتے تھے ان کا یہ عمل ان کی نااہلی کا سبب بن سکتا تھا میاں صاحب نے سمجھا تھا کہ اس آئینی ترامیم کے بعد اسمبلی ان کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی ہو گی۔فروری1999 میں ایک جانب نوازشریف اٹل بہاری واجپائی کا استقبال کر رہے تھے اور اٹل بہاری واجپائی کے مینارِ پاکستان جانے کو اپنا کارنامہ قرار دے رہے تھے تو دوسری طرف مجاہدین نے کشمیر کے اس برف پوش مقام پر اپنے کیمپ قائم کر لیے تھے جہاں کا درجہ حرارت جون جولائی میں بھی منفی ہوتا ہے جہاں سے یہ مجاہدین کشمیر میں بھارتی فوجوں کی رسد کو روک سکتے تھے۔ کارگل کشمیر کا وہ مقام ہے جہاں موجود کیمپوں سے مجاہدین بھارتی نقل وحمل کو تو روک سکتے تھے لیکن بھارتی فوج کے لیے انہیں نشانا بنانا آسان نہ تھا لیکن جب اٹل بہاری واجپائی نے بل کلنٹن کے ذریعہ نواز شریف پر دباؤ ڈالا تو جولائی کے حدت نے نواز شریف کو یہ دباؤ قبول کرنے پر مجبور کر دیا ۔جولائی1999 میں ہی نواز شریف امریکا یاترا پر گئے اور کارگل سے مجاہدین کی واپسی کا معاہدہ کرآئے۔ یہ معاہدہ 14 جولائی1999 کو ہوا اور26 جولائی 1999 کو کارگل ایک بار پھر بھارت کے تسلط میں جا چکا تھا۔
اب پھر پاناما کی بھٹی گرم ہے جولائی کا مہینہ ہے۔ 2 جولائی کو ہم پیالہ اور ہم نوالہ کزن طارق شفیع کی جے آئی ٹی میں پیشی ہے۔ 3 جولائی کوحسن نواز کا نمبر لگا ہوا ہے۔ 4 جولائی کو حسین نواز نے پیش ہونا ہے اور 5 جولائی کو ” ولی عہد” مریم صفدر (نواز)کی پیشی ہے ممکنہ طور پر 6 جولائی کو کلثوم نواز بھی پیش ہونے پر مجبور ہوں کہ جے آئی ٹی جس کو جب طلب کرے گی ،وہ پیش ہونے پر مجبور ہو گا اور 10 جولائی کو جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کر دینی ہے جس کے بعد توقع ہے کہ سپریم کورٹ آئندہ چند دنوں میں اس رپورٹ کی روشنی میں کوئی فیصلہ صادر کر دے، وہ فیصلہ نواز شریف کو گنگا جل سے نہایا ہوا پاک پوتر ثابت کر ے گایا پھر کرپشن کنگ اور سپریم کورٹ کے ایک جج کے رائے میں سیسلین مافیا کا گاڈ فادر ، یہ تو ابھی معلوم نہیں مگر یہ طے ہے کہ جولائی نے اپنی جولانی ضرور دکھانی ہے۔
٭٭……٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں