
غزہ میں موت کا راج
شیئر کریں
جاوید محمود
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہے جب جسم کے کسی حصے کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم محسوس کرتا ہے۔ غزہ پر ڈھائی جانے والی قیامت کسی سے پوشیدہ نہیں ۔اب تو یہ حال ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک نے بھی ان مظالم کے خلاف آواز اٹھانی شروع کر دی ہے۔ موجودہ صورتحال میں بدنصیب غزہ کے باسی نہیں ہیں ،بلکہ وہ مسلمان ہیں جو تماشائی بنے ہوئے ہیں اور ان کی مدد کو آگے نہیں بڑھ رہے۔ جنگ کی بربریت بڑھتی جا رہی ہے۔ ہلاک ہونے والے، ہلاک ہونے والوں کے ٹکڑے، مرنے والے ،فاقہ کرنے والے۔ یہ وہ مناظر ہیں جو غزہ کی پٹی میں دن بدن بڑی تعداد میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ مسلسل بمباری منصوبہ بند بھوک ،بڑے پیمانے پر بے دخلی اور ناقابل بیان غم اور نام نہاد مہذب دنیا نے نہ صرف خاموشی سے دیکھا بلکہ ہر دن اس کو ممکن بنایا ۔
آپ اسے کیا کہیں گے کہ جب 55000 سے زیادہ فلسطینی جن میں 16000سے زیادہ بچے شامل ہیں، قتل کر دیے جائیں اور اسرائیل کو کوئی جواب دہی کا سامنا نہ ہو۔ جب بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے پانی ایندھن دوا اور انسانی امداد کو ایک ایسی آبادی تک پہنچنے سے روکا جائے جو زیادہ تر پناہ گزینوں پر مشتمل ہو اسے نسل کشی کہا جاتا ہے، یہ وہ لفظ ہے جو معروف نسل کشی کے ماہرین بڑے انسانی حقوق کے ادارے اور اقوام متحدہ کے ماہرین استعمال کرتے ہیں۔ درحقیقت اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ برائے مقبوضہ فلسطینی علاقے فرانس جسکا البائزنے اعلان کیا کہ معقول بنیادیں موجود ہیں کہ غزہ میں نسل کشی کی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے 20ماہرین کے ایک مشترکہ بیان میں جاری نسل کشی کے بارے میں خبردار کیا اور دیگر اقوام متحدہ کے اداروں نے بھی ان نتائج پر بات کی ہے۔ حتی کہ اقوام متحدہ کے سینئر انسانی ہمدردی کے عہدے داروں جیسے انڈر سیکرٹری جنرل ٹام فلیچر نے بھی کھلے عام اس اصطلاح کو غزہ میں ہونے والے واقعات کی وضاحت کے لیے استعمال کیا اور جب قانونی ادارے آہستہ آہستہ ان باتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں جو فلسطینی تقریباً دو سال سے چیخ رہے ہیں ۔بمباری جاری ہے۔ بچے مرتے جا رہے ہیں اور مغربی حکومتیں اس ریاست کو ہتھیار فراہم کرتی رہتی ہیں۔ اس کی حفاظت کرتی ہیں اور اس کے قتل عام کو جواز فراہم کرتی ہیں۔ ایک سیاسی شو میں برطانیہ کی نائب وزیراعظم نے کہا کہ یہ ان کا موقف نہیں ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ آیا اسرائیل بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ یہ اس وقت ہوا جب 800 سے زیادہ برطانوی وکلا اورججوں نے وزیراعظم کیئر سٹارمرکو ایک کھلا خط لکھا جس میں حکومت سے اسرائیل کے اس بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی کے خلاف کارروائی کرنے کی اپیل کی گئی پھر اسی پروگرام میں کینی بیڈ وچ جو اب کنزرویٹو پارٹی کی رہنما ہیں اور ممکنہ طور پر برطانیہ کی اگلی وزیراعظم نے قومی ٹیلی ویژن پر کھڑے ہو کر کیئر سٹار مر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام لگایا ۔ کیونکہ انہوں نے تسلیم کیا کہ اسرائیل نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا۔ ہو سکتا ہے 600 دن کا قتل عام اور پھر بھی حکام کے لیے واحد سوال یہ ہے لیکن حماس کا کیا کردار ہے۔ گویا یہ بچوں کو زندہ جلانے کا جواز فراہم کرتا ہے گویا یہ شہریوں کے قتل عام اور پوری آبادی کو آہستہ آہستہ بھوکا رکھنے کو معاف کرتا ہے۔ ان 600 دنوں میں اسرائیل نے اسپتالوں، اسکولوں، مساجد، گرجا گھروں، بیکریوں اور پناہ گزین کیمپوں پر بمباری کی ہے۔ اس نے پورے خاندانوں کو قتل کیا ۔خاندانی نام مٹا دیے۔ اس نے صحافیوں اقوام متحدہ کے پناہ گاہوں امدادی کارکنوں اور ایمبولنسوں کو نشانہ بنایا۔ اس نے لوگوں کو زندہ جلایا۔ اس نے خیموں کو تابوتوں میں بدل دیا اور اس سب کے دوران مغربی رہنماؤں نے صرف خالی بیانات مبہم تشویش اور بے معنی انتباہات کے ساتھ جواب دیا ۔گویا اسرائیل کو مزید انتباہات کی ضرورت ہے ۔گویا روزانہ قتل عام کافی انتباہ نہیں ہے ۔آپ بچوں کی بھوک کو کیسے جواز فراہم کریں گے۔ رفع پر بمباری کو کیسے جواز دیں گے ۔جہاں خاندانوں کو محفوظ مقام کے لیے بھاگنے کو کہا گیا تھا۔ ہسپتالوں کے ارد گرد دریافت ہونے والی اجتماعی قبروں کو کیسے جواز دیں گے جہاں لاشوں پر تشدد اور پھانسی کے نشانات تھے۔ آپ نہیں کر سکتے جب تک کہ آپ یہ نہ مانیں کہ فلسطینی زندگیاں کم اہم ہیں ۔یہ ہر مبہم مذمت پر بزلانہ گہری تشویش کے بیان کے پیچھے غیرکہی گئی منطق ہے ۔کیونکہ جب دو اسرائیلی واشنگٹن ڈی سی میں قتل کیے گئے تو یہ بین الاقوامی سرخیوں میں آیا لیکن جب ہزاروں فلسطینی بچے قتل کیے گئے۔ دنیا نسل کشی کی تاریخ پر بحث کرتی رہی۔ جبکہ اس ریاست کو ہتھیار فراہم کرتی رہی جو قتل کر رہی تھی۔
یہ برابر کی جنگ نہیں ہے ۔یہ کبھی نہیں تھی۔ یہ خطے کی سب سے طاقتور فوج ہے۔ دنیا کی سب سے طاقتور قوموں کی حمایت یافتہ جو پناہ گزینوں کی ایک محصور آبادی پر حملہ کر رہی ہے۔ ان میں سے نصف بچے ہیں اوردنیا نے نہ صرف اسے اجازت دی بلکہ اس میں مدد کی ہے۔ نہ صرف کچھ نہ کر کے بلکہ غلط سمت میں بہت زیادہ کر کے، اختلاف کو خاموش کر کے صحافیوں کو برطرف کر کے احتجاج پر پابندی لگا کر یکجہتی کو جرم قرار دے کر برطانیہ میں لوگوں نے فلسطین کہنے پر اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ برطانوی میڈیا کو نسل کشی کہنے سے انکار کرتے دیکھا گیا۔ جبکہ اسرائیلی ترجمانوں کو پلیٹ فارم فراہم کرتے ہوئے جو فلسطینی بچوں کے وجود سے بھی انکار کرتے ہیں۔ یہ کبھی اتنا طویل نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ہر دن جو جاری رہتا ہے، وہ صرف ایک سانحہ نہیں۔ یہ ایک انتخاب ہے اور تاریخ یاد رکھے گی کہ یہ نسل کشی خفیہ طور پر نہیں ہوئی۔ یہ براہ راست ہوئی ہر اسکرین پر ہر زبان میں جبکہ اس کے برعکس عربوں کی ذہنی حالت پر رحم آتا ہے۔ لگتا ہے ان کی عقلوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔ سعودی عرب نے ڈونلڈ ٹرمپ کو خوش کرنے کے لیے حرم کے دروازے کھول دیے۔ خوبصورت لڑکیوں نے اپنے بال کھول کے ڈانس کرتے ہوئے اپنے حسن کی نمائش کی ۔جبکہ قطر نے انہیں 747طیارہ گفٹ کر کے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ رپورٹ کے مطابق یہ طیارہ بادشاہ کے استعمال میں تھا ۔اس لگژری طیارے کی قیمت 400 ملین ڈالرزہے۔ تصور کریں اگر یہ رقم فلسطینیوں کی امداد میں دی جاتی تو کتنی زندگیاں بچ سکتی تھی۔ یہ المیہ نہیں تو کیا ہے کہ غزہ میں موت کا راج ہے اور عربوں کو اپنی مستیوں سے فرصت نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔