ماضی کا عمران خان اور اب وزیر اعظم عمران خان
شیئر کریں
پاکستان کی سیاسی تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ 1954سے 2018 کے دوران پاکستان میں 13 عام انتخابات منعقد ہوئے جن میں 7بار مسلم لیگ کو کسی نہ کسی شکل میں کامیابی ہوئی جن میں قیا م پاکستان سے قبل قائم ہونے والی مسلم لیگ کی کوکھ سے جنم لینے والی کنونشن مسلم لیگ نے جنرل ایوب خان ،جونیجو مسلم لیگ اور مسلم لیگ نوازنے جنرل ضیاء الحق اور قائیداعظم مسلم لیگ نے جنرل پرویز مشرف کے مارشلاء ادوار میں اقتدار کے مزے لوٹے۔پاکستان پیپلز پارٹی نے پانچ بار الیکشن جیتے ،دو مرحوم ذوالفقار علی بھٹو، دو مرحومہ بے نظیر بھٹو اور ایک آصف علی ذرداری کی قیادت میں۔ملک کی 73سالہ تاریخ میں باری باری مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کی تشکیل پر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کسی تیسری پارٹی کی حکومت کی بات اٹھائی گئی اور یہ تصّور جنرل پرویز مشرف کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔وہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو ملک کا وزیر اعظم بنانا بھی چاہتے تھے لیکن چونکہ 2002کے الیکشن میں چوہدری شجاعت کی قائیداعظم مسلم لیگ کو قومی اسمبلی میں اکثریت ملی تھی اور پی ٹی ٹی آئی کے عمران خان صرف اکیلے کامیاب ہوئے تھے اس لیے یہ بات آگے نہ بڑھ سکی تھی۔پھر 2008کے الیکشن میں قومی اسمبلی میںپی ٹی آئی کوئی نمائیندگی نہیں تھی ۔مگر 2013کے انتخابات میں مسلم لیگ نون کی بھاری اکثریت سے کامیابی کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کی 27 نشستیں ملنے اور خیبر پختونخواہ میں صوبائی حکومت کے اقتدار میں آنے کی بنا پر عمران خان ملک کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ایک تیسری قیادت کے طور پر سامنے آئے اور یوںپھر 2018 کے الیکشن میں قومی اسمبلی میں 149 نشستوں پر پی ٹی آئی کی کامیابی سے اکثریتی جماعت ہونے کی بنا پر وہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوگئے اور یوں ان کی جانب سے وزیر عظم بننے کے لیے 22سالہ طویل جدو جہد کے بعد انھیں اپنے مقصد میں کامیابی ملی۔
2013کے الیکشن میں قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کو حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت کے سامنے آنے پر عمران خان کو ایک فعال لیڈر کا کردار کرنے کی بنا پر عوام کی وسیع حمایت ملنے کے سلسلہ شروع ہوا تو دوسری جانب قومی و صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن جیتنے والے گھوڑوں نے بھی پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے والے لگے جس کا آغاز لاہور میں مینار پاکستان کے گراونڈ پر ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے جلسہ کے بعد ہوگیا تھا۔عمران خان اس دور میں قومی اسمبلی میں اچھی خاصی نشستیں رکھنے کے باوجود اس کے اجلاسوں میں شرکت کرنے سے گریز کرتے رہے ، اسلام آباد کے ڈی چوک پر 126دن تک جاری دھرنے کے دوران قومی اسمبلی کو چوروں اور ڈاکوں کا گڑھ قرار دیتے رہے،مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنماوں پر کرپشن اور بدعنوانیوں میں ملوث ہونے کے سنگین الزامات لگا کر اقتدار میں آنے پر انکے خلاف مقدمات قائم کرکے جیل بجھوانے کے دعوے کیے گئے، اقتدار میں آنے کے 90 روز کے دوران ملک سے کرپشن کا خاتمہ کرنے کا اعلان کیا گیا،آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے بجائے خوکشی کرنے کو بہتر قرار دیا، مسلم لیگ نون کی حکومت کے دور میں اہم عہدوں پر فائیز افسران اور پولیس کے اعلیٰ عہدہ داروں کو سنگین نتائیج بھگتنے اور الٹ لٹکانے کی دھمکیاں دی گئیں۔مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے رہنماوں کی جانب سے لوٹی گئی 300ارب سے زیادہ رقم قومی خزنے میں لانے کا اعلان کیا گیا،مزدوروں اور کسانوں کی تقدیر بدلنے کے دعوے کیے گئے،سندھ،پنجاب اور بلوچستان میں سول بیروکریسی اور پولیس ریفارمز کے دعوے کیے گئے اور ایک نیا اور بہت بہتر اور خوشحال پاکستان کے عوام کو خواب دکھائے گئے تھے۔ ملک میں ایک کروڑ نوجوانوں کو روزگار دینے اور بے گھر افراد کے لیے 50لاکھ مکانات کی تعمیر بھی حکومت کے پروگرام کا حصہ بتایا گیا تھا۔
اب جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے حکومت کے دوسال مکمل ہونے والے ہیں اور جس نے ملک میں تبدیلی لانے کے بلند وبانگ دعوے کیے تھے اور عوام کو بہتر مستقبل کے سنہرے خواب دکھائے گئے تھے، دیکھتے ہیں ان کاکیا بنا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار میں آکر سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اہمیت ملک سے کرپشن اور بدعنوانیوں کے خاتمہ کو دی ہے اس سلسلے میں ماضی کی دو حکمراں جماعتوں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے تمام سرکردہ رہنماوں کو کرپشن میں ملوث ہونے کے الزامات پر گرفتار کرکے مقدمات قایم کیے گئے اور ان کو جیل بھیجا گیا جن میں سے زیادہ تر لوگ اعلیٰ عدالتوں سے ضمانت حاصل کرکے رہا ہوچکے ہیں اور کسی ایک سیاسی رہنما کو ابھی تک نہ تو کسی مقدمہ میں سزا ہوئی ہے اور نہ ہی لوٹی ہوئی رقم کی ایک پائی واپس ہو سکی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ملک سے کرپشن اور بدعنوانیوں کا خاتمہ کرنے کے سب سے بڑے دعویدار عمران کی نظر صرف ملک کو دو بڑی جماعتوں کے رہنماوں کے خلاف کی کاروائی کرنے کی حد تک محدود ہے جبکہ ملک کے تمام وفاقی و صوبائی سرکاری اداروں،عدلیہ، پولیس اور مقامی حکومتوں رشوت اور لوٹ کھسوٹ بدستور بڑے زور و شور کے ساتھ نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں اور اضافہ ہو گیا ہے،پولیس کی جانب سے بلاجواز گرفتاریوں،تھانوں میں تشدد او بھتوں کی وصولی اوررنام نہاد پولیس مقابلوں کا سلسلہ جاری ہے، اسٹریٹ کرائمز اور چھوٹے بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کردینے کے واقعات میں بھی کوئی کمی دیکھنے بھی نہیں آئی ہے جو عمران خان کے پولیس ریفارمز کے وعدوں پر ایک بڑاسوالیہ نشان ہے، بیوروکریسی کو لگام دینے والے وزیر اعظم کو اس وقت ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے جب نیب کی جانب سے کچھ اعلیٰ افسران کو گرفتار کرنے کے بعد بیوروکریسی نے کام کرنا چھوڑدیا تھا اور پھر حکومت کو ان افسران سے مذاکرات کے بعد نیب کو حکومت کی اجازت بغیر کسی سرکاری افسر کی گرفتاری سے روک دیا گیا ۔اسی طرح نیب کو ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے رہنماوں کو کرپشن میں ملوث کے الزمات کی بنا پر کائی کاروائی کرنے سے بھی روک دیا گیا ۔
ملک سے کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کے خلاف جہاد کرنے کے دعویدار عمران خان کی حکومت کو اس وقت سب سے بڑا دھچکہ اس وقت لگا جب گزشتہ سال ملک میں آٹے اور چینی کی قلت کے بحران اور ان کی قیمتوں میں بے حد اضافہ اور بجلی کمپنیوں کی لوٹ کھسوٹ کے بارے میں موجوہ حکومت کی تشکیل کردہ تحقیقاتی کمیٹیوں کی رپورٹ میں پی ٹی آئی کی حکومت میں شامل ان ہی کے وزیروں اور مشیروں کے نام سامنے آئے۔شوگر مافیا آٹھ ماہ تک چینی کی قیمتوں میں اضافہ کرکے اربوں روپے کا ڈاکہ ڈال کر عوام کو لوٹنے میں مصروف رہے اور موجودہ حکومت کو اس کی خبر تک نہ ہوئی جبکہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے دور کی چھوٹی سے چھوٹی بدعنوانی انکی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتی ہے۔اب جبکہ وزیر اعظم عمران خان ماضی کی حکومتوں کی کرپشن اور بدعنوانیوں کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ہیں ملک میں آٹے ، چینی اور ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کے اسکینڈلز،آٹے اور چینی کی افغانستان اسمگلنگ، بھارت سے غیر ضروری ادویات کی درآمد اورکورونا وائیرس کے بحران کے باوجود ماسک کی بڑی تعداد برآمد کرینے کو جو معاملات میڈیا ذریعے بے نقاب ہوچکے ہیں اور موجودہ حکومت ان بدعنوانیوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرتی ہے تو پھر اقتدار سے محرومی کے بعد عمران خان اور انکے وزیروں و مشیروں کو ان ہی حالات کا شکار ہونے پڑے گا جن سے آج مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی قیادت سامنا کررہی ہے۔
اقتدار میں آنے سے قبل وزیر اعظم عمران خان کا کہا تھا کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو ملک کا نظام چلانے کے لیے آئی ایم ایف سے قرض لینے کے بجائے خوکشی کرنا بہتر سمجھیں گے لیکن اپنی حکومت میں آنے کے پہلے ہی سال آئی ایم ایف ہی کے ایک بندے حفیظ شیخ کو اپنی حکومت کا مشیر خزانہ بنا کر 16بلین امریکی ڈالرز کا قرضہ لے لیا۔عمران خان وزیر اعظم بنے سے قبل جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے حامی تھے دو سال میں بھی نہ بناسکے۔عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل پارلیمنٹ کو اس کا اصل مقام دلانے کی بات کرتے تھے اور ہفتہ میں ایک بار اسمبلی میں آنے کا وعدہ کیا تھا اب صورتحال حال یہ کئی کئی مہینے اسمبلی نہیں جاتے اور پارلیمنٹ کو یکسر نظر انداز کرکے اپنی کابینہ کو اہمیت دیتے ہیں جس کا ہر ہفتہ باقاعدگی کے ساتھ اجلاس ہوتا ہے۔عمران خان نے کہا تھا کہ وزیر اعظم بن جانے کے بعد ان کی کابینہ میں دس سے زائید وزیر نہیں ہونگے اب کی کابینہ پچاس سے زائید وزیروں اور مشیروں پر مشتمل ہے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ بحیثیت وزیر اعظم موجودہ محل نما وزیر اعظم آفس میں نہیں بیٹھیں گے اور کسی چھوٹی عمارت میں اپنا آفس بنائیں گے اور وزیر اعظم ہاوس کو یونیورسٹی بنادیں گے ہوا کیا وہ اب بھی اس محل نما وزیر اعظم ہاوس میں کام کرتے ہیں اور یونیورسٹی کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ اسی طرح لاہو ر ، کراچی،پشاور اور کوئیٹہ کے گورنر ھاوسز یونیورسٹیوں میں تبدیل ہونے تھے لیکن ہنوز دلی دور است ہے۔عمران خان وزیر اعظم بننے سے قبل آزاد میڈیا کے بڑے حامی تھے اور انکا کہنا تھا کہ وہ میڈیا ہی کی سپورٹ کی بنا پر اس مقام پر پہنچے ہیں لیکن انکے اقتدار میں آنے کے بعد میڈیا ہی سب سے زیادہ تباہی و بربادی کا شکار ہے۔اشتہارات بڑی حد تک کم کردئے گئے ہیں،پیمرا کے ذریعے پریس ایڈوائیس بھیجنے اور ان کی خلاف ورزی پر نوٹس دینے میں اضافہ ہو گیا ہے۔بے شمار میڈیا ہاوس بند ہوگئے اور سینکڑوں صحافی بے روزگار ہوچکے ہیں اور عمران خان لوگوں کو اخبار نہ پڑھنے اور ٹی وی ٹاک شوز کو فضول قرار دے رہیں جن میں وہ ماضی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔عمران خان سانحہ ماڈل ٹاون میں ملوث افراد کو کیفر کردار پہنچانے کے بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے لیکن ان کی حکومت کے دو سال میں اس سانحہ کے مظلومین اب تک انصاف سے محروم ہیں۔عمران خان ماضی میں شیخ رشید، چوہدری پرویز الہیٰ اور ایم کیو ایم کے خلاف انتہائی نفرت انگیز رویہ کا اظہار کیا کرتے تھے یہ سب لوگ آج ان کی حکومت کا حصہ ہیں اور اہم عہدوں پر فائیز ہیں۔عمران خان پہلے آزاد اراکین اسمبلی کو بکاو مال اور فضول کہا کرتے تھے لیکن اپنی حکومت بنانے کے لیے سب سے زیادہ خرید فروخت ان ہی نے کی ۔
عمران خان جنہوں نے اپنی 22سالہ سیاسی جدوجہد کے دوران ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے عوام سے ہر قسم کے وعدے کیے تھے اس وقت ان کو امور حکومت کو سمجھنے اور نظام حکومت چلانے کے کا کوئی تجربہ نہیں تھا،انھیں ملک کی انتہائی طاقتور سول اینڈ ملٹری بیوروکریسی کے اثر ورسوخ کا کوئی پتہ نہ تھا۔ان کو یہ معلوم ہی نہ تھا کہ اپنی ذاتی انا اورخواہش کے مطابق قانون سازی اور قانون سے بالا تر اقدامات پر عدلیہ کس طرح ایک مضبوط دیوار ثابت ہوسکتی ہے،نیب اور ایف آئی اے سیاستدانوں پر الزامات لگاکر انھیں گرفتار تو کرسکتی ہیں مگر اپنے ناکار تفتیشی نظام کی بنا پر عدالتوں میں کیسز ہارجاتی ہیں، پولیس کو کتنا ہی سدھارنے کی کوشش کی جائے مگر وہ اپنی ہی ڈگر پر چلتی رہتی ہے،کرپٹ لوگوں کو اسمبلیوں میں لاکر اور حکومتی اہم عہدوں پر فائیز کرنے کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں انھیں اس اس حقیقت کا اندازہ ہی نہ تھا اس لیے انھیں آٹا اور چینی کی قلت اور قیمتوں میں اضافہ کی تحقیقات کی رپورٹ آنے پر انھیں یوں شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔وزیر اعظم عمران کی حکومت پاکستان مسلم لیگ قاف،پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ نون سے مستعار لیے گئے لیڈروں اور پی ٹی آئی کے بہت کم رہنماوں پر مشتمل ہے جو کسی بھی طرح ملک کو اسٹیٹس کو سیاست سے نہیں نکال سکے گی ۔عمران خان نے اپنی حکومت ایک پرانی عمارت میں نئی اینٹیں لگار کر ایک شاندار عمارت تعمیر کرنے کی کوشش کی ہے مگر جس عمارت کی بنیاد ہی کمزور ہو تو کسی بھی وقت وہ گرسکتی ہے جس کا اندازہ انھیں اپنی ہی حکومت میں میں شامل ماضی کے کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف کرپشن پر کاروائی شروع کرکے ہوجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔