
مسلم املاک کے خلاف بلڈوزر آپریشن
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
بھارت میں مودی سرکار نے پاکستان کے ہاتھوں شرمناک شکست کے بعد ملک میں مسلمانوں کے خلاف بلڈوزر آپریشن تیز کر دیا ہے۔ ہزاروں مسلمانوں کے گھروں کو غیرقانونی قرار دے کر مسمار کیا جا رہا ہے جبکہ ان افراد کے گھروں پر بلڈوزر چلا کر انہیں کھلے آسمان تلے بے یارومددگارچھوڑ دیا گیا ہے۔بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق مودی سرکار نے ریاست گجرات کے شہر احمد آباد کے علاقے چندولا تالاب میں مسلمانوں کے مکانات پر بلڈوزرچلایا ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 7ہزار سے زائد مسلمانوں کے گھروں کو زبردستی خالی کرا ملبے کا ڈھیر بنا دیاگیاہے۔ حیران کن طور پر انہی علاقوں میں موجود ہندوئوں کے مکانات کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور وہ مکمل طور پر محفوظ ہیں۔مودی حکومت اس آپریشن کو غیرقانونی بنگلہ دیشی باشندوں کے خلاف قرار دے رہی ہے، تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ مسلمانوں کو سیاسی طورپرانتقام کا نشانہ بنانے کی مہم کا حصہ۔ دفاعی اور سیاسی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ نریندر مودی ایک بار پھر گجرات کے2002 جیسے فسادات کو دوہرانے کی تیاری کر رہا ہے۔20مئی کو مسمار کیے گئے گھروں میں ایک عام شہری محمد چاند کا گھر بھی شامل تھا، جو بار بار انصاف کی دہائی دیتا رہا، مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ محض تجاوزات کے خلاف کارروائی نہیں بلکہ بھارت میں ہندوتوا انتہا پسندی کے فروغ اور مسلمانوں کے خلاف ریاستی جبر کا کھلا مظاہرہ ہے۔بھارتی اردو روزنامے نے لکھا ہے کہ یہ انہدامی کارروائی پہلگام حملے کے پس منظر میں کی جا رہی ہے۔ قبل ازیں پہلگام واقعے کے بعد علاقے میں چھ ہزار سے زائد افراد حراست میں لیے گئے تھے جن میں بیشتر مسلمان تھے۔ اس علاقے میں جو مسلمان رہ رہے ہیں ،حکام کا کہنا ہے کہ یہ بنگلہ دیشی درانداز ہیں۔مسلم تنظیموں اور انسانی حقو ق کے گروپوں نے انہدامی کارروائی پر سخت تشویش کااظہار کرتے ہوئے اس پر کڑی تنقید کی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ یہ مسلمانوں کو بے گھر کرنے کی ایک دانستہ کوشش ہے۔ انہوں نے متاثرین کی فوری طورپر آبادکاری کا مطالبہ کیا۔
بھارت کے شہر اجین میں جنوری میں حکام نے تقریباً 250 جائیدادیں، جن میں گھر، دکانیں اور ایک صدی پرانی مسجد شامل تھی، مسمار کر دیے تاکہ 2.1 ہیکٹر (5.27 ایکڑ) زمین کو صاف کیا جا سکے۔ یہ زمین مدھیہ پردیش وقف بورڈ کی ملکیت تھی، لیکن حکومت نے اسے مہاکال کاریڈور کے منصوبے کے لیے حاصل کر لیا۔بھارت میں وقف املاک کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے، جن کی تعداد آٹھ لاکھ 72 ہزار سے زائد ہے اور یہ تقریباً 405,000 ہیکٹر (10 لاکھ ایکڑ) پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کی مالیت تقریباً 14.22 ارب ڈالر بتائی جاتی ہے۔ وقف بورڈز کو ملک کے سب سے بڑے شہری زمین مالکان میں شمار کیا جاتا ہے، جبکہ مجموعی طور پر یہ فوج اور ریلوے کے بعد تیسرے نمبر پر ہیں۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی پارلیمنٹ میں وقف ایکٹ میں ترمیم پر بحث متوقع ہے، جس کے تحت حکومت کو ان جائیدادوں پر پہلے سے زیادہ کنٹرول حاصل ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ مودی حکومت وقف املاک کو اپنے قابو میں لے کر مسلم اقلیت کا مزید استحصال کرنا چاہتی ہے۔
مدھیہ پردیش کی ریاست زیادہ تر بی جے پی کے کنٹرول میں رہی ہے۔ 2023 میں اجین کے بی جے پی وزیر اعلیٰ موہن یادو نے 2028 کے کمبھ میلے کی تیاریوں کے تحت وقف املاک پر قبضہ کیا، تاکہ ہندو یاتریوں کے لیے جگہ بنائی جا سکے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت نے 1985 کے سرکاری دستاویزات کو نظر انداز کر دیا، جن میں یہ واضح تھا کہ اجین کی زمین ایک مسلم قبرستان تھی، جہاں ایک تاریخی مسجد بھی موجود تھی۔حکومت نے 3.8 ملین ڈالر کی رقم ان افراد کو معاوضے کے طور پر ادا کی جن کے گھر اور دکانیں مسمار ہوئیں، لیکن وقف بورڈ نے نہ تو اس زمین پر اپنا حق جتایا اور نہ ہی عدالت میں کوئی مقدمہ دائر کیا۔ مدھیہ پردیش کے وقف بورڈ کے چیئرمین اور بی جے پی رہنما ثناور پٹیل نے کہا کہ وہ پارٹی کے حکم کے مطابق عمل کریں گے کیونکہ وہ اسی کی بدولت اپنے عہدے پر ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ وقف املاک کے انتظام میں ہمیشہ بدنظمی اور کرپشن رہی ہے، جس کی وجہ سے حکومتی افسران اور نجی قابضین ان پر غیر قانونی قبضہ کرتے رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش وقف بورڈ نے 1960 اور 1980 کی دہائی میں اپنے املاک کا سروے کیا، لیکن حکومتی محکمے نے ان کے ریکارڈ کو اپ ڈیٹ نہیں کیا۔ دیگر ریاستوں میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے، جہاں وقف کی ہزاروں جائیدادیں یا تو سرکاری قبضے میں چلی گئی ہیں یا پھر بااثر افراد کے کنٹرول میں ہیں۔ بی جے پی حکومت کے ایک این جی او کو 2021 میں بھوپال میں ایک وقف قبرستان پر قبضے کی اجازت دی گئی، جس کے بعد وہاں ایک کمیونٹی ہال تعمیر کیا گیا۔ مقامی مسلم آبادی کے احتجاج کے خدشے کے پیش نظر حکومت نے علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا تھا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایک منظم طریقے سے وقف املاک پر قبضہ کیا ہے اور مجوزہ ترامیم کے ذریعے وہ قانونی طور پر ان پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ وقف زمینوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث حکومت نے ان جائیدادوں پر نظریں جما لی ہیں اور نئی قانون سازی کے ذریعے ان پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔